آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت کے قومی اجلاس میں منظور کی گئی

تاریخ:21 ستمبر2024

ہندوستان کے آئین کی رو سے ہر دس سال بعد مردم شماری ہونی چاہیے اور شائع شدہ اعداد و شمار کی بنیاد پر لوک سبھا اور ریاستی اسمبلی کے حلقوں کے ساتھ ساتھ میونسپل کارپوریشنوں، میونسپل بورڈوں، میونسپل کونسلوں، ڈسٹرکٹ کونسلوں، پنچایت سمیتیوں اور گرام پنچایتوں کے وارڈز کی سرحدوں کو ازسرنو متعین کیا جانا چاہیے۔ آئین کے نفاذ(1950 ) کے بعد سے یہ عمل وقتاً فوقتاً کیا جاتارہا ہے۔

تاہم، 2002 میں آئین کی 84ویں ترمیم کے تحت لوک سبھا اور اسمبلی کے حلقوں کی حد بندی بالعموم 2031 میںاگلی مردم شماری کے اعداد و شمار کی اشاعت تک روک دی گئی۔ اس کے باوجود، مقامی اداروں (میونسپل کارپوریشنز، میونسپل بورڈز، ڈسٹرکٹ کونسلز، پنچایت سمیتیوں، گرام پنچایتوں وغیرہ) کے وارڈز کی حد بندی ہر دس سال بعد جاری ہے۔

حلقہ بندی کے قوانین اور قواعد ٹھوس ہیں لیکن ان کا نفاذ اکثر ناکافی ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں بعض کمیونٹی کو جمہوری نمائندگی کا مکمل انصاف نہیں ملتا۔ ہندوستان کے ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے، ہمیں چوکس رہنا چاہیے اور نچلی سطح پر منظم طریقے سے کام کرنا چاہیے تاکہ حلقہ بندی کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے اور یہ کسی بھی آبادی یا کمیونٹی کی نمائندگی پر منفی اثر نہ ڈالے۔ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے حلقوں کی حد بندی کا عمل واجب العمل ہے اور اگلی مردم شماری کے بعد مکمل کیاجاسکتا ہے کیونکہ “خواتین ریزرویشن ایکٹ 2023کے تحت پارلیمنٹ میں خواتین کے لیے نشستیں محفوظ کرنے کی دفعات کو نافذ کیا جانا ہے۔

لہٰذا، قومی مردم شماری اور حلقہ بندی کا عمل آپس میں جڑا ہوا ہے اور مسلم کمیونٹی اور دیگر پسماندہ گروہوں کی فوری توجہ کا مستحق ہے۔ ہمیں دونوں کارروائیوںپر نظر رکھنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت (AIMMM) کا پختہ احساس ہے کہ ماضی میں انتخابی حلقوں کی حدبندی کو بار بار مخصوص آبادیوں اور کمیونٹی، خاص طور پر مسلم کمیونٹی کی نمائندگی پر منفی اثر ڈالنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

ماضی کے تجربات سے مشاورت نے یہ پختہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تقریباً 80 لوک سبھا سیٹیں، جہاں مسلم ووٹروں کی بڑی تعداد ہے، جان بوجھ کر درج فہرست ذاتوں (SC) کے لیے مخصوص کر دی گئیں جبکہ ایسی نشستوں کو جن میںدرج فہرست ذات کے لوگوں کی بڑی آبادی موجود ہے، عام زمرے میں رکھا گیا۔ درج فہرست ذاتوں کی آبادی کو لوک سبھا یا ریاستی اسمبلیوں میں عام زمرے کے تحت ڈالنے کا بنیادی مقصد نہ صرف دلتوں کی مضبوط قیادت کے ابھرنے کے مواقع کو بند کرنا ہے بلکہ یہ بھی یقینی بنانا ہے کہ اس کمیونٹی کا بڑا حصہ ہندو رہنماؤں کے زیر اثر رہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مخصوص لوک سبھا حلقوں کے آبادیاتی اعداد و شمار میں درج فہرست ذاتوں کی آبادی مسلم ووٹروں کے مقابلے میں کم پائی گئی ہےاور اس کا مقصد مسلم کمیونٹی کی مساوی اور باعزت نمائندگی کو روکنا ہے۔ لہٰذا، ماضی میں حلقہ بندی کا عمل ایک گھناؤنے ایجنڈے کے تحت عمل میں لایا گیا تاکہ مسلم اور ایس سی کمیونٹیز کی مضبوط سیاسی قیادت کے ابھرنے اور ان کی پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں معتبر نمائندگی کے

مواقع کومسدود کیا جا سکے۔

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت حد بندی کے عمل میں اپنائے گئے رائج طریقہ کار اور چالاکیوں کی شدید مذمت کرتی ہے اور اقلیتوں اور دیگر پسماندہ گروہوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ حلقہ بندی کے عمل کے دوران اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے چوکس رہیں اور حلقہ بندی کے مختلف مراحل میں ریاستی چیف الیکٹورل افسران، نیشنل الیکشن کمیشن اور ضلع مجسٹریٹ (جو اپنے متعلقہ اضلاع کے لیے الیکشن آفیسر بھی ہوتے ہیں) کے ذریعے حتمی نوٹیفکیشن سے قبل ضروری اصلاحات کا مطالبہ کریں۔

مسلم مجلسِ مشاورت ماضی میں حلقہ بندی کے قوانین اور قواعد کی خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کرتی ہے جو وقتاً فوقتاً عمل میں آئیں۔مشاورت کا پختہ یقین ہے کہ ہندوستان کے الیکشن کمیشن، ریاستی چیف الیکٹورل افسران، اور ضلع مجسٹریٹس کو ان خلاف ورزیوں سے مہذب اور جرات مندانہ طورپر آگاہ کیا جانا چاہیے اور بروقت سوالات اٹھانے چاہئیں کہ ضروری اصلاحات کا عمل کب شروع کیا جائے گا اور حلقہ بندی کا حتمی نوٹیفکیشن کب جاری کیا جائے گا۔ہماراماننا ہےکہ ان اصلاحات کو سماجی تنظیموں کی طرف سے سروے اور حکومت کے دستیاب اعداد و شمار پر مبنی تحقیق کے ذریعے مسلسل مکالمے کے ذریعے یقینی بنایا جانا چاہیے۔

مشاورت کا یہ اجلاس اس بات کی بھی توثیق کرتا ہے کہ اس مسئلے کو سستی سیاسی تشہیر کے لیے سماجی کام کے نام پر عوامی طور پر اچھالنے کے بجائے، بنیادی مقصد پر سنجیدگی سے توجہ مرکوز کرنا زیادہ فائدہ مند ہوگا جو کہ مسلمانوں اور دیگر پسماندہ گروہوں کے عوام کے انتخابی حقوق کی حفاظت ہے۔

مسلم مجلس مشاورت یہ بھی تجویز کرتی ہے اور اپیل کرتی ہے کہ دونوں کمیونٹیز، یعنی دلت اور مسلمانوں کی معتبر سماجی قیادت سیاسی بصیرت کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کرے تاکہ قومی مردم شماری کے بعد شروع ہونے والے حلقہ بندی کے عمل کے دوران مناسب ہم آہنگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ مجلسِ مشاورت کو امید ہے کہ سمجھداری غالب آئے گی اور مذہبی تنظیمیں اپنے اداروں کو اس عمل میں ملوث کرنے سے گریز کریں گی کیونکہ یہ ممکنہ طور پر ردعمل پیداکر سکتا ہے۔

پیش کنندہ:
نوید حامد، ڈاکٹر سید ظفر محمود اور احمد جاوید کی آراء کے ساتھ
مقام:نئی دہلی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *