مسلم تنظیموں کے نمائندوں،ممتازرہنماؤں اوردانشوروں کاملک کی سیاسی و سماجی صورتحال پر اظہار تشویش، اقلیتوں اور مظلوموں کے اتحاد پر زور، انصاف کے لیے مل کر لڑنے کاعزم

ہجومی تشدد، بلڈوزر راج،نفرت و عداوت کی سیاست، اقلیت مخالف معاشی پالیسی ،سی بی ایس ای کی اردودشمنی، انتخابی حلقوں کی حدبندی،دہلی کے متاثرین فسادات کے لیے انصاف، بےگناہ قیدیوں کی رہائی،مظلومین آسام کی دادرسی اوروقف ترمیمی بل سمیت اہم امور پر 20 سے زائد قراردادیں منظور، پڑوسی ممالک اور فلسطین کے حالات و واقعات اورہندوستان پران کےاثرات بھی زیر بحث آئے

نئی دہلی: ملک کی مؤقر مسلم تنظیموں اورممتازاشخاص کے وفاق “آل انڈیامسلم مجلس مشاورت” کا سالانہ اجلاس ہفتے کو نئی دہلی میں منعقد ہوا۔ مہاراشٹر، جھارکھنڈ، کرناٹک، مغربی بنگال، تلنگانہ، دہلی، اتر پردیش، ہریانہ اور بہار کے نمائندوں کی ایک اچھی تعداد نے اس میٹنگ میں شرکت کی اور ملک وملت کو درپیش مسائل پرغوروفکرمیں حصہ لیا۔مسلم تنظیموں کے نمائندوں، ممتاز قائدین ، ارکان پارلیمنٹ ، دانشوران،علمائے دین اور اصحاب رائے نے اس موقع پر ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ، اقلیتوں اور دیگرکمزور طبقات کے اتحاد پر زور دیا اور انصاف کے لیے مل کر جدوجہد کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
ہجومی تشدد، نفرت کی سیاست، حکومت کی اقلیت مخالف اقتصادی پالیسی ، سی بی ایس ای کے اردو مخالف فیصلے، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی حالت، انتخابی حلقوں کی حد بندی، وقف ترمیمی بل، ذات برادری کی مردم شماری، بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں بلڈوزر راج، آسام اور یوپی کی تشویشناک صورت حال ،شمال مشرقی دہلی( 2020 ) کےمتاثرین فسادات کے لیے انصاف اوربےگناہ قیدیوں کی رہائی جیسے سلگتے مسائل پر تقریباً 20 قراردادیں منظور کی گئیں۔ اجلاس میں پڑوسی ممالک کی صورتحال ، فلسطین کے لوگوںپراسرائیلی مظالم اور دنیا پر اس کے اثرات بھی زیربحث آئے اوران پرقراردادیںمنظور کی گئیں۔
شرکائے اجلاس کی پختہ رائے تھی کہ مسلمانوں کے خلاف حکومت کے دشمنانہ رویے، اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف ریاستی ایجنسیوں کے استعمال اور نفرت کی سیاست کا متحد ہوکر مقابلہ کرنا ہے۔ صدرمشاورت فیروز احمد ایڈوکیٹ نے اپنے صدارتی کلمات میںبھی اس عزم کا اعادہ کیا۔انہوں نے کہاکہ ہم مسلمانوں کوبانٹنے کے لیے “پسماندہ غیرپسماندہ کارڈ” کھیلنےکی اجازت ہرگزکسی کونہیں دیںگے۔ انہوں نےکہا کہ مشاورت اپنی صوبائی یونٹوں کو مضبوط کرےگی اور کم ازکم 20 ریاستوں میں مشاورت کواسی سال فعال کیاجائےگا جبکہ مشاورت کے رکن اور سابق رکن پارلیمنٹ شاہد صدیقی نے اس موقع پرمشاورت کے ماضی کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مشاورت ایک بااثر تاریخی تنظیم رہی ہے جس کی ساکھ کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں ارکان مشاورت پرزور دیا کہ آپ اس کی کریڈبلیٹی کو رسٹور کریں ،نہ توافراد کی کمی ہوگی نہ وسائل کی کمی رہےگی ۔انہوں نے کہا کہ مسلم ممبران اسمبلی و پارلیمنٹ کے درمیان آپسی روابط بڑھانےکی ضرورت ہے، مشاورت اس پر کام کرے کہ مسلم ممبران پارلیمنٹ و اسمبلی کم ازکم اسمبلی و پارلیمنٹ کے ہر اجلاس سے پہلے میٹنگ کیاکریں۔