جموں و کشمیر پر قرارداد

آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت کے قومی اجلاس میں منظور کی گئی تاریخ:21 ستمبر2024 آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت,جو بھارت میں مسلم تنظیموں اور ممتاز شخصیات کا واحد وفاق ہے، حکومتِ ہند سے مطالبہ کرتی ہے کہ جموں و کشمیر کے لیے انتخابات کے بعد ایک ترقی پسند روڈ میپ بنایا جائے۔ ہم حکومت اور الیکشن کمیشن کی اس بات پر تعریف کرتے ہیں کہ انہوں نے آزاد، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا ہے، اور تمام جماعتوں کے لیے مساوی میدان فراہم کیا ہے۔ تاہم، انتخابات کے بعد کے روڈ میپ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ الزامات سامنے آئے ہیں کہ انتخابات سے پہلے کی بے ضابطگیاں اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ اکثریتی مسلم آبادی کی آواز آئندہ اسمبلی میں کمزور ہوگی۔ اس تاثر کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر حد بندی کمیشن نے ہندو اقلیتی آبادی والے علاقوں کو زیادہ نشستیں دی ہیں اور لیفٹیننٹ گورنر کو مزید پانچ ارکان نامزد کرنے کا اختیار دیا ہے، جن میں سے تین یقینی طور پر ہندو ہوں گے، دو کشمیری پنڈت اور ایک  1947 میں پاکستان سے ہجرت کر کے آیا مہاجر۔اگرچہ اقلیتی آوازوں کو اسمبلی میں شامل کرنا قابلِ تحسین ہے لیکن غیر متناسب نمائندگی کا کوئی فائدہ نہیں۔ جموں و کشمیر کی آبادی کے مطابق، چونکہ اقلیتی ہندو آبادی 28% ہے، انہیں 95 رکنی اسمبلی میں 29 نشستیں ملنی چاہئیں۔ لیکن حد بندی کمیشن نے ہندو اکثریتی علاقوں کی نشستوں کو 24 سے بڑھا کر 31 کر دیا۔ نامزد ارکان کے ساتھ یہ تعداد ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ اگر یہ فارمولا اقلیتی آبادی کو بااختیار بنانے کے لیے ہے، تو اسے پورے بھارت میں نافذ کیا جانا چاہیے تاکہ دیگر ریاستوں میں بھی اقلیتوں کو سیاسی طور پر مضبوط کیا جا سکے۔ اس وقت پارلیمنٹ میں صرف 24 مسلمان ایم پی ہیں، جبکہ ان کی تعداد 74 ہونی چاہیے اور اگر کشمیر کا فارمولا پورے ملک میں نافذ کیا جائے، تو یہ تعداد تقریباً 200 تک پہنچ سکتی ہے۔اس کے علاوہ، ہم سمجھتے ہیں کہ مشترکہ حکمت عملی جموں و کشمیر میں دیرپا امن، خوشحالی اور جمہوری استحکام کی راہ ہموار کرے گی۔ ہم درج ذیل سفارشات پیش کرتے ہیں: ریاستی حیثیت کی بحالی فوری کارروائی: جموں و کشمیر کی مکمل ریاستی حیثیت بحال کی جائے تاکہ عوام کی امنگوں کا احترام کیا جا سکے۔  کیونکہ: ریاستی حیثیت مقامی اداروں کو مضبوط کرے گی اور خطے کی منفرد ضروریات کے مطابق بہتر حکمرانی کو ممکن بنائے گی۔  منتخب حکومت کو بااختیار بنانا:  گورنر کے اختیارات کم کرنا: گورنر کے انتظامی اختیارات کو محدود کیا جائے تاکہ منتخب حکومت مؤثر طریقے سے کام کر سکے۔  جمہوریت کو مضبوط کرنا: منتخب نمائندوں کو فیصلے کرنے کا اختیار دینا جمہوری اقدار کو مضبوط کرے گا۔ نگرانی میں کمی:  مواصلات میں کمی: عوام پر عائد نگرانی کے سخت اقدامات پر نظرثانی کی جائے اور انہیں کم کیا جائے۔  اعتماد کو فروغ دینا: نگرانی کے ماحول میں نرمی سے شہریوں اور حکام کے درمیان اعتماد بحال ہوگا۔  سیاسی آزادی کی بحالی:  قیدیوں کی رہائی: ان سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا کیا جائے جنہیں بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے حراست میں لیا گیا ہے۔  مذاکرات کی حوصلہ افزائی: صحت مند مباحثے اور تنازعات کے حل کے لیے کھلی سیاسی فضا کا ہونا ضروری ہے۔ پریس کی آزادی:    میڈیا پر پابندیوں خاتمہ: خطے میں مقامی اور قومی میڈیا پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔   شفافیت کو یقینی بنانا: آزاد میڈیا احتساب اور باخبر شہریت کے لیے ناگزیر ہے۔  سماجی و اقتصادی ترقی:   انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری: ان منصوبوں کو ترجیح دی جائے جو روزگار پیدا کریں اور عوام کے معیارِ زندگی کو بہتر بنائیں۔   ہمہ گیر ترقی: اقتصادی ترقی کا فائدہ تمام کمیونٹیز کو ہونا چاہیے تاکہ اتحادواتفاق اور ترقی کو فروغ دیاجاسکے۔  کمیونٹی کی شمولیت:  سول سوسائٹی کی کوششوں کو فروغ دینا: ان تنظیموں کی حمایت کی جائے جو سماجی ہم آہنگی اور امن کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں۔  تعلیمی پروگرام: ایسے تعلیمی تبادلے اور پروگراموں کو فروغ دیا جائے جو ثقافتی اور سماجی تفریق کو کم کریں۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت جموں و کشمیر کی فلاح و بہبود کے لیے پرعزم ہے اور سمجھتی ہے کہ یہ اقدامات ایک پرامن اور خوشحال مستقبل کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان سفارشات پر سنجیدگی سے غور کرے اور تمام متعلقہ فریقوں کے ساتھ مل کر کام کرے۔ ہم جموں و کشمیر کا ایک ایسا منظرنامہ دیکھتے ہیں جہاں:  ہر فرد کو بنیادی حقوق اور آزادی حاصل ہو۔  جمہوری ادارے بغیر کسی مداخلت کے کام کریں۔  میڈیا آزادی سے کام کرے اور شفافیت اور احتساب میں اپنا کردار ادا کرے۔  تمام کمیونٹیز امن، باہمی احترام اور افہام و تفہیم کے ساتھ رہیں۔ آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت پورے بھارت میں انصاف، جمہوریت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تعمیری مکالمہ اور تعاون ہماری قوم کو درپیش چیلنجوں کا حل فراہم کر سکتے ہیں۔ (پیش کردہ: جناب افتخار گیلانی) Full Coverage & Credits

डॉ. इदरीस कुरैशी दिल्ली राज्य मुस्लिम मजलिस ए मुशावरत के अध्यक्ष नियुक्त

निर्विरोध चुनाव में सदस्यों ने बड़ी संख्या में भाग लिया, नए चुने हुए अध्यक्ष का गर्मजोशी से स्वागत नई दिल्ली: तयशुदा कार्यक्रम के अनुसार, रविवार को, ऑल इंडिया मुस्लिम मजलिस ए मुशावरत दिल्ली राज्य के अध्यक्ष का चुनाव सम्पन्न हुआ। चुनाव की कार्यवाही केंद्रीय कार्यालय में सुबह 10 बजे शुरू हुई, उम्मीदवारों के नाम दोपहर 3 बजे तक सुझाए गए, मुशावरत के सदस्यों द्वारा तीन सुझाव दिए गए थे, लेकिन तीनों में अध्यक्ष पद के लिए एक ही नाम प्रस्तुत किया गया था। वर्तमान दिल्ली के अध्यक्ष सैयद मंसूर आगा ने अगले दो वर्षों के लिए डॉ इदरीस कुरैशी के पक्ष में एलान किया और सदस्यों ने उनका गर्मजोशी से समर्थन किया। जिसके बाद, निर्वाचन अधिकारी अब्दुल राशिद अंसारी और ऑब्जर्वर मोहम्मद आकिफ ने परिणामों की घोषणा की।गौरतलब है कि मुशावरत के नियम व क़ायदे के अनुसार, डॉ. इदरीस कुरैशी एक गवर्निंग कॉउंसिल का गठन करेंगे, जिसमे कम से कम 11 सदस्य शामिल होंगे, डॉ. इदरिस कुरैशी को दो वर्ष के लिए दिल्ली राज्य मुस्लिम मुशावरत का अध्यक्ष चुना गया है।मुशावरत के राष्ट्रीय अध्यक्ष एडवोकेट फिरोज़ अहमद, दिल्ली मुशावरत के पूर्व अध्यक्ष सैयद मंसूर आगा, रिटर्निंग ऑफिसर अब्दुल रशीद अंसारी, पर्यवेक्षक मोहम्मद आकिफ, डॉ. तसलीम रहनी, दिल्ली के पूर्व अल्पसंख्यक आयोग के अध्यक्ष ज़किर खान और मुशावरत के सभी सदस्यों ने बधाई दी।इस अवसर पर, मुशावरत के राष्ट्रीय अध्यक्ष एडवोकेट फिरोज़ अहमद ने डॉ. इदरीस कुरैशी को बधाई दी और कहा कि दिल्ली राज्य मुशावरत को और अधिक सक्रिय बनाने के लिए हर संभव तरीके से सहयोग करेगी। इसके साथ ही महाराष्ट्र, बिहार, पश्चिम बंगाल, झारखंड और दिल्ली इकाई और अब तमिलनाडु और केरल में एक मुशावरत इकाई स्थापित करने के लिए प्रयास चल रहे हैं। पुराने और नए सदस्यों को जोड़ने में सैयद मंसूर आगा द्वारा सहयोग किया गया।दिल्ली राज्य मुशावरत के पूर्व अध्यक्ष सैयद मंसूर आगा ने कहा कि डॉ. इदरीस कुरैशी को हमारा हमेशा पूरा समर्थन व सहयोग मिलेगा, जबकि केंद्रीय मुशावरत के वरिष्ठ सदस्य डॉ. तसलीम अहमद रहमानी ने अपने संबोधन में कहा कि आज के हालात में मुशावरत को मजबूत करना बेहद ज़रूरी है।इस चुनाव प्रक्रिया में केंद्रीय मुशावरत के अलावा विभिन्न संगठनों के प्रतिनिधियों ने भी भाग लिया। जिसमे मरकज़ी जमीयत अहले हदीस, इंडियन यूनियन मुस्लिम लीग, ऑल इंडिया एजुकेशनल मूवमेंट, ऑल इंडिया जमीयतुल क़ुरैश, ऑल इंडिया मोमिन कॉन्फ्रेंस, मूवमेंट फ़ॉर एम्पावर्मेंट ऑफ मुस्लिम इंडियनस, ऑल इंडिया मुस्लिम ओबीसी आर्गेनाईजेशन, क़ुरैश कॉन्फ्रेंस(रजि), एएमयू ओल्ड बॉयज एसोसिएशन-केंद्रीय व दिल्ली यूनिट, ऑल इंडिया मुस्लिम बैकवर्ड क्लासेज फेडरेशन, ऑल इंडिया मुस्लिम एजुकेशनल सोसायटी, यूनाइटेड वेलफेयर एसोसिएशन, कारवां फाउंडेशन, वॉलंटियर्स ऑफ चेंज, ओखला प्रेस क्लब (रजि.) और अन्य संगठन भी शामिल रहे।इस अवसर पर, मुशावरत के सदस्य डॉ. मुहम्मद शीश तैमी, डॉ. मुहम्मद फेयाज़, डॉ. जावेद आलम खान, अहमद जावेद, एडवोकेट रईस अहमद, मोहम्मद रईसुल आज़म, मोहम्मद मोइनुद्दीन, डॉ. नबील सिद्दीकी, मोहम्मद इलियास सैफी, मौलाना निसार अहमद हुसैनी-अध्यक्ष इंडियन यूनियन मुस्लिम लीग-दिल्ली स्टेट, आसिफ अंसारी-राष्ट्रीय अध्यक्ष यूथ इंडियन यूनियन मुस्लिम लीग, ज़ीशान खलीक, इमलाक अहमद, शेख यामीन कुरैशी, रईस आज़म खान, अज़ीज़ुर -रहमान राही, मेहताब आलम, डॉ. सैयद मुहम्मद फैसल, मोहम्मद मोईनुद्दीन हबीबी, मोहम्मद फैज़ान रहमान, मोहम्मद मोइनुल हक खान, अब्दुल जब्बार, मोइन कुरैशी, रईस अहमद, अधिवक्ता मोहम्मद तेयब खान, असलम अहमद (अधिवक्ता सुप्रीम कोर्ट), बद्र आफाक़, डॉ. अतहर इलाही खान, शेर मोहम्मद, मसरूर हसन सिद्दीकी अधिवक्ता, सैयद रोमान हाशमी, डॉ. एम. अथरुद्दीन (मुन्ने भारती), अजमेरी सोहेल, मलिक तहसीन अहमद, मोहम्मद इरफान, सनोबार अली एडवोकेट, अब्दुल रहमान , मोहम्मद आतिफ, सैयद इशरत अली, मोहम्मद खालिद, मुदस्सर हयात और कबीर खान इत्यादि मौजूद थे।

 ریاستی مجلس انتخاب کے ارکان نے اتفاق رائے سے صدرکاانتخاب کیا

 نو منتخب صدر کا گرمجوشی سے استقبال، قومی صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ کا اظہاراطمینان نئی دہلی: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے مرکزی دفتر میںاتوار کو یہاں طے شد پروگرام کے مطابق دہلی ریاستی مسلم مجلس مشاورت کا انتخاب عمل میں آیا۔ 20 سے زائدتنظیموں کے نمائندوں سمیت مشاورت کی ریاستی مجلس انتخاب کیارکان نے اتفاق رائے سے ڈاکٹر ادریس قریشی کو صدر منتخب کیا۔مشاورت کے دستور کے مطابق دوسال کی میعاد کے لیے صوبائی صدر کا انتخاب ریاستی مشاورت اورریاست میں مقیم مرکزی مشاورت کے ارکان کرتے ہیںاورصدر اپنی صوابدیدسے مجلس عاملہ تشکیل دیتے ہیں جس کے ارکان کی تعداد کم ازکم 11 ہوتی ہے۔   انتخابی کارروائی صبح 10بجے شروع ہوئی، 3بجے تک امیدواروں کے نام کی تجویز لی گئی، اراکین مشاورت کی جانب سے تین تجاویز پیش کی گئی تھی لیکن تینوں میں صدارت کے لیے ایک ہی نام تجویز کیا گیا تھا۔حاضرین کے سامنے تجاویز کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے مشاورت کے موجودہ ریاستی صدر سید منصور آغا نے ڈاکٹر ادریس قریشی کی صدارت کے حق میں تحریک حمایت رکھی اور اراکین نے گرمجوشی سے ہاتھ اٹھا کر تائید کی۔ پھر وقت مقرر پر ریٹر ننگ آفیسر عبد الرشید انصاری اور آبزرور محمد عاکف نے نتائج کا اعلان کیا، ریٹرننگ آفیسر نے حاضرین کو بتایا کہ ہمارے پاس جو تجاویز موصول ہوئی ہیں ان میں دہلی ریاستی مجلس مشاورت کی صدارت کے لیے سبھی اراکین کی جانب سے ایک ہی نام  تجویزکیا گیا ہے۔ اس لیے ڈاکٹر ادریس قریشی کو منتخب قرار دیا جاتا ہے۔ حاضرین نے تالیوں کی گڑ گڑاہٹ کے ساتھ اعلان کا استقبال کیا۔  مشاورت کے قومی صدر جناب فیروز احمد ایڈوکیٹ، دہلی ریاستی مشاورت کے سابق صدر جناب سید منصور آغا، ریٹرننگ آفیسر عبد الرشید انصاری، آبزرو محمد عاکف،ڈاکٹر تسلیم رحمانی، دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق صدر ذاکر خان اور سبھی اراکین مشاورت نے نومنتخب صوبائی صدرکومبارکباد پیش کی اورنیک خواہشات کا اظہارکیا۔  قومی صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے اس موقع پرکہا کہ دہلی ریاستی مشاورت کومزید فعال بنانے کے لیے وہ ہر ممکن تعاون کریں گے، ہماری کوشش ہے کہ ریاستی سطح پر مشاورت کو مضبوط کیا جائے، اس ضمن میں ہم نے مہاراشٹر، بہار، مغربی بنگال، جھارکھنڈ اور دہلی یونٹ تشکیل دی ہے اور اب تمل ناڈو، کیرالہ اور گجرات میں مشاورت کی اسٹیٹ یونٹ کی تشکیل کی کوششیں جاری ہیں، ہم ہندوستان کی ہر ریاست میں مشاورت کو فعال بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ دہلی مشاورت کے انتخابی عمل میں سینئر رکن مشاورت جناب سید منصور آغا صاحب کا ہرممکن تعاون حاصل رہاجس سے پرانے اور نئے ممبران کو جوڑنے میں کامیابی ملی ہے۔ دہلی مشاورت کے سابق صدر سید منصور آغا نے کہا کہ ڈاکٹر ادریس قریشی کو ہمارا ہر ممکن تعاون حاصل رہے گا جبکہ مرکزی مشاورت کے سینئر رکن ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج کے حالات میں مشاورت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ جس تنظیم کی صوبائی یونٹ مضبوط ہوتی ہے اس کا مرکز بھی زیادہ طاقتور و فعال ہوتا ہے۔  مشاورت سے وابستہ مرکزی تنظیموں کے ریاستی یونٹوں کے نمائندوں کے علاوہ جن دوسری20 اہم تنظیموں کے نمائندوں نے اس انتخابی اجلاس میں شرکت کی ان میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند، انڈین یونین مسلم لیگ،آل انڈیا ایجو کیشن مؤمنٹ،،آل انڈیا جمعیت القریش، آل انڈیا مومن کانفرنس، مومنٹ فار ایمپاورمنٹ آف مسلم انڈینس(مؤمن)، آل انڈیا مسلم او بی سی آرگنائزیشن، قریش کانفرنس (رجسٹرڈ)، اے ایم یو اولڈ بوائز ایسو سی ایشن دہلی یونٹ، اے ایم یو اولڈ بوائز ایسو سی ایشن (مرکزی یونٹ)، آل انڈیا مسلم بیک ورڈ کلا سیز فیڈریشن ، آل انڈیا مسلم ایجو کیشنل سوسائٹی، یونائیٹیڈ ویلفیئر ایسو سی ایشن، کارواں فائونڈیشن،والنٹیرس آف چینز، اوکھلا پریس کلب (رجسٹرڈ) اور دیگر تنظیمیں شامل تھیں۔ اس موقع پر قومی مشاورت کے رکن ڈاکٹر محمد شیث تیمی ، ڈاکٹر محمد فیاض،ڈاکٹر جاوید عالم خان، احمد جاوید ، مدثر حیات ایڈو کیٹ رئیس احمد ، محمد رئیس الاعظم ، محمد معین الدین ، ڈاکٹر نبیل صدیقی، محمد الیا س سیفی، مولانا نثار احمد حسینی صدر انڈین یونین مسلم لیگ صوبہ دہلی ، آصف انصاری قومی صدر یوتھ آل انڈیا مسلم لیگ، ذیشان خلیق، املاک احمد ، شیخ یامین قریشی ، رئیس اعظم خان ، عزیز الرحمن راہی ، مہتاب عالم، قاضی محمد میاں ، ڈاکٹر سید محمد فیصل ، محمد معین الدین حبیبی ، محمد فیضان رحمان، محمد معین الحق خان، عبد الجبار، معین قریشی ، رئیس احمد ،  ایڈوکیٹ محمد طیب خان ، اسلم احمد ( ایڈوکیٹ سپریم کورٹ)، بدر آفاق،  ڈاکٹر اطہر الہی خان ، شیر محمد ، مسرو رالحسن صدیقی ایڈوکیٹ ، سید رومان ہاشمی ، ڈاکٹر ایم اطہر الدین (منے بھارتی )، اجمیر ی سہیل ، ملک تحسین احمد ، محمد عرفان ، سنوبر علی ایڈوکیٹ، عبد الرحمان ، منصور عالم ، مشتاق انصاری ، ابرار محسن ، محمد عاطف، سید عشر ت علی ، محمد خالد اور کبیر خان وغیرہم شامل تھے۔ Full Coverage & Credits

اے جی نورانی کے انتقال سے ملک و ملت نے ایک عظیم دانشور کو کھو دیا:مشاورت

ممتاز ماہر قانون اور بالغ نظر مصنف و مبصر اے جی نورانی کے انتقال پر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے گہرے رنج و ملال کا اظہارکیا نئی دہلی: ممتاز ماہرقانون، اور بالغ نظر مصنف و مبصر اے جی نورانی کے انتقال پر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے گہرے رنج و ملال کا اظہار کیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ مرحوم کی رحلت سے ملک و ملت نے ایک بے لوث خادم کو کھو دیا۔ صدر مشاورت فیروز احمد ایڈو کیٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ مرحوم اے جی نورانی نے اپنی زندگی جمہوری قدروں کے فروغ اور دستور کی نگہبانی میں لگائی۔ وہ بیش قیمت دستاویزی کتابوں کے مصنف تھے،ان کا شمار حقوق انسانی کے سب سے بڑے علمبرداروں میں ہے۔صدر مشاورت نے کہا کہ وہ ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے جن کی کمی بہت دیر تک محسوس کی جائے گی۔ پروردگار ملک و ملت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور مرحوم کی مغفرت فرمائے۔آمین Full Coverage & Credits

جے ڈی یو سے وقف (ترمیمی) بل 2024 کی مخالفت کرنے کی اپیل

مسلم مجلس مشاورت بہارکے صدر پروفیسر ابوذر کمال الدین نے وزیر اعلی نتیش کمار کو خط لکھ کر وقف ترمیمی بل پر مسلمانوں کی تشویش سے آگاہ کیا نئی دہلی: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی بہار ریاستی مجلس نے بی جے پی کی اہم حلیف جماعت جنتا دل یونائیڈکے صدر نتیش کمار (وزیر اعلیٰ، بہار) کو خط لکھ کروقف ایکٹ 1995 میں مجوزہ ترامیم کے تعلق سے مسلمانوں کی تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے جے ڈی یو سے پارلیمنٹ سے اس بل کی مخالفت کرنے کی اپیل کی ہے۔ بہار ریاستی مسلم مجلس مشاورت کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ابو ذر کما ل الدین نے لکھا ہے کہ مجوزہ ترمیمی بل کے منظور ہونے سے اقلیتی برادریوں بالخصوص وقف املاک کے مستفیدین محتاجوں کے حقوق ومفادات کوسنگین خطرات لاحق ہوں گے۔مشاورت محسوس کرتی ہے کہ یہ ہندوستان کے سیکولر اور جمہوری اصولوں کے سراسرمنافی ہے اور اس سے ہندوستان کے22کروڑسے زیادہ لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ تمام جمہوری قوتوں اور جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اس بل کی مخالفت کریں اور اسے منظور کرانے کی حکومتی کوششوں کو ناکام بنائیں۔  جنتا دل یونائٹیڈ کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ وقف املاک کمیونٹی کی سماجی و اقتصادی فلاح و بہبود کے لیے ہمارے آباو اجداد کی عطیہ کردہ جائیدادیں ہیں۔ یہ مختلف مذہبی مقامات، درگاہوں، امام بارگاہوں، خانقاہوں کے لیے وقف کی گئی زمین جائیدادیں ہیں۔وقف ایکٹ 1995 میں ان ترامیم کا مقصد کچھ مفاد پرست گروہوں اور افراد کو ان جائیدادوں پر قبضہ کرانا یا ان کے حوالے کرنا لگتا ہے۔ حکومت صرف ایک ریگولیٹری اتھارٹی ہے اوریہ حق نہیں رکھتی کہ وہ وقف بورڈ کے اختیارات کو کمزور کرنے کی کوشش کرے۔  خط میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ وقف ایکٹ، اپنی موجودہ شکل میں، اس بات کو یقینی بنا کر مسلم کمیونٹی کے مفادات کے تحفظ کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ وقف املاک کو کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے۔ جبکہ مجوزہ ترامیم اس مقصد کو کمزور کرتی نظر آتی ہیں۔ ان تبدیلیوں سے وقف املاک پر ذاتی مفادات کے حامل غاصبوں کو قبضے اورتجاوزات کی سہولت ملتی ہے، گویا اقلیتی برادری سے ان کے جائز حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔اس بل کی حمایت کرنا نہ صرف وقف املاک کے تحفظ سے سمجھوتہ کرناہو گا بلکہ اقلیتی برادریوں کو ہماری قوم میں ان کی سلامتی اور بہبود کے حوالے سے ایک تکلیف دہ پیغام بھی جائیگا۔ یہ ضروری ہے کہ ہم ہرفرقہ کے لیے انصاف، مساوات اور تحفظ کے اصولوں کو برقرار رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ غیر منصفانہ قانون سازی سے ان کے حقوق کی پامالی نہ ہو۔ پروفیسر ابوذر کما ل الدین نے لکھا کہ ہم آپ سے پرزوراپیل کرتے ہیں کہ اس متنازعہ بل کی حمایت پر نظر ثانی کریں اور اس کی مخالفت کرتے ہوئے اقلیتی برادریوں کے حقوق کا دفاع کریں۔ اس معاملے پر آپ کا موقف اقلیتوں کے حقوق، انصاف اور مساوات کے اصولوں پرآپ کے یقین ووابستگی کو ظاہر کرے گا۔ جاری کردہ (دستخط) شہاب الدین آفیس سکریٹری، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت