Honorable Madam! Please stop UP govt from harassing Madrasas

All India Muslim Majlis e Mushawarat submission to the President of of India, interference in the activities of madrasas is against the constitution and law, please don’t allow the constitutional rights of Muslims, religious freedom, educational autonomy and comprehensive development to be violated, most children studying in madrasas belongs to the families live under poverty line and madrasas provide them education without any cost and discrimination, UP government is spreading sensation by counting non-formal part-time learning centers as Madrasahs New Delhi: In a letter addressed to the President of India, Draupadi Murmu, the All India Muslim Majlis e Mushawarat, the only confederation of Muslim organizations and personalities of eminence, has condemned the hostile actions of the government of Uttar Pradesh for harassing religious educational institutions in the state, sending madrassa children to schools and expelling non-Muslim children from madrassas. Expressing serious concern, AIMMM has requested them that interfering in the activities of madrasas is against the constitution and law, please do not allow the constitutional rights of Muslims, religious freedom, educational autonomy and comprehensive development to be violated. AIMM also requested the President of India that most of the children admitted here in Madrasahs are those who live below the poverty line and Madrasahs are centers of free education, food and accommodation. The Confederation of Muslim organizations pointed the Constitution guarantees religious and linguistic minorities to establish and run educational institutions of their choice, the Right to Education Act obliges the Center and the states to provide quality education in educational institutions of their choice and religious institutions are protected in this law. It says that these Madrasahs bear the burden of educating more than one crore children across the country and lakhs of them in the state of UP. More than one report of the central government’s Scheme for Providing Quality Education in Madrasas [SPQEM] has found that children’s attendance is higher here than in government schools and that Madrasah teachers are more punctual, responsible and attentive to students. The submission emphasizes “the number of students admitted to madrassas are not only from BPL families but also because of the absence of government primary schools in the nearby neighborhoods. Similarly, thousands of Muslim and other religion children study in Vedic Pathshalas, Shishu Mandir and Christian missionary schools. Only targeting Madrasahs is exposing the intention. The attention of the President has been sought on religious freedom, educational autonomy and comprehensive development and pointed that the condition of the education system in the state is very poor, more than 100 Shiksha-mitras have committed suicide due to non-payment and discouragement of madrassas will have a very bad effects on the state of education in the state.  It should be clear that many other state governments of BJP are doing also this kind of arbitrariness, which causes deep concern and unrest in society. This petition asserts that the Uttar Pradesh government is spreading sensation by counting non-formal part-time learning centers as Madrasahs. It should be noted that in the list of more than 8,000 unapproved madrasahs that the UP government has released, many private tuition accommodations, part-time learning centers established inside mosques or elsewhere have also been included, even by their operators or the mosque administration didn’t name it.

عزت مآب !حکومت اترپردیش کو مدرسوں کو ہراساں کرنے سے روکیں

صدرجمہوریہ ہند کے نام آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی عرضداشت، مدارس میں زیر تعلیم بچوں کی اکثریت خط افلاس کے نیچے جینے والوں کی ہے اور یہ مدارس بلاتفریق سب کوفری تعلیم دیتےہیں، ملک کی شرح خواندگی میںانکاگرانقدرتعاون ہے، حکومت اترپردیش غیررسمی جزوقتی دینی درسگاہوں کوبھی مدارس میں شمار کرکے سنسنی پھیلارہی ہے، مدارس کی سرگرمیوں میںمداخلت آئین و قانون کے منافی ہے،مسلمانوں کےآئینی حقوق، مذہبی آزادی ،تعلیمی خودمختاری اوربچوں کی ہمہ گیرنشوونما کوہرگزپامال ہونےنہ دیں نئی دہلی: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے صدرجمہوریہ ہندعزت مآب دروپدی مر مو کے نام ایک مکتوب میںحکومت اتر پردیش کے ذریعے ریاست کے دینی مدارس کو ہراساں کرنے ، مدارس کے بچوں کو وہاںسےنکال کراسکولوں میں بھیجنے اور غیرمسلم بچوں کو مدارس سے نکالنے کی معاندانہ کارروائی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ، ان سے گذارش کی ہے کہ مدارس کی سرگرمیوں میںمداخلت آئین و قانون کے منافی ہے،براہ کرم آپ مسلمانوں کےآئینی حقوق، مذہبی آزادی ،تعلیمی خود مختاری اوربچوں کی ہمہ گیرنشوونما کو پامال نہ ہونے دیں، مدارس میں زیر تعلیم بچوں کی اکثریت خط افلاس کے نیچے جینے والوں کی ہے اور یہ مدارس بلاامتیازرنگ و نسل سب کے لیےفری تعلیم کانظم کرتے ہیں۔مشاورت کے صدر فیروزاحمد ایڈوکیٹ نے عرضداشت میں تحریرکیا ہے کہ مدارس کو انکوائری کے نام پر ہراساں کیا جارہے جبکہ ملک کا آئین مذہبی اور لسانی اقلیتوں کواپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کی ضمانت دیتاہے، حق تعلیم ایکٹ مرکز اور ریاستوں کو ان کی پسند کے تعلیمی اداروں میںہی معیاری تعلیم مہیا کرانے کا پابند بناتاہے اوراس قانون میں دینی مدارس کو تحفظ حاصل ہے۔عرضداشت کہتی ہےکہ یہ مدارس ملک کے ایک کروڑ سے زائداورریاست اترپردیش کےلاکھوں بچوں کی تعلیم کا بوجھ اٹھاتےاوریہ ملک کی شرح خواندگی میں گرانقدرتعاون کرتے ہیں۔مشاورت نے اس نکتے پرزوردیا ہے کہ مرکزی حکومت کےمنصوبہ معیاری تعلیم اندرون مدارس) (SPQEMکی ایک سے زائد رپورٹوںمیں پایا گیا کہ بچوں کی حاضری سرکاری اسکولوں کی بہ نسبت یہاں زیادہ اچھی ہے اورمدارس کے اساتذہ وقت کے زیادہ پابند، ذمہ دار اور طلباء پر توجہ دینے والے ہیں۔ ان مدارس میں داخل ہونے والے طلباء کی تعداد نہ صرف بی پی ایل خاندانوں سے ہے بلکہ قریبی پڑوس میں سرکاری پرائمری اسکولوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے بھی ان کا داخلہ لیا جاتا ہے۔اسی طرح ویدک پاٹھ شالاؤں،ششومندروںاورعیسائی مشنری اسکولوں میں بھی بشمول مسلم دوسرے  مذاہب کے ہزارہابچےزیرتعلیم ہیں۔ ریاست میں سرکاری نظام تعلیم کی حالت نہایت خستہ ہے،سوسے  زائد شکشامترتنخواہ  کی عدم  ادایگی کی وجہ سے خودکشی کرچکے ہیں۔مدارس کوہراساں کرنے کا ریاست میں بچوں کی تعلیم پرسخت ناروااثرپڑےگا۔ تین صفحات کےمکتوب میں زور دے کرآئینی حقوق، مذہبی آزادی، تعلیمی خود مختاری اور جامع ترقی پر صدر جمہوریہ کی توجہ طلب کی گئی ہےاورکہاگیاہےکہ مدارس کونشانہ بنایا جانا ملک و قوم کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث ہوگا۔ واضح رہے کہ اس طرح کی منمانی بی جے پی کی کئی اور ریاستی حکومتیں بھی کررہی ہیں جس سےسماج میں گہری تشویش اور بے چینی پائی جاتی ہے۔یہ عرضداشت نشاندہی کرتی ہے کہ حکومت اتر پردیش غیررسمی جزوقی درسگاہوں کو بھی مدارس میں شمار کرکےسنسنی پھیلارہی ہے۔ حکومت نے آٹھ ہزار سے زائدغیرمنظورشدہ  مدارس کی جو فہرست جاری کی ہے، اس میں بڑی تعدادمیںرضاکارٹیوشن سینٹر ، مساجدکے اندر یا کہیں اور قائم ان جزوقتی دینی درسگاہوں کو بھی شامل کرلیا گیاہے جن کا ان کے چلانے والوں یا مسجد کی انتظامیہ نے کوئی نام تک نہیں رکھا۔ :عرضداشت کا مکمل متن حسب ذیل ہے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (اے آئی ایم ایم ایم) ، جو مسلم تنظیموں اور ممتاز شخصیات کا واحد وفاق ہے، حکومت اترپردیش کےچیف سکریٹری کی جاری کردہ حالیہ ہدایات کے بارے میںآپ سے گہری تشویش کا اظہارکرنےکا شرف حاصل کر رہی ہےجس میں اتر پردیش اور چائلڈ رائٹس پروٹیکشن کمیشن آف انڈیا ریاست اتر پردیش میں مدارس کے کام کاج کے بارے میںتفتیش کرنے اور ان کے طلباء کو سرکاری اسکولوں میں منتقل کرنےکی ہدایت کی گئی ہے۔ ہدایت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’ہندو طلبہ وہاں نہ رہیں‘‘۔ ہمارا ماننا ہے کہ یہ ہدایت مسلم اقلیت کے مذہبی اور تعلیمی حقوق میں ایک غیر ضروری اور غیر آئینی مداخلت ہے۔ اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق آئین ہند کی دفعہ 30(1) کے تحت ان کا بنیادی حق ہے۔ یہ شق اس کی ضمانت دیتی ہے کہ مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو اپنے ورثے، ثقافت اور مذہب کو محفوظ رکھنے اور اپنے بچوں تک منتقل کرنے کے لیے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ مدارس مسلمان بچوں کی ہمہ گیر ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔یہ نہ صرف مذہبی تعلیم دیتے ہیں بلکہ ان کے اخلاق و کردار کی نشوونما میں بھی حصہ ڈالتے ہیں۔ بنیادی تعلیم میںانہوں نےاپنے نصاب کو جدید نصاب تعلیم سےہم آہنگ کیا اور اس بات کو یقینی بنایاہے کہ ان کے طلباء کو متوازن تعلیم ملے۔ طلباء کو سرکاری اسکولوں میں منتقل کرنے کی اچانک اور یکطرفہ کارروائی ان اداروں کی کوششوں اور تعاون کو پس پشت ڈالناہے اور کمیونٹی کے اپنے بچوں کو ان کے مذہبی عقائد کے مطابق تعلیم دینے کے حق کی پامالی کرتا ہے۔ معاشرے کے کمزور طبقات کے لیے وقف مفت تعلیم کا یہ نظام، جو مسلمانوں کی خوداختیاری سماجی ذمہ داری سے وجود میں آیا، ایک ہزار سال سے زائد عرصے سےملک و قوم کی گراں قدر خدمات انجام دے رہا ہے، اور اس کا ایک بڑا حصہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی ایک بڑی کامیاب اور بےنظیر مثال ہے۔  اعداد و شمار کے تازہ ترین تجزیے کے مطابق اس وقت ملک کے مدارس میں ایک کروڑ سے زائداور اترپردیش میںلاکھوں طلباوطالبات زیر تعلیم ہیں۔ یہ تعلیمی ادارہ (مدارس) بغیر کسی قیمت اور کسی قسم کے امتیاز کے قوم کے بچوں کی ابتدائی تعلیم کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ ملک کے دور دراز علاقوں سے دیگر کمیونٹیز کے کمزور طبقوں کے بچوں کی بڑی تعداد مدارس میں زیرتعلیم ہے۔ مرکزی حکومت کےمنصوبہ فراہمی معیاری تعلیم اندرون مدارس(SPQEM) کی رپورٹوں میں پایاگیاکہ بچوں کی حاضری سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں یہاںزیادہ اچھی ہے

دکانوں پرنام لکھنے کا حکم مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی سرکاری کارروائی: مشاورت

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدرفیروزاحمد ایڈوکیٹ نے کانوڑیاتراکے دوران دکانوں پرنام لکھنے کےیوپی پولیس کے حکم کی شدیدمذمت کی  نئی دہلی (پریس ریلیز): آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کےصدر فیروزاحمد ایڈوکیٹ نے یوپی پولیس کے اس حکم کی سخت مذمت کی ہے کہ کانوڑ یاترا کے دوران 240 کلومیٹر طویل راستے میںواقع اپنی دکانوں پر مسلم دکاندار اپنا اور کارکنوں کانام نمایاں طور پرلکھیں۔انہوں نے کہا ہے کہ یہ مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی سرکاری کارروائی ہےجو مودی کے نئے بھارت میں یوپی پولیس انجام دے رہی ہے۔صدرمشاورت نے کہاہے کہ کسی جمہوری معاشرے میں یہ حرکت ہرگزقابل قبول نہیں ہے۔اتر پردیش میں اس قسم کی کارروائیاں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہندومسلم منافرت کو بڑھانے اوراس پر سیاست کی روٹیاںسینکنے کے لیے کی جارہی ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے چھواچھوت کی لعنت کو بڑھاوادیا جارہاہے جوقانوناً ایک قابل مواخذہ جرم ہے۔  واضح رہے کہ ریاست کے مظفر نگرضلع میں واقع ایک نام نہاد آشرم کےسنچالک سوامی یشویر مہاراج کی مانگ پر یوپی پولیس نے 2024 کی کانوڑ یاترا شروع ہوتے ہی دکانداروں کو ہدایت دے دی ہے کہ وہ اپنے ہوٹلوں اور ڈھابوں اپنا اور اپنے کارکنوں کا نام نمایاں طور پر درج کریں حتی کہ مسلمانوں کے پھلوں کے ٹھیلوں پربھی ان کے ناموں کی پرچی لگائی جارہی ہے۔ مظفرنگر کے ایس ایس پی ابھیشیک سنگھ کا کہنا ہے کہ ہمارے ضلع میں اس یاتراکا لگ بھگ 240 کلو میٹر راستہ ہے ، اس راہ میں جتنے بھی ہوٹل ڈھابے وغیرہ واقع ہیں،ان کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہاں کام کرنے والے اور دکانداروں کا نام ضرور درج کریں تاکہ کھانے پینےکی اشیا خریدتے وقت کسی کوبھی کسی قسم کا کوئی کنفیوزن نہ رہ جائے۔ آل انڈیا مسلم مشاورت نےایس سی ایس ٹی کمیشن، قومی اقلیتی کمیشن،قومی انسانی حقوق کمیشن اور مجازحکام اعلیٰ سے فوری مداخلت کی مانگ کی ہےاور کہا ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں سے ملک کے سماجی تانے بانے کو سخت خطرات لاحق ہیں۔

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت پر قبضہ کرنے کی مذموم سازش کے جواب میں مکتوب بنام ارکان و ہمدردان مشاورت

آستینوں میں چھپالیتی ہے خنجر دنیا                                                                                                                                                 اورہمیں چہرے کا تاثر نہ چھپانا آیا ملک میں اپنی نوعیت کی واحدتاریخی تنظیم” آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت” کا قیام  1964 میں مسلم جماعتوں کے مشترکہ پلیٹ فارم کے طورپر جن حالات     میں ہوا تھا،آج ہمارے سامنے ان سےکہیں زیادہ مشکل حالات ہیں اورکسی ذی شعورمسلمان کو احساس دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اتحادویکجہتی کی قدروقیمت کیاہے۔پھربھی ہمیں مشاورت کے معزز ارکان کو یہ خط لکھنا پڑرہا ہےجوانتہائی تکلیف دہ ہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے سابق صدر اور سابق رکن ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں صاحب نےارکان مشاورت کوخط لکھ کرایک بار پھر اختلاف و انتشارکوہوادینے اور غلط فہمیاں پیداکرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس سے زیادہ افسوس کی  بات یہ کہ وہ رجسٹرڈ مشاورت کا صدر ہونے کے دعویدارہیں اور لوگوں کو مشاورت کارکن بنانے کے نام پر چندہ کی مہم چلارہے ہیں جوان کا سراسر بےبنیاد دعویٰ اورگمراہ کن فعل ہے۔  اول تو اس گروپ کا جس نےاس وقت کےصدر مشاورت سید شہاب الدین مرحوم کی مخالفت میں مشاورت سےالگ ہوکر 2003میں سوسائٹی رجسٹرڈکرائی تھی، 2013میں اصل مشاورت کے ساتھ باضابطہ انضمام ہوچکا ہے اور رجسٹریشن کے اصل کاغذات ہماری کی تحویل میں ہیں،لہٰذا ایسی کسی سوسائٹی کا کوئی علاحدہ یامتوازی وجود اب کہیں باقی نہیں ہے۔خودراقم السطور شیخ منظوراحمدکوبھی اسی رجسٹرڈمشاورت نے رکنیت دی تھی اوراسی انضمام و اتحادکے نتیجے میں یہ حقیراب آل انڈیامسلم مجلس مشاورت کاحصہ ہے ۔دوم ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں 2022 سے مشاورت کے رکن بھی نہیں ہیں، تادیبی کارروائی کے تحت موصوف کی رکنیت منسوخ ہوگئی تھی کیونکہ انہوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے مشاورت اور اس کی جائیدادوں پر مستقل قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی جس کی تفصیلات ارکان مشاورت کے علم میں ہیں۔ مشاورت کے تنظیمی امور میں مداخلت کا کوئی حق آں موصوف کو نہیں پہنچتا، ان کی یہ سرگرمیاں سراسر ناجائز اور قانوناً قابل مواخذہ ہیں۔وہ اور ان کے پیچھے جولوگ بھی ہیں مشاورت میں رجسٹرڈ سوسائٹی کے انضمام واتحاد کوتباہ کرنے کی مذموم سازش اورذاتی مفادات کےحصول کے لیے مشاورت کوناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں جوان شاء اللہ کامیاب نہیں ہوگی۔ضرورت ہے کہ ان عناصر کی سازشوں کا قلع قمع سختی سے کیا جائے ورنہ اتنا تفصیلی خط لکھنا اور آپ کو زحمت توجہ دینا کوئی خوشگوار عمل نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مکتوب (مرقومہ29اپریل 2024 ) کے ذریعے ارکان مشاورت کی میٹنگ بلائی ہےاورلوگوں کو ورغلانے کے لیےانہوں نے مشاورت پر اپنےبےبنیادسنسنی خیز الزامات کا اعادہ کیا ہے،مثلاً دستور مشاورت میں منمانی ترمیمات کی گئیں،مشاورت سے 70 ارکان کو نکال باہر کیاگیا اور غیرمعیاری لوگوں کو مشاورت کی رکنیت دی گئی جبکہ ان کا ایک بھی دعوی حقیقت سےقریب نہیں ہے۔ڈاکٹر خان کے دعووں کی دستاویزی تردیدمشاورت کے کاغذات میں موجود ہے ۔وہ اپنے زیرنظر مکتوب میں اپنی تحریروں، تقریروں اور مشاورت کی کارروائیوں میں موجود ان مندرجات کے برخلاف دعوے کررہے ہیں جن پر ان کے دستخط موجود ہیں ۔زیرنظرمکتوب میں آپ ان کی نکات وارتفصیلات د یکھ سکتے ہیں۔   جیساکہ آپ جانتے ہیں،مشاورت کے دستور میں کبھی کوئی منمائی ترمیم نہیں کی گئی اور ایسا کرناممکن بھی نہیں ہے۔اگریہ ممکن ہوتاتو ڈاکٹرصاحب موصوف اپنے دور صدارت کے آخری ایام میں ترمیم لانے کی جوکوشش کررہے تھے، ناکام نہ ہوتی ۔دستورمیں جو ترامیم آخری بار لائی گئی ہیں،ان  میں ہرترمیم کو 67 فیصد سے 81 فیصد تک ارکان مشاورت کی تائید حاصل ہے اورترمیم شدہ دستور کے نفاذ کے بعد مشاورت کی مجلس عاملہ کے انتخابات (برائےمیقات 2026-2023 ) میں 85 فیصد سے زیادہ ارکان نے حصہ لیا اور منصب صدارت کے لئے دو امیدواروں کے درمیان دوستانہ مقابلہ میں منتخب امیدوار کو تقریباً 57 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ڈاکٹر صاحب موصوف کااعتراض ان کے آمرانہ مزاج کا اشتہار اورایک انتہائی غیرجمہوری فعل ہے۔ دستور میں ترمیم یا اس کی کسی شق پر اختلاف رائے کو مسئلہ بناکر انتشار کو ہوا دینا ہر گز کوئی دانشمندی نہیں ۔جو لوگ بھی اس طرح کے کام کررہے ہیں،مسلمانوں کے اتحاد اور ملی تنظیموں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ مشاورت ایک جمہوری تنظیم ہے اور دستور مشاورت میں ترمیم و تصحیح کا دروازہ ہر وقت کھلا ہواہے ۔ ارکان مشاورت جب چاہیں دستور میں مذکور ضوابط (Due  process)کے تحت ایسا کر سکتے ہیں ۔ اگر دستور کی کسی شق پر کسی کے پاس کو ئی معقول اعتراض ہے تو وہ اپنی تجاویز مشاورت میں پیش کرے نہ کہ لوگوں کو ورغلاکر جتھے بنائے اوران کے دلوں میں وسوسے ڈالے۔ جن ارکان کی رکنیت دستورمشاورت کی روشنی میں ان کی عدم فعالیت اور ڈفالٹ کی بناپر منسوخ ہوئی تھی، ان کے تعلق سےڈاکٹر ظفرالاسلام خان صاحب نے اپنے خط میں دعوی کیا ہے کہ 70 ارکان کا مشاورت سے اخراج کردیا گیا جبکہ غیرفعال ارکان کی رکنیت منسوخ کرنے کی قرارداد خود ان کی اپنی صدارت میں منعقدہ مشاورت کی جنرل باڈی اور مجلس عاملہ کی 5 ِ دسمبر 2015ء کی مشترکہ میٹنگ میں منظورکی گئی تھی اوربالآخر 12 فروری 2017 کی جنرل باڈی میٹنگ میں جس میں ڈاکٹر ظفرالاسلام خان صاحب بنفس نفیس موجود تھے اور اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ ان ایکٹیو ارکان کا اخراج ہو، یہ طے کیا گیا تھاکہ فی الحال ایسے 14 ان ایکٹو (غیر فعال) ارکان کا اخراج کیا جائے۔ غیر فعال  ارکان کا معاملہ اکتوبر 2018 کی حیدرآباد میں منعقد جنرل باڈی میٹنگ میں بھی زیر بحث آیا اور پھر27ِ فروری 2021 کوبھی اس معاملے پر آسام سے رکن جناب حافظ رشید احمد چودھری صاحب(جن کی حمایت کےڈاکٹرصاحب دعویدارہیں) کی تحریری قرارداد میٹنگ میں پیش ہوئی۔دستور کی متعلقہ شقوں اور قراردادمشترکہ اجلاس (5دسمبر2015) کی روشنی میں اس پرکارروائی کے نتیجے میں جن غیر فعال ارکان کی رکنیت منسوخ کی گئی، ان کی

Mushawarat condemns the notification of rules for contentious CAA (2019)

Mushawarat condemns the notification of rules for contentious CAA (2019) New Delhi: All India Muslim Majlis e Mushawarat, the apex body of India’s Muslim and only federation of renowned Muslim organisations and prominent citizens, expressed its deep concerns over the controversial decision of the Modi government of the implementation of the contentious CAA 2019 by notification of the rules for it just before the announcement of the ensuing general elections in the country. The decision is divisive in nature, taken for political benefits, and with a purpose to distract from the failure on different fronts. The government has taken the controversial decision to notify the rules for contentious law in spite of it being challenged in the Supreme Court of India by various groups of concerned civil society groups. Mushawarat is of the firm opinion that the decision once again had not only exposed the communal politics of dividing people on sectarian lines but will also open the avenues for a large scales of influx of illegal Bangladeshi immigrants in the North Eastern states which will undoubtly endanger the demography of the indegenious population of these states. Furthermore, the large scale of influx of refugees from the neighboring countries will be a burden on the India’s economy and will further squeeze employment avenues for the youths of the country who are already forced to opt for risky jobs and migrate to war zones in Israel & Russia. Instead of  working to chalk out plans to dissuade educated and skilled youths on whom a good percentage of national resources were spent by state on their education, and who are migrating on large-scale because of squeezing job opportunities in the country and renouncing Indian citizenship by migrating to Europe, Russia, USA, and far eastern countries for better employment opportunities in a safe bigotry and violence free environments, the government has decided to push its agenda of vote bank divisive politics. In the year 2019, the then president of Mushawarat, Mr. Navaid Hamid, had challenged the contentious law in the Supreme Court in the year 2019, but unfortunately, the hon’ble court had only two hearings so far. Now with this new development, Mushawarat is in touch with its learned legal counsels for challenging the controversial decision to implement the contentious law of CAA (2019).

 مشاورت کا ہلدوانی معاملے پر سخت تشویش کا اظہار، بلاجوازتشدد کی مذمت اور اعلیٰ سطحی جانچ کا مطالبہ

نئی دہلی:بھارتیہ مسلمانوں کے ممتاز وفاقی ادارہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر جناب فیروز احمد ایڈوکیٹ نے ہلدوانی کے بن بھول پورہ میں مدرسہ، مسجد اور درگاہ پر ہوئی انہدامی کارروائی کے بعد پولیس انتظامیہ کے جانب سے فرقہ وارانہ انتقامی کارروائی پر سخت تشویش  کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ریاستی انتظامیہ نے بلا کسی جواز کے اور جان بوجھ کر اقلیتی فرقہ کے لوگوں کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کے تحت ریاست اور ملک کے دوسرے علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ آنے والے لوک سبھا انتخابات میں حکمراں جماعت کو سیاسی فائدہ مل سکے۔ صدر مشاورت جناب فیروز احمد ایڈوکیٹ نے اس پورے معاملے کی اعلیٰ سطحی جانچ کا مطالبہ کیا اور کہا کہ  پولیس کی کارروائی میں ناحق  مارے گئے لوگوں کے اہل خانہ کو  فی کس 50لاکھ روپے معاوضہ دینے کے ساتھ اس گھناؤنے معاملے میں ملوث افراد کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے۔ پولیس کی ظلم اور زیادتی کی وجہ سے اب تک سینکڑوں لوگ فساد زدہ علاقے سے نقل مقانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ یہ ظلم کی انتہا ہے اور کوئی بھی انصاف پسند معاشرہ اس کو قطعی برداشت نہیں کر ے گا۔ بچوں اور خواتین پر پولیس کی پر تشدد کارروائی سخت قابل مذمت اور ناقابل قبول ہے۔  صدر مشاورت نے کہا کہ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ عدالت عالیہ نے اس پورے علاقے میں انہدام پر حکم امتناعی دے رکھی لیکن اس کے باوجود مقامی انتظامیہ نے جان بوجھ کر اقلیتوں کے دینی مقامات کو نشانہ بنایا، ان کے جذبات کو مجروح کیا اور ان کو جانی و مالی نقصان پہنچایا۔  مشاورت نے سپریم کورٹ سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ عدالت عظمیٰ اس پورے معاملے پر ازخود نوٹس لے اور جن اہلکاروں نے عدالت کے فیصلہ کے خلاف ورزی کی ہے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ مشاورت کے صدر نے ملک کے انصاف پسند لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف کھڑے ہوں،ملک کے سماجی تانے بانے کو بکھرنے اور قانون کی حکمرانی کو تباہ ہونے نہ دیں۔ انھوں نے کہا کہ دہلی اور یوپی سمیت ملک کے مختلف مقامات پر اس قسم کی اشتعال انگیز ظالمانہ کارروائیاں اور سرکاری فورسزکا ناروا استعمال غماز ہے کہ یہ واقعات اتفاقی اور الگ تھلگ نہیں ہیں بلکہ  منصوبہ بند سازش کا حصہ ہیں۔

سنہری مسجدمعاملے میں این ڈی ایم سی کے نوٹس پرمسلم مجلس مشاورت کا شدید ردعمل

نئی دہلی: بھارتیہ مسلمانوں کے ممتاز وفاقی ادارہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے نئی دہلی کی تاریخی سنہری مسجدکے تعلق سے این ڈی ایم سی کو خط لکھ کر اس کی کارروائی کی پرزور مذمت کی ہے۔ صدر مشاورت جناب فیروز احمد ایڈوکیٹ کے دستخط سے این ڈی ایم سی کو بھیجے گئے مکتوب میں کہا گیا ہے کہ اس تاریخی مسجداور قومی و ثقافتی ورثہ کے ہٹانے یا منہدم کرنے کی سازش کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے جس کو نئی دہلی کی تعمیر کے وقت اوردارالحکومت کولکاتہ سے نئی دہلی منتقل کرنے کے دوران برٹش نو آبادیاتی نظام نے بھی نہیں چھوا۔این ڈی ایم سی کے چیف آرکیٹکٹ کو لکھے گئے مکتوب میں کہاگیا ہے کہ سنہری مسجد تاریخی ورثہ ہے، وقف بورڈ کے زیر انتظام ہے، اس کو ہیری ٹیج کمیٹی یا کسی اور محکمہ کے مشورے سے منتقل یا منہدم نہیں کیا جاسکتا ہے، گاڑیوں کی آمدورفت منظم کرنے کی آڑ میں اس قومی ورثہ کومنہدم کرنے کی این ڈی ایم سی کی تجویز متعدد وجوہات کی بنا پر نہ صرف مسائل پیدا کرنے والی ہے بلکہ دہلی میں صدیوں سے قائم اسلامی ورثے کو مٹانے کی مذموم سوچ کا نتیجہ اور ملک کے آئین و قانون پر اس کا حملہ ہے۔مشاورت نے اپنے 9 نکاتی مکتوب میں این ڈی ایم سی کے ارادے کی خلاف آئین و قانون بنیادوں کو گنانے اور ان کی توضیح کرنے کے بعد مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے ناقابل قبول نوٹس کو فی الفور واپس لے۔مکتوب کا متن حسب ذیل ہے:یہ ’ٹائمز آف انڈیا‘، نئی دہلی میں مورخہ 24.12.2023 کو شائع ہونے والے آپ کے عوامی نوٹس کا جواب ہے جس میں ادیوگ بھون سے متصل رفیع مارگ نئی دہلی کے چوراہے پر گاڑیوں کی آمدورفت کو منظم کرنے اور وہاں واقع تاریخی سنہری باغ مسجد کو ہٹانے کے بارے میں اعتراضات اور مشورے طلب کیے گئے ہیں اور نوٹس کے جوابات دینے کے لیے صرف 8 دن یعنی یکم جنوری 2024 کی شام تک کا وقت دیا گیا ہے: ملک کی ممتاز مسلم تنظیموں اور افراد کا وفاق”آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت“ جو 1964سے قائم ہے، این ڈی ایم سی اور/ یا دیگر تمام محکموں کے اس اقدام کی پرزورمذمت کرتا ہے جن کی باتوں پر این ڈی ایم سی گاڑیوں کی آمدورفت کو منظم کرنے کے بہانے سنہری باغ مسجد کو منہدم کرنا چاہتی ہے۔مذکورہ سنہری باغ مسجد کو منہدم کرنے کی این ڈی ایم سی کی تجویز نہ صرف کئی وجوہات کی بنامسائل پیدا کرنے والی ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے دہلی میں صدیوں سے قائم اسلامی ورثے کی نشانیوں کو مٹانے کی خودغرضانہ سوچ کانتیجہ ہے۔این ڈی ایم سی کے ذریعے سنہری باغ مسجد کو ہٹانے کے ارادے کا پبلک نوٹس دہلی وقفہ بورڈ کی ہائی کورٹ میں پیش کردہ عرضی کو نمٹانے کے صرف 5 دن بعد مورخہ 18 دسمبر 2023 کو جاری کیا گیا۔ دہلی ہائی کورٹ نے ڈبلیو پی سی سی 8950/2023 اور سی ایم اے پی پی ایل 34086/203 میں مسجد کے انہدام کے تعلق سے این ڈی ایم سی کی طرف سے واضح یقین دہانی کے بعد ہی داخل دفتر کیا ہے کہ کونسل قانونی پوزیشن کی خلاف ورزی نہیں کریگی اور اب جس رفتار سے این ڈی ایم سی نے معزز عدالت کو اپنی یقین دہانی کے ایک ہفتہ کے اندر نوٹس جاری کیا ہے، وہ شرانگیز قدم ہے اور اسے قانونی ابہام کے ساتھ جاری کیا گیا ہے جس کا مقصد سنہری باغ مسجد کے انہدام کو قانونی رنگ دینا ہے۔ سنہری باغ مسجد نہ صرف ایم ڈی سی کے ذریعے کنزرویشن کمیٹی کے مشورے پرنوٹیفائڈ ہیریٹیج سائٹ (تاریخی ورثہ) ہے بلکہ یہ ایک وقف جائیدادبھی ہے جس کا انتظام دہلی وقف بورڈ کے ذریعے کیا جاتا ہے جودہلی کی حکومت(خطہ قومی راجدھانی)کا ایک خودمختارادارہ ہے اور یہ عملی طور پرایک مسجد ہے۔ صدیوں تک اور یہاں تک کہ برٹش حکومت کے نوآبادیاتی دور میں بھی جب لٹین دہلی تعمیر کی گئی اور دارالحکومت کوکلکتہ سے نئی دہلی منتقل کیاگیا، اسے چھوا نہیں گیا۔وقف املاک کے ناطے،مذکورہ سنہری باغ مسجد کو ہیریٹیج کمیٹی کے فیصلے کے ذریعے بھی منتقل یا منہدم نہیں کیا جاسکتا۔پارلیمنٹ کے ذریعے نافذالعمل وقف ایکٹ 1995 کی روسے وقف املاک کو فروخت، لیز یاتبادلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے این ڈی ایم سی ایکٹ 1994 کے تحت جاری کردہ محولہ بالا ن پبلک نوٹس سنہری باغ مسجد کے معاملے میں بلاجوازو غیرمتعلق ہے۔یہ معاندانہ فیصلہ عبادت گاہ (خصوصی انتظامات) ایکٹ 1991 کے التزامات کے منافی بھی ہے اور اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ مذکورہ قابل اعتراض عوامی نوٹس جوتاریخی سنہری باغ مسجد کو ہٹانے/مسمارکرنے کے ارادے کا اعلان کرنے کے لیے جاری کیا گیا ہے،نہ صرف مذہبی آزادی کے بنیادی حقوق پراین ڈی ایم سی کا حملہ ہے بلکہ یہ ملک کے آئین کی دفعہ 29 کی خلاف ورزی بھی ہے جو شہریوں کو اپنے ثقافت کے تحفظ اور اس کی حفاظت کے حقوق دیتا ہے۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ لٹین دہلی میں اور بھی بہت سے چکر(چواراہے) ہیں جو روزانہ کے معمول کے ٹریفک کے بہاؤکے لیے رکاوٹ بنتے ہیں، سب سے اہم کرشی بھون اور جن پتھ-موتی لال نہرو مارگ اور تغلق روڈ-اکبر روڈ کے آس پاس کے گول چکرہیں۔ حیرت انگیز طور پر ٹریفک کو منظم کرنے یا ان چکروں کے دائرے کو مختصر کرنے کے فیصلوں کا فقدان این ڈی ایم سی اور دیگر محکموں کے اصل مقاصد کو واضح طور پر بے نقاب کرتا ہے جن کے مشورے پر تاریخی مسجد کو منہدم کرنے کے ارادہ کی رفتارتیز کی جا رہی ہے۔ این ڈی ایم سی کو یہ یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ تاریخی سنہری باغ مسجد نے تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ یہ آزادی کے رہنماؤں اور سب سے اہم مولانا حسرت موہانی کی میٹنگوں کا مرکز تھا جنھوں نے تحریک آزادی کو تیز کرنے کے لیے ”انقلاب زندہ باد“ کا نعرہ دیا اور 1921 میں پہلی بار کانگریس کے احمد آباد اجلاس میں ”مکمل آزادی“ کی قرارداد پیش کی۔نکات بالا کی روشنی میں،آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت تاریخی مسجد کو منہدم کرنے

 صدرمشاورت نے جموں و کشمیر میں بڑھتے ہوئے تشدد پر تشویش کا اظہار کیا

بتاریخ: 26دسمبر،2023 (پریس ریلیز) نئی دہلی:بھارتیہ مسلمانوں کے ممتاز وفاقی ادارہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر جناب فیروز احمد ایڈوکیٹ صاحب نے جموں و کشمیر میں تشدد کے ان تازہ واقعات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا جن میں دہشت گرد گروپ کے ذریعہ راجوری ضلع میں فوجی گاڑی پر گھات لگا کر حملہ، سیکیورٹی فورسز کی تحویل میں معصوم شہریوں کے قتل اور نامعلوم افراد کے ذریعہ سابق ایس ایس پی محمد شفیع میر کا گولی مار کر قتل کیا گیا۔ مرکزی حکومت کے زیر انتظام علاقے میں ہونے والے ان دہشت گردانہ حملوں نے بلاشبہ یہ ثابت کر دیا ہے کہ مرکزی حکومت کے ذریعہ آرٹیکل 370 کی منسوخی اور سابقہ ریاست کی تقسیم کے بعد بھی شورش زدہ جموں و کشمیر میں امن اور معمولات کو بحال کرنے کا مودی سرکار کا بلند و بالا دعویٰ نہ صرف بے نقاب ہوگیا ہے بلکہ یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں سکیورٹی کی صورتحال خراب ہے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے چار سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی زمینی سطح  پر کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور تشدد کے واقعات یہ بھی اشارہ کرتے ہیں کہ دہشت گرد اور دہشت گردی کے ماڈیول جموں و کشمیر میں آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں اور یہ کہ تیزی سے بڑھتے دہشت گردی کے واقعات نے حقیقی اور تشویشناک صورتحال کے طور پر حکومت کے امن کے بیانیہ سے متصادم ہے۔ صدرآل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے سیکورٹی فورسز کے ذریعہ پوچھ گچھ کے دوران تین شہریوں کی ہلاکت پر بھی اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا اور اسے ایک سنگین تشویش کا معاملہ قرار دیا کیونکہ یہ ہلاکتیں مقامی آبادی کو مزید الگ کر دیتی ہیں۔ اگرچہ ریاستی انتظامیہ اور فوج نے تحقیقات کا اعلان کیا ہے لیکن آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا مطالبہ ہے کہ ہلاکتوں کی تحقیقات نہ صرف فوج بلکہ ایک سینئر سول جج کے ذریعہ بھی ہونی چاہئیں تاکہ اصل سچائی منظر عام پر آسکے۔ صدر مشاورت نے اپنے بیان میں کہا کہ اگرچہ سیکٹر کمانڈر اور سیکورٹی فورسز کے دیگر اعلیٰ افسران کو دوسری جگہوں پر منتقل کر دیا گیا ہے لیکن یہ واقعہ خود ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردانہ حملے کے بعد معصوم مقامی نوجوانوں سے پوچھ گچھ کے دوران سیکورٹی ایجنسیوں کی جانب سے غیر انسانی رویہ اپنایا گیا اور اس واقعے نے حقیقی طور پر لوگوں میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا ہے کیونکہ حراست میں مارے گئے تین شہریوں میں سے دو نے اس اندوہناک واقعے سے قبل طویل عرصے تک سیکیورٹی فورسز کے لیے کام کیا تھا اور یہ کہ اگرچہ پولیس نے اس معاملے میں ایف آئی آر درج کر لی ہے، لیکن مشاورت کو امید ہے کہ جانچ شفاف طریقے سے کی جائے گی تاکہ قصوروار وں کو سزا مل سکے۔