مشاورت نےان کی اس تجویزپررکن پارلیمنٹ جناب ای ٹی محمد بشیر ، سابق ممبران پارلیمنٹ جناب شاہد صدیقی، جناب عزیز پاشا، جناب کنور دانش علی ،جناب م افضل اورمشاورت کے سابق صدر جناب نوید حامد پرمشتمل پارلیمانی امورکی ذیلی کمیٹی تشکیل دی۔ اسی طرح مشاورت کے رکن اوراتر پردیش کے معروف سیاسی و سماجی رہنما اخترحسین اختر نے کہا کہ مشاورت کو اوقاف اور دوسرے اہم امور پر مسلمانوں کے لیے گائڈ لائن جاری کرنا چاہیےاور اس کام کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جائےجبکہ مشاورت کے نائب صدر نوید حامد نے کہا کہ ملک بھر سےسیکڑوں میل کا سفر کرکے ارکان و مندوبین کا اس اجلاس میں شریک ہونا ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ ملت کے مسائل میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ انہوںنے کہاکہ مشاورت کواب بھی ملک و بیرون ملک،سیاسی و سماجی حلقوں میں سنجیدگی سے لیاجاتاہے۔
اس سے قبل مشاورت کے جنرل سکریٹری (میڈیا) احمدجاویدنے مشاورت کی گذشتہ کارروائیوں کی رپورٹ پیش کی ۔ رپورٹ میں ان صحافیوں کے لیے قانونی امدادکا نظم جو سچائی کو سامنے لانے کے لیے اپنے آپ کواوراپنے مستقبل کو خطرے میں ڈالتے ہیں اوراسی طرح میڈیا مانیٹرنگ سیل اور ڈیٹا سینٹر کے قیام کے منصوبے کی تفصیلات بھی شامل تھیں۔مشاورت نے ملک وقوم کو درپیش مسائل پر قومی کنونشن بلانےاور سید شہاب الدین کی یاد میں سالانہ لیکچر کرانےکا بھی اعلان کیا ۔پہلا سیدشہاب الدین میموریل لکچر اس سال 4 نومبر کو منعقدکیاجائےگا۔ رپورٹ میں مشاورت کی عمارت کی تعمیر نو اور مشاورت ریفرنس لائبریری کے استحکام کی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی گئی اوربتایاگیاکہ دفتر مشاورت میںایک علاحدہ ریڈنگ روم کی سہولت بھی ہے جو مسابقتی امتحانات کی تیاری کرنے والے طلباء کے لیےوقف ہے۔
مشاورت کےجنرل سکریٹری (فائنانس)جناب احمدرضا نے سال گذشتہ کی آمدوخرچ کا حساب وکتاب اور سال 2024-25کابجٹ پیش کیا۔بنگلور (کرناٹک) سےآئے رکن مشاورت حیدرولی خاں نے مشاورت کے بجٹ میں انتظامی اموراورمیڈیا کےلیےرقوم میں اضافہ کرنے کی تجویز رکھی جس کی حاضرین نے تائید کی اوربجٹ کواتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔
میٹنگ کے دوسرے حصے میں ڈاکٹر قیصر شمیم ،سابق سکریٹری سنٹرل وقف کونسل(حکومت ہند) نے وقف ترمیمی ایکٹ 2024 پر قرارداد پیش کی جس پر بحث میں سابق ایم پی عزیز پاشا اور دیگراراکین نےحصہ لیا۔اسی طرح ہجومی تشدد پرقراردادپر خورشید حسن رومی، منظور احمد اورسپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ اعجاز مقبول نےتجاویزپیش کیں۔ دونوں قراردادیں ان مسائل پر مرکزی حکومت اور ریاستوں کی این ڈی اے حکومتوں کی پالیسیوں اور کام کاج کے طریقے کو مسترد کرتی ہیں۔قرارداد میں نشاندہی کی گئی کہ قانون کے نفاذ کے تقریباً تین دہائیوں کے بعد بھی حکومت وقف ایکٹ 1995 کے تحت اوقاف کا سروے کرانے میں ناکام رہی ہے، نئے قواعد و ضوابط کی توضیع ، بورڈ میں کل وقتی سی ای او کی تقرری اور قانون کے دیگر مینڈیٹ پربھی اس نے عمل درآمد نہیںکیا۔ یہ صرف ریاستیں ہی نہیں جو ایکٹ کو نافذ کرنے میں ناکام رہی ہیں، مرکز بھی نگرانی کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سنٹرل وقف کونسل کی میعاد 3فروری2023 کو ختم ہو گئی تھی اور اس کی تشکیل نو نہیں کی گئی ۔ کونسل کے سیکرٹری کو 11اپریل2023 کو رخصت کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے کونسل میں کوئی کل وقتی سیکرٹری نہیں ہے۔مشاورت نے سوال اٹھایا کہ اگر مرکزی حکومت ایکٹ کی پابندی کرنے میں ناکام رہتی ہے تو وہ ریاستوں سے بورڈز میں کل وقتی سی ای او کی تقرری کے لیے کیسے کہہ سکتی ہے؟مسلم تنظیموں کے وفاق نے نفرت انگیز تشدد اور ہجومی تشدد کے مسلسل اور نہ رکنے والے واقعات کی عدالتی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا اور نفرت اور تشدد کی سیاست سے ملک کے سماجی تانے بانے کو لاحق خطرات پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
شمال مشرقی دہلی(2020 ) کے فرقہ وارانہ فسادات کے شدید اثرات کودیکھتے ہوئے مشاورت متاثرین کے لیے ا ہدافی امداد اور انصاف کی فوری ضرورت کرتی ہے۔ ان فسادات کے نتیجے میں تقریباً 55 بے گناہ افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئےتھےجس سے متاثرہ کمیونٹیز کوبڑے پیمانے پر صدمات پہنچے اور نقل مکانی ہوئی۔یہ قرارداد انصاف میں تاخیرکے پریشان کن رجحان اور عمر خالد، خالد سیفی، گل افشاں فاطمہ، اور دیگر کارکنوں کی مسلسل قید کی طرف بھی توجہ مبذول کراتی ہے جنہیں ان کی پرامن سرگرمیوں کے سلسلے میں ناحق حراست میں لیا گیا ہے۔ قرارداد میں کہا گیاہے کہ انصاف میں تاخیر متاثرین کے درد کو مزید بڑھاتی اور قانون وعدالت کے عمل کی سالمیت پرگہرا سایہ ڈالتی ہے۔
ہجومی تشدد اور مسلم مخالف سیاست پر منظور احمد، خورشید حسن رومی، اختر حسین اختر،خواجہ جاویدیوسف ایڈوکیٹ اور دیگر نے تجاویز پیش کیں۔ آسام، منی پور اور اتر پردیش کی سماجی و سیاسی صورتحال پر الگ الگ قراردادیں منظور کی گئیں، سبھی نے ملک میںبڑھتے ہوئے تشددکے رجحانات اور نفرت کی سیاست کی مذمت کی اور سماجی تانے بانے کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کیا۔
جموں و کشمیر پر مشاورت کی منظور کردہ قرارداد باہمی تعاون اور اشتراک عمل پر مبنی نقطہ نظر کی توثیق کرتی ہے جو جموں اور کشمیر میں دیرپا امن، خوشحالی اور جمہوریت کی بقا کی راہ ہموار کرے گی اوریہ ریاست کےدرجے کی بحالی، مقامی اداروں کو بااختیار بنانے ،حالات کے موافق اور بہتر نظم و نسق کی فراہمی، منتخب حکومت کو بااختیار بنانے، جمہوریت کو مضبوط کرنے، نگرانی میں کمی لانے، اعتماد کو فروغ دینے، سیاسی آزادی کی بحالی، محروسین کی رہائی، مکالمے کی حوصلہ افزائی، پریس کی آزادی، میڈیا پر پابندیوںکےخاتمے، انتظامیہ میں شفافیت، سماجی و اقتصادی ترقی، انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری، جامع ترقی، کمیونٹی کی شمولیت اور ایسےتعلیمی پروگراموں کے نفاذ کی راہ اپنانے کامطالبہ کرتی ہےجس سےامن اور ہم آہنگی کوتقویت پہنچے۔مشاورت جموں و کشمیر کی بہبود کے لیے پرعزم ہے اور اس کا ماننا ہے کہ یہ اقدامات ایک ہم آہنگ اور خوشحال مستقبل کے لیے اہم ہیں۔
مشاورت نے اس پرزوردیاہے کہ اترپردیش اوراین ڈی اے کے زیراقتداردوسری ریاستوں میں “بلڈوزر راج” آمریت اورمطلق العنانیت کی طرف ایک خطرناک پیش قدمی کی علامت ہے، اور مشاورات ان انہدامی کارروائیوں کے متاثرین کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے جوماورائے قانون و عدالت کی گئی ہیںاور ان کےلیےانصاف کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم ایسے اقدامات کی مزاحمت کریں جن سے ملک کےسماجی تانے بانےاورجمہوریت کو نقصان پہنچتاہے۔مسلم تنظیموں کے کانفیڈریشن نے آسام اور پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق، وقار اور تحفظ کی وکالت کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیااور اس نےہیمنتا بسوا سرما کی قیادت والی بی جے پی حکومت کی تفریق اور تفرقہ انگیز پالیسیوں اور وزیر اعلیٰ کے مسلم مخالف بیانات کی مذمت کی۔ ملک کی تمام پسماندہ برادریوں کے ساتھ یکجہتی کااظہارکرتے ہوئےمشاورت نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ہم ظلم وجبر، تفریق و تعصب اور ناانصافی کے خلاف کھڑے ہیں، ایک ایسی قوم کےقیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جہاں ملک کے آئین کے اصولوں کے مطابق ہر شہری کے ساتھ احترام اور انصاف کا برتاؤ کیا جائے اور ان لوگوں کو قانونی مدد فراہم کرنے کا مطالبہ کیا جو این آر سی سے غلط اخراج کے متاثرین ہیں اور وہ لوگ جنہیں حراست یا بے وطنی کا سامنا ہے۔قرارداد میں کہاگیاہے کہ آسام میں ریاستی جبر اور تشدد کے متاثرین کو خوراک، پناہ گاہ اور صحت کی دیکھ بھال سمیت انسانی امداد فراہم کی جانی چاہیے۔
ذات برادری کی مبنی مردم شماری پر منظور کردہ قرارداد میں مشاورت نے سماجی انصاف، مساوات، اور تمام پسماندہ برادریوں کی ترقی کے لیے اپنی سنجیدگی کا اعادہ کیااور کہا کہ “ہم سمجھتے ہیں کہ ذات پات کی ایک جامع مردم شماری ان اہداف کو حاصل کرنے کی جانب ایک ضروری قدم ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس مردم شماری کو دیانتداری کے ساتھ کرائے اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اعداد و شمار کو ایک زیادہ منصفانہ اور منصفانہ معاشرہ بنانے کے لیے استعمال کرے”۔جبکہ مشاورت نے انتخابی حلقوں کی حد بندی کے بارے میں ایک تفصیلی قرارداد میںکہاہے کہ وہ شدت سے محسوس کرتی ہے کہ ماضی میں حد بندی کے عمل کو مخصوص آبادیوں اور برادریوں بالخصوص مسلم کمیونٹی کی نمائندگی پر منفی اثر ڈالنے کے لیے بار بار استعمال کیا گیا ۔ ماضی کی حد بندی کی مشقوں کے مطالعہ سےمسلم مجلس مشاورت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ تقریباً 80 لوک سبھا سیٹیں جن میںمسلم ووٹروں کاارتکاز ہے، ایس سی کمیونٹی کے لیے مختص کی گئی ہیں جب کہ درج فہرست ذاتوں کی کثیر آبادی والے حلقوں کو جنرل سیٹوں کے زمرے میں رکھاگیاہےاور ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔ تشویش یہ ہے کہ درج فہرست ذاتوںکی آبادی کے بڑے حصے کو لوک سبھا کی نشستوں یااسمبلیوں کے جنرل زمرے میں رکھنے کا بنیادی مقصد نہ صرف درج فہرست اقوام کی خود انحصار قیادت کے ابھرنے کے دروازے بند کرنا ہے بلکہ اس بات کو یقینی بنانا بھی ہےکہ ایس سی برادری کا بڑا حصہ ذات پات کی ہندو قیادت کے چنگل میں پھنسارہے۔
جناب نوید حامد نے سی بی ایس ای کی اردو مخالف پالیسیوں پر ایک قرارداد پیش کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا کہ اردو میں سوالات کے پرچے نہ جاری کرنے یا جوابات اردو زبان میں دینے پرروک لگانےکے منمانے فیصلے سے ایک لاکھ سے زائد طلباء کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے جبکہ ڈاکٹر جاوید عالم نے حکومت کی اقلیت مخالف معاشی پالیسیوں پر قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا کہ اقلیتی بہبود کا بجٹ گھٹتے گھٹتے صرف06 . 0فیصد رہ گیا ہے۔
بین الاقوامی صورتحال پر قرارداد سابق سفیر برائے فلسطین ذکر الرحمن نے پیش کی جس میں سابق رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی، نوید حامد، ڈاکٹر تسلیم رحمانی، شاہد صدیقی، اور دیگر ارکان نے مداخلت کی۔مشاورت نے غزہ اور مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں شہری اہداف پر اسرائیل کی بری، بحری اور فضائی افواج کی طرف سے غیر انسانی بمباری، گولہ باری اور راکٹ حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ مجلس نے شہری آبادیوں کی بڑے پیمانے پربےدخلی، ہسپتالوںاور صحت کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور دانستہ طور پران اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی عمارتوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کی جہاں بے گھر فلسطینی بمباری سےبچنے کے لیے پناہ لیتے ہیں۔ اسرائیل کے یہ اقدامات نہ صرف بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی کھلی پامالی ہیں بلکہ انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم بھی ہیں۔ جب کہ اجلاس نے پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں ہونے والی تازہ ترین پیش رفت کو نوٹ کیا اور کہا کہ وہ اس کے شہریوں کے معمولات زندگی ، تحفظ اور خوش حالی کی جلد واپسی کی خواہاں ہے۔ اقلیتوںکی جان ومال اور ان کے اداروں کے تحفظ کی ضمانت اور بنگلہ دیش کے شہریوں کے لیے امن و سلامتی اور پورے خطے میں استحکام کی ضمانت کے لیے بیرونی حلقوں یا ایجنسیوں کی مداخلت کے بغیر حقیقی جمہوری عمل کے آغاز کی ضمانت چاہتی ہے۔ تمام قراردادیں متفقہ طورپر منظور کی گئیں۔
اجلاس کا آغاز مجلس عاملہ کےسینئر ممبر سید منصور آغا کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ مولانا اظہر مدنی نے گزشتہ ایک سال میں انتقال کرنے والی ممتاز شخصیات کے لیے قراردادتعزیت پیش کی۔ تقریباً 40 ممبران اور متعدد مندوبین نے ملک وملت کو درپیش سلگتے مسائل پر بحث میں حصہ لیا۔ شرکائے اجلاس میں محمد احمد مومن (اورنگ آباد)، ڈاکٹر ایم این حق (کولکتہ)، ڈاکٹر ادریس قریشی (دہلی)، اختر حسین اختر (کانپور)، انجینئر سکندر حیات، محمد عمران انصاری، انوار احمد، حافظ محمد جاوید (دہلی)، منظر جمیل (کولکاتہ)، جناب ہارون الرشید(مرشدآباد)، جناب منظور احمد( رانچی)، ابرار احمد آئی آر ایس (ر)، مولانا محمد سلیم (مرادآباد)، عبدالخالق(دہلی)، آصف انصاری ( صدر یوتھ انڈین یونین مسلم لیگ)اورجناب عاکف احمدشامل تھے۔ مغربی بنگال، دہلی اور جھارکھنڈ کے صدور نے بھی میٹنگ میں شرکت کی۔

جاری کردہ:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *