٭مسلم تنظیموں کے وفاق نیووٹ کی لوٹ،ایس آئی آر، غیرقانونی انہدام، بنگالی مزدوروں کو نشانہ بنانے، اوردہشت گردانہ بم دھماکوں پر حکومت کے دوہرے رویے کوملک کے لیے خطرناک اورجمہوریت پرحملہ قرار دیا

٭آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر فیروزاحمد ایڈوکیٹ نے قانونی، سیاسی اور سماجی ہر سطح پر مزاحمت کرنے کے عزم کا اعادہ کیا، مشاورت جلدہی دہلی میں آل انڈیا کنونش بلائے گی

نئی دہلی: ملک کی مسلم تنظیموں اور ممتاز شخصیتوں کے واحد وفاق آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت نے ملک کی سیاسی و سماجی صورت حال پر اپنی شدید تشویش اور گہرے رنج کا اظہار کیاہے اور کہا کہ یہ بات اس کے لیے ناقابل برداشت ہے کہ غریبی اور ہجرت کو جرائم اور دولت و اقتدار کی لوٹ کو جائز اور معمولی بنایا جارہا ہے۔ہفتے کو یہاں مشاورت کے مرکزی دفتر میں میڈیاکے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے مشاورت کے صدر فیروزاحمدایڈوکیٹ نے بہار اور بھارت کے دیگر حصوں میں ایس آئی آر (خصوصی گہری نظرثانی) کے ذریعے پسماندہ طبقات سے ووٹ کے حق کو چھیننے کی کوششوں، ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے روزافزوں رجحانات، نفرت انگیز جرائم اور اقلیتی برادریوں کو نشانہ بناکر کی جا رہی دہشت ناک کارروائیوں میں خطرناک اضافہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ آسام میں مسلمانوں کو غیر قانونی طور پر بے گھر کرنا اور ملک کے مختلف حصوں میں بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کو نشانہ بنانا، وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کے خطرناک اثرات، مالیگاؤں بم دھماکوں کے سب کے سب ملزموں کی رہائی، مہاراشٹر حکومت کا مالیگاؤں اور ممبئی ٹرین دھماکوں کے فیصلوں پر دوہرا رویہ اور مسلمانوں کو درپیش دیگر چیلنجز، انتہائی پریشان کن رجحان اور ملک کے سیکولر جمہوری ڈھانچے کے لیے سنگین خطرات کے غماز ہیں۔

مشاورت نے اپنے یوم تاسیس کے موقع پرجاری کردہ پریس نوٹ میں انصاف  کے حصول، آئینی حقوق کے تحفظ اور جمہوریت کی بقا کے لیے جدو جہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان واقعات کوآج کل ملک کے طول و عرض میں تواتر سے رونما ہورہے ہیں، انصاف، جمہوریت اور انسانی حقوق پر حملے سمجھتی ہے اور ہر سطح پر قانونی، سیاسی اور اخلاقی مزاحمت کا عہد کرتی ہے۔ یہ حق رائے دہی سے محرومی، فرقہ وارانہ تشدد، ادارہ جاتی تعصب اور جبر واستبدادکے خلاف قانونی، سیاسی اور اخلاقی مزاحمت کے لیے سول سوسائٹی، حقوق انسانی کے محافظوں اور سیاسی و سماجی تنظیموں کو کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہونے کا مطالبہ کرتی ہے اوردنیا کے مظلوموں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے۔امریکی حکومت کی جانب سے بھارت پر نئے محصولات (ٹیرف) کے نفاذ پر بھی مشاورت نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اقدام ملک کی برآمدات، صنعتوں اور ان سے وابستہ کروڑوں محنت کشوں پر شدید منفی اثرات ڈالے گا۔ اس بحران میں مودی حکومت کا رویہ غیر سنجیدہ اور غیر دوراندیشانہ رہا ہے، جو بھارت کی عالمی تجارتی پوزیشن کو مزید کمزور کر رہا ہے۔ اسی طرح مشاورت اسرائیلی حکومت اور اس کے مددگاروں کے ذریعے فلسطینی عوام، خاص طور پر غزہ، مغربی کنارے اور مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کے قتل عام، ان پرجنگی جرائم اور منظم مظالم کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور اسے بین الاقوامی قانون، اخلاقیات اور انسانی شرافت کی کھلی پامالی قرار دیتی ہے اور اسرائیل کے خلاف عالمی برادری اور خطہ کے ملکوں سے قرارواقعی کاروائی کرنے اور مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے کی اپیل کرتی ہے۔

مشاورت کے نائب صدرنوید حامد نے اس موقع پر زور دیکر کہا کہ فہرست رائے دہندگان پر نظرثانی کا عمل، جو لسٹ میں شفافیت اور درستگی لانے کے لیے ہونا چاہیے، پسماندہ طبقات خصوصاً مسلم، دلت، پسماندہ اور غریب طبقات کو نشانہ بنانے اور بلاجواز طور پران کے نام فہرست سے حذف کرنے کا ہتھیار بن گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مشاورت کا موقف ہے کہ ایس آئی آر کا اس طرح کا غلط استعمال ہندوستان کے آئین میں دی گئی شہری حقوق کی ضمانت پر براہ راست حملہ ہے۔ جبکہ مشاورت کے پریس نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ووٹ کا حق کوئی احسان نہیں،یہ شہریت کے بنیادی حقوق کا اظہار ہے، اور اسے کمزور کرنے کی کوئی بھی کوشش ہندوستان کی جمہوریت کے تصور پرضرب لگانا ہے۔ لہٰذا،مشاورت ناقص شکل میں جاری ایس آئی آر کی کارروائی کو فوری طور پر روکنے اور اس کی ایک جامع اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہے۔ اور متنبہ کرتی ہے کہ تکنیکی اصلاحات کی آڑ میں پسماندہ طبقات کو حق رائے دہی سے محروم کرنا نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ امن وامان، سماجی ہم آہنگی اور جمہوریت کی بقا کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے۔

مشاورت نے کہا ہے کہ گزشتہ مہینوں میں فرقہ وارانہ حملے، ماورائے قانون انہدامات اور مذہبی بنیاد پر دہشت خیز کارروائی میں خطرناک اضافہ ہوا ہے۔ میڈیا کے کچھ حصے اس قسم کی کارروائیوں کو نارملائز کرتے اور نفرت انگیز پروپیگنڈے کرتے ہیں، سیاسی سرپرستی مجرموں کو تحفظ دے رہی ہے، اور عدالتی تاخیر عوام کے اعتماد کو مجروح کر رہی ہے۔ آسام میں خاص طور پر بنگلہ بولنے والے ہزاروں مسلمانوں کو بے گھر کرنے کی مہم، اور دہلی این سی آر، ہریانہ و اترپردیش میں ان پر غیر قانونی تارکین کا الزام لگا کر ہراساں کرنا، ایک منظم امتیازی کارروائی اور سوچی سمجھی پالیسی کی عکاسی ہے۔مشاورت اس کے خلاف کھڑی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ مفلسی اور غریب الوطنی (مائیگریشن) کو جرائم بنانے کا سلسلہ فی الفور بند کیا جائے، بے دخلی کی تمام مہمات روکی جائیں، اور ملک کے ہر شہری کو لسانی و مذہبی امتیاز سے بچانے کے لیے مضبوط قانونی ضمانتیں دی جائیں۔مشاورت کا مطالبہ یہ بھی ہے کہ نسل، زبان، یا مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو روکنے کے لیے مضبوط قانونی اور ادارہ جاتی تحفظات قائم کیے جائیں، غیر آئینی یا انسانیت دشمن اقدامات میں ملوث اہلکاروں اور حکومتوں کی جوابدہی طے کی جائے اوراقلیتوں کو نشانہ بنانے کے بڑھتے رجحان کے خلاف سیکولر اور جمہوری قوتیں متحد ہو کرملک گیرپیمانے پر کھڑی ہوں۔

مشاورت نے وقف (ترامیم)ایکٹ کے تعلق سے اپنے اس موقف کو دوہرایا ہے کہ یہ قانون وقف جائیدادوں کے انتظام اور تحفظ کو بہتر بنانے کے بجائے ان کی خودمختاری اور آئینی تحفظ کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ حکومت کو حد سے زیادہ کنٹرول دے کر، سیاسی مداخلت اور زمین ہتھیانے کے راستے کھولتا ہے۔ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں اس کا ناجائز استعمال کیا جارہا ہے جبکہ ابھی یہ قانون سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔2008  کے مالیگاؤں دھماکوں کے تمام ملزمان کی بریت کو، جس میں چھ افراد جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہوئے تھے، مشاورت نے ملک میں انصاف کی ناکامی کہا ہے۔ مہاراشٹر حکومت کا رویہ ممبئی ٹرین دھماکوں کے مقدمے سے مختلف رہا، جواس کا دوہرا معیار ظاہر کرتا ہے۔مشاورت اعلیٰ سطحی عدالتی انکوائری اور انصاف کے یکساں معیار کا مطالبہ کرتی ہے۔اس نے کہا ہے کہ اس طرح کے واقعات اور دوہرے پیمانے سے قانون وانصاف اور عدلیہ پر لوگوں کا اعتماد کمزور ہورہا ہے اور یہ ملک میں جمہوریت کی بقا کے لیے خطرہ ہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر فیروزاحمد ایڈوکیٹ نے اس موقع پرفاشزم کے خلاف قانونی، سیاسی اور سماجی ہر سطح پر مزاحمت کرنے کے عزم کا اعادہ کیااور کہا کہ مشاورت  جلدہی دہلی میں ایک آل انڈیا کنونش بلائے گی۔ میڈیا کے نمائندوں سے مخاطب ذمہ داران میں مشاورت کے جنرل سکریٹری احمدجاوید،مرکزی مجلس عاملہ کے رکن انجینئر سکندر حیات، اورمشاورت کے صوبائی صدر ڈاکٹر ادریس قریشی بھی شامل تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *