पैगम्बर मुहम्मद (स.अ. व. ) का अपमान असहनीय।

मुसलमानों की भावना को आघात पहुंचाने के दोषी नरसिंहानंद जैसे गुस्ताखों को गिरफ्तार कर कड़ी से कड़ी सजा दी जाए: मुशावरत नई दिल्ली: ऑल इंडिया मुस्लिम मजलिसे मुशावरत ने तथाकथित स्वामी यति नरसिंहानंद की पैगंबर मुहम्मद (स. अ. व.) की शान में गुस्ताखी की कड़ी निंदा करते हुए कहा है कि इस बदजुबान व्यक्ति द्वारा कहे गए अपमानजनक शब्द असहनीय हैं। मुस्लिम संगठनों के संघ ‘मुशावरत’ के अध्यक्ष फिरोज अहमद, एडवोकेट ने कहा कि सरकार को ऐसे बदजुबान को अविलंब गिरफ्तार कर मुकदमा चलाना और सख्त से सजा देनी चाहिए। उन्होंने कहा कि उसे आज़ाद छोड़ देना ख़तरनाक है, ऐसे व्यकित के लिए समाज में कोई स्थान नहीं है, ऐसे बदज़ुबान व्यक्ति की जगह जेल है। उन्होंने कहा कि उसकी इस हरकत से देश में शांति व्यवस्था को ख़तरा दरपेश है। मुशावरत के अध्यक्ष ने कहा कि मुसलमान एक ईश्वर में आस्था रखते हैं और मूर्तिपूजा इस्लाम में सबसे बङा पाप है, लेकिन इस्लाम अपने अनुयायियों को किसी भी धर्म की पवित्र हस्तियों को अपमानित करने से रोकता है और किसी की भावनाओं को चोट पहुंचाने की अनुमति नहीं देता। कु़रआन उन देवी-देवताओं को भी बुरा भला कहने से मना करता है जिनको गैर मुस्लिम पूजते हैं। उन्होंने यह भी कहा कि नरसिंहानंद की यह हरकत एक ऐसा कुकृत्य जिसको सहन नहीं किया जा सकता लेकिन हमें इस बदजुबान के विरुध कानूनी कार्रवाई करनी चाहिए और सरकार से इस व्यक्ति को दंडित करने की मांग करनी चाहिए। मुसलमानों को चाहिए कि वह कहीं भी हों वहां पर अपने देशवासियों से पैग़म्बर मुहम्मद (स. अ. व.) के आदर्श जीवन (सीरत) का परिचय कराएं, और उनको ये भी बताएं कि मानव जाति की मुक्ति, स्वतंत्रता और समानता के दुश्मनों को मानवता के उद्धारक पैगंबर मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) से क्या तकलीफ है और वे उनका चरित्र हनन इस लिए करते हैं ताकि पीड़ितों को एकजुट होने और उनकी न्याय और समानता की शिक्षाओं को अपनाने से रोक सकें।
پیغمبر اسلام ؐ کی شان میں گستاخی ناقابل برداشت

نئی دہلی: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے نام نہاد سوامی یتی نرسنگھانند کی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی شان میں گستاخی کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بدزبان شخص نے جو گستاخانہ کلمات کہے ہیں، وہ اس کی بدترین اشتعال انگیزی اور ناقابل برداشت حرکت ہے۔صدر مشاورت فیروز احمد ایڈوکیٹ نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ ایسے بدزبان شخص کو بلاتاخیر گرفتار کرے اور مقدمہ چلاکر سزا دے۔ انہوں نے کہا کہ اس کو آزاد چھوڑنا خطرناک ہے، کسی مہذب معاشرے میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہوسکتی، ایسے بدزبان شخص کی جگہ جیل ہے۔یہ شخص بار بار ملک کے کروڑوں باشندوں کی دل آزاری کر رہا ہے اور اس کی حرکتوں سے ملک کا امن وامان خطرے میں ہے۔ صدر مشاورت نے کہا کہ مسلمان ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور مورتی پوجا اسلام میں بدترین گناہ ہے لیکن یہ اپنے ماننے والوں کو کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں کی بے حرمتی سے روکتا ہے اور کسی کی بھی دل آزاری کی اجازت نہیں دیتا۔یہاں تک کہ قرآن نے ان دیوی دیوتاؤں کو بھی برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے جن کو غیرمسلم پوجتے ہیں، انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ نرسنگھانند کی گستاخی ایک بیہودہ شخص کا فعل بد ہے، ہمیں اس بدزبان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے اورحکومت سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اس شخص کو قرار واقعی سزا دے اور مسلمانوں کو چاہیے وہ جہاں بھی ہوں، اپنے ہم وطنوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی سیرت سے آگاہ کریں اور ان کو بتائیں کہ انسانوں کی آزادی اور برابری کے دشمنوں کو حضور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم سے کیا تکلیف ہے اور وہ ان کے کردار کو اس لئے مسخ کرنا چاہتے ہیں تاکہ مظلوموں کو ایک ہونے اور ان کی تعلیمات انصاف و مساوات کو اپنانے سے روکیں۔
Mushawarat condemns Derogatory Remarks against the Prophet and demands arrest of serial offender Narsinghanand arrest under UAPA

New Delhi: The All India Muslim Majlis-e-Mushawarat (only confederation of prominent Muslim organisations and individuals) has strongly condemned the derogatory remarks made by the so -called Swami Yati Narsinghanand against the Prophet of Islam (peace and blessings be upon him). AIMMM, the oldest on federation of Muslim organizations says that the derogatory remarks uttered by this foul-mouthed individual represent extreme provocation and are completely intolerable and will create unrest in the country. President of the AIMMM, Feroze Ahmed Advocate, emphasized that the government must immediately arrest this serial offender under UAPS prosecute him, and ensure he is punished. Mr. Feroze Ahmad further added that allowing him to roam freely is dangerous for peace and tranquility, and such an individual has no place to roam freely in any civilized society and needs to be put behind bars. Psychopath Narsinghanand repeatedly causing deep offense to millions of people in the country and abroad, and his repeated nonsensical utterances are endangering peace and security in the country and creating bad image for the country across the globe. The President of the AIMMM stated that Muslims believe in one God, and idol worship is considered a grave sin in Islam, yet Islam prevents its followers from insulting the holy figures of any other religion and does not allow the hurting of anyone’s sentiments. The Qur’an even prohibits speaking ill of the deities worshipped by non-Muslims. He further stated that the blasphemy of Narsinghanand is the act of a vile and disrespectful individual, and we must take appropriate legal action against this foul-mouthed person. Mushawarat president emphasised that Muslims, wherever they lives, should educate and introduce to others about the noble character of the Prophet Muhammad (peace and blessings be upon him) and explain how the enemies of freedom and equality are distressed by the Prophet’s teachings by indulging in distorting Prophet’s character to prevent the oppressed from uniting and adopting his principles of justice and equality.
حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ کے قتل کی مذمت

اسرائیل کی اس جارحیت سے خطہ میں خون خرابہ مزید بڑھے گا: مشاورت نئی دہلی: آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت، لبنانی مزاحمتی گروپ حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ کے المناک قتل پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتی ہے اور اس وحشیانہ عمل کی شدید مذمت کرتی ہے۔ مشاورت کے صدر فیروزاحمدایڈوکیٹ نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ ہم اس قسم کے تشدد کی سخت مخالفت کرتے ہیں جو صرف تنازعات کو بڑھاتا ہے، امن کی کوششوں کو تباہ کرتا ہے اور بے گناہ لوگوں کے مصائب میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حسن نصراللہ خطہ کی ایک نمایاں شخصیت تھے، جن کی قیادت اور عزم نے ان کے پیروکاروں اور کمیونٹی پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ ان کی شہادت ان لوگوں کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے جو انہیں اپنے حقوق اور مفادات کا محافظ سمجھتے تھے۔ نظریاتی اختلافات اپنی جگہ لیکن ہم پختہ یقین رکھتے ہیں کہ تنازعات کا حل تشدد کے بجائے مکالمے کے ذریعے ہونا چاہیے۔ہمارا ماننا ہے کہ مشرق وسطی میں تشدد کی گرم بازار اور فلسطین کے لوگوں کے انسانی حقوق کی پامالی کے لیے جو طاقتیں سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں ، ان میں ذاتی طور پر اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوگ ،وزیراعظم نتن یاہو، اسرائیلی افواج کے سربراہ اور ان کی پیٹھ پہ کھڑے امریکہ اور برطانیہ کے سربراہان مملکت سر فہرست ہیں ۔ بھارت کی مسلم تنظیموں کا وفاق ان کے خاندان، حامیوں اور لبنان کے عوام کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہے۔ ہم دعا گو ہیں کہ اس خطے میں امن اور انصاف قائم ہو اور مزید خونریزی کا خاتمہ ہو۔ ہم تمام فریقین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ تحمل سے کام لیں اور تنازعات کے پرامن حل کی جانب قدم بڑھائیں کیونکہ تشدد پہلے سے ہی مصیبت زدہ کمیونٹی کے زخموں کو مزید گہرا کرے گا۔ اللہ حسن نصراللہ کی مغفرت فرمائے اور ان کے خاندان اور چاہنے والوں کو اس مشکل وقت میں صبر اور طاقت عطا فرمائے۔
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے اجلاس میں ملک و ملت کو درپیش مسائل پر غوروفکر

مسلم تنظیموں کے نمائندوں،ممتازرہنماؤں اوردانشوروں کاملک کی سیاسی و سماجی صورتحال پر اظہار تشویش، اقلیتوں اور مظلوموں کے اتحاد پر زور، انصاف کے لیے مل کر لڑنے کاعزم ہجومی تشدد، بلڈوزر راج،نفرت و عداوت کی سیاست، اقلیت مخالف معاشی پالیسی ،سی بی ایس ای کی اردودشمنی، انتخابی حلقوں کی حدبندی،دہلی کے متاثرین فسادات کے لیے انصاف، بےگناہ قیدیوں کی رہائی،مظلومین آسام کی دادرسی اوروقف ترمیمی بل سمیت اہم امور پر 20 سے زائد قراردادیں منظور، پڑوسی ممالک اور فلسطین کے حالات و واقعات اورہندوستان پران کےاثرات بھی زیر بحث آئے نئی دہلی: ملک کی مؤقر مسلم تنظیموں اورممتازاشخاص کے وفاق “آل انڈیامسلم مجلس مشاورت” کا سالانہ اجلاس ہفتے کو نئی دہلی میں منعقد ہوا۔ مہاراشٹر، جھارکھنڈ، کرناٹک، مغربی بنگال، تلنگانہ، دہلی، اتر پردیش، ہریانہ اور بہار کے نمائندوں کی ایک اچھی تعداد نے اس میٹنگ میں شرکت کی اور ملک وملت کو درپیش مسائل پرغوروفکرمیں حصہ لیا۔مسلم تنظیموں کے نمائندوں، ممتاز قائدین ، ارکان پارلیمنٹ ، دانشوران،علمائے دین اور اصحاب رائے نے اس موقع پر ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ، اقلیتوں اور دیگرکمزور طبقات کے اتحاد پر زور دیا اور انصاف کے لیے مل کر جدوجہد کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ہجومی تشدد، نفرت کی سیاست، حکومت کی اقلیت مخالف اقتصادی پالیسی ، سی بی ایس ای کے اردو مخالف فیصلے، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی حالت، انتخابی حلقوں کی حد بندی، وقف ترمیمی بل، ذات برادری کی مردم شماری، بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں بلڈوزر راج، آسام اور یوپی کی تشویشناک صورت حال ،شمال مشرقی دہلی( 2020 ) کےمتاثرین فسادات کے لیے انصاف اوربےگناہ قیدیوں کی رہائی جیسے سلگتے مسائل پر تقریباً 20 قراردادیں منظور کی گئیں۔ اجلاس میں پڑوسی ممالک کی صورتحال ، فلسطین کے لوگوںپراسرائیلی مظالم اور دنیا پر اس کے اثرات بھی زیربحث آئے اوران پرقراردادیںمنظور کی گئیں۔شرکائے اجلاس کی پختہ رائے تھی کہ مسلمانوں کے خلاف حکومت کے دشمنانہ رویے، اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف ریاستی ایجنسیوں کے استعمال اور نفرت کی سیاست کا متحد ہوکر مقابلہ کرنا ہے۔ صدرمشاورت فیروز احمد ایڈوکیٹ نے اپنے صدارتی کلمات میںبھی اس عزم کا اعادہ کیا۔انہوں نے کہاکہ ہم مسلمانوں کوبانٹنے کے لیے “پسماندہ غیرپسماندہ کارڈ” کھیلنےکی اجازت ہرگزکسی کونہیں دیںگے۔ انہوں نےکہا کہ مشاورت اپنی صوبائی یونٹوں کو مضبوط کرےگی اور کم ازکم 20 ریاستوں میں مشاورت کواسی سال فعال کیاجائےگا جبکہ مشاورت کے رکن اور سابق رکن پارلیمنٹ شاہد صدیقی نے اس موقع پرمشاورت کے ماضی کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مشاورت ایک بااثر تاریخی تنظیم رہی ہے جس کی ساکھ کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں ارکان مشاورت پرزور دیا کہ آپ اس کی کریڈبلیٹی کو رسٹور کریں ،نہ توافراد کی کمی ہوگی نہ وسائل کی کمی رہےگی ۔انہوں نے کہا کہ مسلم ممبران اسمبلی و پارلیمنٹ کے درمیان آپسی روابط بڑھانےکی ضرورت ہے، مشاورت اس پر کام کرے کہ مسلم ممبران پارلیمنٹ و اسمبلی کم ازکم اسمبلی و پارلیمنٹ کے ہر اجلاس سے پہلے میٹنگ کیاکریں۔مشاورت نےان کی اس تجویزپررکن پارلیمنٹ جناب ای ٹی محمد بشیر ، سابق ممبران پارلیمنٹ جناب شاہد صدیقی، جناب عزیز پاشا، جناب کنور دانش علی ،جناب م افضل اورمشاورت کے سابق صدر جناب نوید حامد پرمشتمل پارلیمانی امورکی ذیلی کمیٹی تشکیل دی۔ اسی طرح مشاورت کے رکن اوراتر پردیش کے معروف سیاسی و سماجی رہنما اخترحسین اختر نے کہا کہ مشاورت کو اوقاف اور دوسرے اہم امور پر مسلمانوں کے لیے گائڈ لائن جاری کرنا چاہیےاور اس کام کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جائےجبکہ مشاورت کے نائب صدر نوید حامد نے کہا کہ ملک بھر سےسیکڑوں میل کا سفر کرکے ارکان و مندوبین کا اس اجلاس میں شریک ہونا ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ ملت کے مسائل میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ انہوںنے کہاکہ مشاورت کواب بھی ملک و بیرون ملک،سیاسی و سماجی حلقوں میں سنجیدگی سے لیاجاتاہے۔اس سے قبل مشاورت کے جنرل سکریٹری (میڈیا) احمدجاویدنے مشاورت کی گذشتہ کارروائیوں کی رپورٹ پیش کی ۔ رپورٹ میں ان صحافیوں کے لیے قانونی امدادکا نظم جو سچائی کو سامنے لانے کے لیے اپنے آپ کواوراپنے مستقبل کو خطرے میں ڈالتے ہیں اوراسی طرح میڈیا مانیٹرنگ سیل اور ڈیٹا سینٹر کے قیام کے منصوبے کی تفصیلات بھی شامل تھیں۔مشاورت نے ملک وقوم کو درپیش مسائل پر قومی کنونشن بلانےاور سید شہاب الدین کی یاد میں سالانہ لیکچر کرانےکا بھی اعلان کیا ۔پہلا سیدشہاب الدین میموریل لکچر اس سال 4 نومبر کو منعقدکیاجائےگا۔ رپورٹ میں مشاورت کی عمارت کی تعمیر نو اور مشاورت ریفرنس لائبریری کے استحکام کی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی گئی اوربتایاگیاکہ دفتر مشاورت میںایک علاحدہ ریڈنگ روم کی سہولت بھی ہے جو مسابقتی امتحانات کی تیاری کرنے والے طلباء کے لیےوقف ہے۔مشاورت کےجنرل سکریٹری (فائنانس)جناب احمدرضا نے سال گذشتہ کی آمدوخرچ کا حساب وکتاب اور سال 2024-25کابجٹ پیش کیا۔بنگلور (کرناٹک) سےآئے رکن مشاورت حیدرولی خاں نے مشاورت کے بجٹ میں انتظامی اموراورمیڈیا کےلیےرقوم میں اضافہ کرنے کی تجویز رکھی جس کی حاضرین نے تائید کی اوربجٹ کواتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔میٹنگ کے دوسرے حصے میں ڈاکٹر قیصر شمیم ،سابق سکریٹری سنٹرل وقف کونسل(حکومت ہند) نے وقف ترمیمی ایکٹ 2024 پر قرارداد پیش کی جس پر بحث میں سابق ایم پی عزیز پاشا اور دیگراراکین نےحصہ لیا۔اسی طرح ہجومی تشدد پرقراردادپر خورشید حسن رومی، منظور احمد اورسپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ اعجاز مقبول نےتجاویزپیش کیں۔ دونوں قراردادیں ان مسائل پر مرکزی حکومت اور ریاستوں کی این ڈی اے حکومتوں کی پالیسیوں اور کام کاج کے طریقے کو مسترد کرتی ہیں۔قرارداد میں نشاندہی کی گئی کہ قانون کے نفاذ کے تقریباً تین دہائیوں کے بعد بھی حکومت وقف ایکٹ 1995 کے تحت اوقاف کا سروے کرانے میں ناکام رہی ہے، نئے قواعد و ضوابط کی توضیع ، بورڈ میں کل وقتی سی ای او کی تقرری اور قانون کے دیگر مینڈیٹ پربھی اس نے عمل درآمد نہیںکیا۔ یہ صرف ریاستیں ہی نہیں جو ایکٹ کو نافذ کرنے میں ناکام رہی ہیں، مرکز بھی نگرانی کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سنٹرل وقف کونسل کی میعاد 3فروری2023 کو ختم ہو گئی تھی اور اس کی تشکیل نو نہیں کی گئی ۔ کونسل کے سیکرٹری کو 11اپریل2023 کو رخصت کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے کونسل
حلقہ بندی کے عمل پر قرارداد

آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت کے قومی اجلاس میں منظور کی گئی تاریخ:21 ستمبر2024 ہندوستان کے آئین کی رو سے ہر دس سال بعد مردم شماری ہونی چاہیے اور شائع شدہ اعداد و شمار کی بنیاد پر لوک سبھا اور ریاستی اسمبلی کے حلقوں کے ساتھ ساتھ میونسپل کارپوریشنوں، میونسپل بورڈوں، میونسپل کونسلوں، ڈسٹرکٹ کونسلوں، پنچایت سمیتیوں اور گرام پنچایتوں کے وارڈز کی سرحدوں کو ازسرنو متعین کیا جانا چاہیے۔ آئین کے نفاذ(1950 ) کے بعد سے یہ عمل وقتاً فوقتاً کیا جاتارہا ہے۔ تاہم، 2002 میں آئین کی 84ویں ترمیم کے تحت لوک سبھا اور اسمبلی کے حلقوں کی حد بندی بالعموم 2031 میںاگلی مردم شماری کے اعداد و شمار کی اشاعت تک روک دی گئی۔ اس کے باوجود، مقامی اداروں (میونسپل کارپوریشنز، میونسپل بورڈز، ڈسٹرکٹ کونسلز، پنچایت سمیتیوں، گرام پنچایتوں وغیرہ) کے وارڈز کی حد بندی ہر دس سال بعد جاری ہے۔ حلقہ بندی کے قوانین اور قواعد ٹھوس ہیں لیکن ان کا نفاذ اکثر ناکافی ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں بعض کمیونٹی کو جمہوری نمائندگی کا مکمل انصاف نہیں ملتا۔ ہندوستان کے ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے، ہمیں چوکس رہنا چاہیے اور نچلی سطح پر منظم طریقے سے کام کرنا چاہیے تاکہ حلقہ بندی کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے اور یہ کسی بھی آبادی یا کمیونٹی کی نمائندگی پر منفی اثر نہ ڈالے۔ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے حلقوں کی حد بندی کا عمل واجب العمل ہے اور اگلی مردم شماری کے بعد مکمل کیاجاسکتا ہے کیونکہ “خواتین ریزرویشن ایکٹ 2023کے تحت پارلیمنٹ میں خواتین کے لیے نشستیں محفوظ کرنے کی دفعات کو نافذ کیا جانا ہے۔ لہٰذا، قومی مردم شماری اور حلقہ بندی کا عمل آپس میں جڑا ہوا ہے اور مسلم کمیونٹی اور دیگر پسماندہ گروہوں کی فوری توجہ کا مستحق ہے۔ ہمیں دونوں کارروائیوںپر نظر رکھنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت (AIMMM) کا پختہ احساس ہے کہ ماضی میں انتخابی حلقوں کی حدبندی کو بار بار مخصوص آبادیوں اور کمیونٹی، خاص طور پر مسلم کمیونٹی کی نمائندگی پر منفی اثر ڈالنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ ماضی کے تجربات سے مشاورت نے یہ پختہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تقریباً 80 لوک سبھا سیٹیں، جہاں مسلم ووٹروں کی بڑی تعداد ہے، جان بوجھ کر درج فہرست ذاتوں (SC) کے لیے مخصوص کر دی گئیں جبکہ ایسی نشستوں کو جن میںدرج فہرست ذات کے لوگوں کی بڑی آبادی موجود ہے، عام زمرے میں رکھا گیا۔ درج فہرست ذاتوں کی آبادی کو لوک سبھا یا ریاستی اسمبلیوں میں عام زمرے کے تحت ڈالنے کا بنیادی مقصد نہ صرف دلتوں کی مضبوط قیادت کے ابھرنے کے مواقع کو بند کرنا ہے بلکہ یہ بھی یقینی بنانا ہے کہ اس کمیونٹی کا بڑا حصہ ہندو رہنماؤں کے زیر اثر رہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مخصوص لوک سبھا حلقوں کے آبادیاتی اعداد و شمار میں درج فہرست ذاتوں کی آبادی مسلم ووٹروں کے مقابلے میں کم پائی گئی ہےاور اس کا مقصد مسلم کمیونٹی کی مساوی اور باعزت نمائندگی کو روکنا ہے۔ لہٰذا، ماضی میں حلقہ بندی کا عمل ایک گھناؤنے ایجنڈے کے تحت عمل میں لایا گیا تاکہ مسلم اور ایس سی کمیونٹیز کی مضبوط سیاسی قیادت کے ابھرنے اور ان کی پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں معتبر نمائندگی کے مواقع کومسدود کیا جا سکے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت حد بندی کے عمل میں اپنائے گئے رائج طریقہ کار اور چالاکیوں کی شدید مذمت کرتی ہے اور اقلیتوں اور دیگر پسماندہ گروہوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ حلقہ بندی کے عمل کے دوران اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے چوکس رہیں اور حلقہ بندی کے مختلف مراحل میں ریاستی چیف الیکٹورل افسران، نیشنل الیکشن کمیشن اور ضلع مجسٹریٹ (جو اپنے متعلقہ اضلاع کے لیے الیکشن آفیسر بھی ہوتے ہیں) کے ذریعے حتمی نوٹیفکیشن سے قبل ضروری اصلاحات کا مطالبہ کریں۔ مسلم مجلسِ مشاورت ماضی میں حلقہ بندی کے قوانین اور قواعد کی خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کرتی ہے جو وقتاً فوقتاً عمل میں آئیں۔مشاورت کا پختہ یقین ہے کہ ہندوستان کے الیکشن کمیشن، ریاستی چیف الیکٹورل افسران، اور ضلع مجسٹریٹس کو ان خلاف ورزیوں سے مہذب اور جرات مندانہ طورپر آگاہ کیا جانا چاہیے اور بروقت سوالات اٹھانے چاہئیں کہ ضروری اصلاحات کا عمل کب شروع کیا جائے گا اور حلقہ بندی کا حتمی نوٹیفکیشن کب جاری کیا جائے گا۔ہماراماننا ہےکہ ان اصلاحات کو سماجی تنظیموں کی طرف سے سروے اور حکومت کے دستیاب اعداد و شمار پر مبنی تحقیق کے ذریعے مسلسل مکالمے کے ذریعے یقینی بنایا جانا چاہیے۔ مشاورت کا یہ اجلاس اس بات کی بھی توثیق کرتا ہے کہ اس مسئلے کو سستی سیاسی تشہیر کے لیے سماجی کام کے نام پر عوامی طور پر اچھالنے کے بجائے، بنیادی مقصد پر سنجیدگی سے توجہ مرکوز کرنا زیادہ فائدہ مند ہوگا جو کہ مسلمانوں اور دیگر پسماندہ گروہوں کے عوام کے انتخابی حقوق کی حفاظت ہے۔ مسلم مجلس مشاورت یہ بھی تجویز کرتی ہے اور اپیل کرتی ہے کہ دونوں کمیونٹیز، یعنی دلت اور مسلمانوں کی معتبر سماجی قیادت سیاسی بصیرت کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کرے تاکہ قومی مردم شماری کے بعد شروع ہونے والے حلقہ بندی کے عمل کے دوران مناسب ہم آہنگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ مجلسِ مشاورت کو امید ہے کہ سمجھداری غالب آئے گی اور مذہبی تنظیمیں اپنے اداروں کو اس عمل میں ملوث کرنے سے گریز کریں گی کیونکہ یہ ممکنہ طور پر ردعمل پیداکر سکتا ہے۔ پیش کنندہ:نوید حامد، ڈاکٹر سید ظفر محمود اور احمد جاوید کی آراء کے ساتھمقام:نئی دہلی
Resolution on assurance of TN Chief Minister to extend reservations to SC converts to Islam in the state

Adopted at the National Meeting of All India Muslim Majlis-e-Mushawarat Date: 21st September, 2024 All India Muslim Majlis e Mushawarat (AIMMM) welcomes the announcement of the Tamil Nadu chief minister Mr. MK Stalin, on the floor of the assembly, for considering for reservation benefits to Schedule Caste members who converted to Islam after consultation with the legal luminaries. AIMMM also noted with satisfaction Mr. Stalin’s commitment emphasizing the government’s commitment for safeguarding the interests of all such backward social groups as paramount. The announcement comes in continuation of a resolution passed in the State Assembly a year back urging the Central Government to bring amendments in the laws to pave the way for giving reservation to the ‘Adi Dravidians’ who have converted to Christianity. The blocking of greater social inclusion and equality in the country by the central government has been resisted by several state governments who oppose the vision of social exclusion of the communities who have converted their faith. Mushawarat is of the opinion that the equity can never be achieved with universal distribution of benefits of social justice without any prejudice and apartheid. Indeed no one can deny that there is a new tussle between the votaries of social inclusiveness and those who vouch for exclusive Hindu society, pushing out the ‘others’ from the development paradigm in the country. Mushawarat also welcomes the initiative and continuous campaign of Mr. MH Jawahirullah MLA and member of AIMMM for raising the issue of the equitable justice for the scheduled caste converts to Islam on whose demand the CM Stalin had assured about the issue in the assembly. AIMMM hopes that the various other state governments will take the lead in extending affirmative actions for schedule caste converts to Christianity and Islam. (Proposed by Mr. Navaid Hamid)
آسام کی سماجی سیاسی صورتحال اور بی جے پی کی ہمنتا بسوا سرما حکومت کے کردار پر قرارداد

آل انڈیا مسلم مجلسمشاورت کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا گیا Date: 21st September, 2024 آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت آسام کے منفرد اور متنوع ثقافتی، نسلی اور مذہبی تانے بانے کو تسلیم کرتے ہوئے اور ابھرتے ہوئے سماجی سیاسی منظر نامے سے درپیش چیلنجوں کے تناظر میں امن، ہم آہنگی، اور تمام برادریوں خاص طور پر پسماندہ اور مظلوم کے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے اٹوٹ عزم و وابستگی کا اعادہ کرتی ہے، مندرجہ ذیل قرار داد آسام میں مسلم مخالف جذبات اور طرز عمل سے بڑھتے ہوئے خطرات کی مذمت و مخالفت کرتی ہے اور اس پریشان کن رجحان کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد طریقہ اختیار کرنے پر زور دیتی ہے۔ صورت حال: 1. آسام کی آبادی کی متنوع ساخت اور تاریخ: آسام طویل عرصے سے نسلی، لسانی اور مذہبی تنوع کا ایک خطہ رہا ہے، جس میں مقامی کمیونٹیز، آسامی مسلمان، بنگالی بولنے والے مسلمان، ہندو، قبائلی آبادی، اور دیگر طبقات ایک ساتھ رہتے ہیں۔ آسام کی بھرپور تاریخ شناخت، زمین اور وسائل کے حوالے سے جدوجہد کی رہی ہے، جو اکثر سیاسی اور بیرونی اثرات سے بڑھ جاتی ہے۔ .این آرسی NRC اور شہریت ترمیمی ایکٹ (CAA): آسام میں شہریت کے ترمیمی ایکٹ (CAA) کے پاس ہونے کے ساتھ ساتھ نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (NRC) کے نفاذ نے مسلم آبادی میں بڑے پیمانے پر بے چینی پھیلائی ہے۔ “غیر قانونی تارکین وطن” کی شناخت کے عمل نے غیر متناسب طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے، خاص طور پر بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو، جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو خوف، بے یقینی اور شہریت کے حقوق سے محرومی کا سامنا ہے۔ حراستی مراکز: ان لوگوں کے لیے حراستی مراکز کے قیام نے جنہیں “غیر ملکی” تصور کیا گیا ہے، سنگین انسانی خدشات کو جنم دیا ہے۔ بہت سے مسلمان، بشمول وہ لوگ جن کے خاندان آسام میں نسلوں سے آباد ہیں، خود کو بے وطن ہونے کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔ مسلم مخالف بیان بازی کا عروج: حالیہ برسوں میں، مسلم مخالف بیان بازی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس میں آسام میں مسلمانوں کو “باہر کے” یا “تجاوزات” کے طور پر پیش کیا جانا بھی شامل ہے۔ اس نے دشمنی کی فضا کو جنم دیا فرقہ وارانہ تشدد اور امتیازی سلوک: پورے آسام میں مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ تشدد، املاک کی تباہی اور سماجی بائیکاٹ کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ملازمت، تعلیم، اور سرکاری اسکیموں تک رسائی میں امتیازی سلوک مسلمانوں کو مزید پسماندہ کر تا ہے، جس سے سماجی و اقتصادی تقسیم مزید گہری ہو تی ہے۔ اقتدار سے مسلمانوں کا اخراج: آسام کے سیاسی منظر نامے میں مسلمانوں کی نمائندگی میں کمی آئی ہے، اور کمیونٹی اکثر خود کو فیصلہ سازی کے عمل سے الگ پاتی ہے جو ان کی زندگیوں کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔ اس سیاسی پسماندگی سے مسلم آبادی میں بے اختیاری اور ناراضگی کے احساس میں اضافہ ہوا ہے۔ تجاویز: 1. امتیازی سلوک کی مذمت: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت آسام یا ہندوستان کے کسی بھی حصے میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک، تشدد یا ایذا رسانی کی شدید مذمت کرتی ہے۔ یہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ مذہبی یا نسلی پس منظر سے قطع نظر تمام شہریوں کے لیے مساوات، سیکولرازم اور انصاف کی آئینی اقدار کو برقرار رکھیں۔ 2.این آر سی NRC اور CAA خدشات کا فوری ازالہ: حکومت کو NRC اور CAA کے عمل سے متعلق جائز خدشات کو فوری طور پر دور کرنا چاہیے۔ یہ اجلاس شہریت کے تعین میں امتیازی طرز عمل کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے اور لوگوں کی شہریت کی حیثیت سے متعلق تمام معاملات کے لیے ایک منصفانہ، شفاف اور غیر جانبدارانہ حل پر زور دیتا ہے، اس بات کو یقینی بنانے پرزور دیتا ہے کہ کسی فرد کو غیر منصفانہ طور پر بے وطن یا قید نہ کیا جائے۔ 3. حراستی مراکز کا خاتمہ: ہم آسام میں حراستی مراکز کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بغیر کسی واضح اور معقول وجہ کے افراد کو حراست میں لینا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ریاست کو متاثرہ افراد کی بحالی اور قانونی مدد فراہم کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ 4. نفرت انگیز تقاریر اور تشدد سے تحفظ: یہ اجلاس مسلم مخالف بیان بازی اور نفرت انگیز تقاریر کے عروج پرسخت تشویش کا اظہار کرتا اور چاہتا ہے سخت قانونی کارروائی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ حکومت، سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر، بین فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے اور مذہب کی بنیاد پر تشدد یا امتیازی سلوک کے واقعات سے نمٹنے کے لیے فعال اقدامات کرے۔ 5. سیاسی بااختیاریت اور نمائندگی: اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں کی جانی چاہئیں کہ آسام کے مسلمانوں کو حکمرانی کے تمام سطحوں پر سیاسی طور پر نمائندگی دی جائے۔ کسی بھی کمیونٹی کو سیاسی عمل سے باہر رکھنا جمہوریت کو کمزور کرتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارمز اور پالیسی سازی میں مسلم آوازوں کے ساتھ جڑیں اور ان کو شامل کریں۔ 6. سماجی اقتصادی ترقی: آسام میں مسلمانوں کو درپیش سماجی و اقتصادی تفاوتوں کو دور کرنا انصاف اور مساوات کے حصول کے لیے اہم ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، روزگار، اور پسماندہ مسلمانوں کے لیے زمین کے حقوق میں مثبت پالیسیوں کو نافذ کرے، ریاست کی ترقی میں ان کی مکمل شرکت کو یقینی بنائے۔ مکالمہ اور مفاہمت: بداعتمادی اور غلط فہمی کے خلا کو ختم کرنے کے لیے سول سوسائٹی کی تنظیموں، مذہبی رہنماؤں اور سیاسی اداکاروں کی مدد سے مختلف کمیونٹیز کے درمیان مسلسل بات چیت کا عمل ضروری ہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت اس طرح کے مکالمے کے لیے پلیٹ فارم بنانے کی کوششوں کی حمایت کرتی ہے جس کا مقصد باہمی احترام اور پرامن بقائے باہمی کو فروغ دینا ہے۔ قانونی اور انسانی امداد: این آرسی NRC سے غلط اخراج کے متاثرین اور حراست یا بے وطنی کا سامنا کرنے
Resolution on the Sociopolitical Situation in Assam and BJP’s Himanta Biswa Sarma’s Govt role

Adopted at the National Meeting of All India Muslim Majlis-e-Mushawarat Date: 21st September, 2024 Recognizing the unique and diverse cultural, ethnic, and religious fabric of Assam, and acknowledging the challenges posed by the evolving sociopolitical landscape, AIMMM reaffirms its commitment to peace, harmony, and the protection of the constitutional rights of all communities, particularly the marginalized and persecuted. The following resolution addresses the growing concerns about the rise of anti-Muslim sentiments and practices in Assam and calls for a united approach to counter this disturbing trend. Whereas: 1. Assam’s Complex Demography and History: Assam has long been a region of ethnic, linguistic, and religious diversity, with indigenous communities, Assamese Muslims, Bengali-speaking Muslims, Hindus, tribal populations, and others coexisting. The rich history of Assam has been marked by struggles over identity, land, and resources, often exacerbated by political and external influences. 2. NRC and Citizenship Amendment Act (CAA): The implementation of the National Register of Citizens (NRC) in Assam, coupled with the passing of the Citizenship Amendment Act (CAA), has caused widespread anxiety among the Muslim population. The process of identifying “illegal immigrants” has disproportionately targeted Muslims, particularly Bengali-speaking Muslims, leading to fear, uncertainty, and loss of citizenship rights for many. 3. Detention Centers: The establishment of detention centers for those who have been deemed “foreigners” has raised serious humanitarian concerns. Many Muslims, including those whose families have lived in Assam for generations, have found themselves facing the threat of statelessness. 4. Rise of Anti-Muslim Rhetoric: In recent years, there has been a noticeable rise in anti-Muslim rhetoric, including the portrayal of Muslims as “outsiders” or “encroachers” in Assam. This has contributed to an atmosphere of hostility, leading to social exclusion, discrimination, and violence against Muslim communities. 5. Communal Violence and Discrimination: Instances of communal violence, property destruction, and social boycotts against Muslims have been reported across Assam. Discriminatory practices in employment, education, and access to government schemes further marginalize Muslims, deepening the socioeconomic divide. 6. Exclusion of Muslims from Political Power: Muslim representation in Assam’s political landscape has declined, and the community often finds itself alienated from decision-making processes that directly affect their lives. This political marginalization contributes to a sense of disempowerment and fuels resentment among the Muslim population. Resolved: 1. Condemnation of Discrimination: The All India Muslim Majlis-e-Mushawarat strongly condemns any form of discrimination, violence, or harassment targeting Muslims in Assam or any part of India. It calls upon the central and state governments to uphold the constitutional values of equality, secularism, and justice for all citizens, irrespective of their religious or ethnic background. 2. Immediate Redressal of NRC and CAA Concerns: The government must urgently address the legitimate concerns surrounding the NRC and CAA processes. This body demands the cessation of discriminatory practices in determining citizenship and urges a fair, transparent, and non-biased resolution to all cases involving people’s citizenship status, ensuring no individual is unjustly rendered stateless or incarcerated. 3. Closure of Detention Centers: We call for the immediate closure of detention centers in Assam. The detention of individuals without a clear and justifiable cause is a violation of basic human rights. The state must work to rehabilitate and provide legal support to those affected. 4. Protection from Hate Speech and Violence: The rise of anti-Muslim rhetoric and hate speech must be countered with strict legal action. The government, along with civil society, should take proactive steps to foster inter-communal harmony and address any incidents of violence or discrimination based on religion. 5. Political Empowerment and Representation: Efforts must be made to ensure that Muslims in Assam are politically represented at all levels of governance. The exclusion of any community from political processes weakens democracy. All political parties are urged to engage with and include Muslim voices in their platforms and policymaking. 6. Socioeconomic Development: Addressing the socioeconomic disparities faced by Muslims in Assam is critical to achieving justice and equality. We call on the government to implement affirmative policies in education, healthcare, employment, and land rights for marginalized Muslims, ensuring their full participation in the state’s growth. 7. Dialogue and Reconciliation: A process of continuous dialogue between different communities, facilitated by civil society organizations, religious leaders, and political actors, is necessary to bridge gaps of mistrust and misunderstanding. The All India Muslim Majlis-e-Mushawarat supports efforts to create platforms for such dialogues aimed at fostering mutual respect and peaceful coexistence. 8. Legal and Humanitarian Aid: Legal aid must be provided to those affected by wrongful exclusions from the NRC and those facing detention or statelessness. Humanitarian support, including food, shelter, and healthcare, should be extended to the victims of state repression and violence in Assam. Conclusion: The All India Muslim Majlis-e-Mushawarat reaffirms its commitment to advocating for the rights, dignity, and safety of Muslims in Assam and across India. We condemned Hemanta Wiswa Sarma’s led BJP government’s discriminatory and divisive policies and anti-Muslim statements of the CM. In solidarity with all marginalized communities, we stand against oppression, discrimination, and injustice, striving for a nation where every citizen is treated with respect and fairness, in accordance with the principles of the Indian Constitution. — Place: New Delhi
Resolution on Manipur

Adopted at the National Meeting of All India Muslim Majlis-e-Mushawarat Date: 21st September, 2024 The joint meeting of the national executive and the general body of All India Muslim Majlis-e-Mushawarat express deep concern over the ongoing civil strife in Manipur for more than last sixteen months resulting in significant loss of innocent lives and property and also the continuous attack on the dignity of the women. AIMMM is of the firm opinion that the state government led by BJP CM Mr. N. Biren Sungh had totally failed in discharging its constitutional responsibilities and it had, unfortunately, played an active role in flaring of the conflict between the dominant group of Meitei’s from which the CM comes and the Kuki-Zo tribal community. AIMMM had also noted that sadly the office of the governor of the state has too failed in discharging its constitutional obligation of recommending the dismissal of the Biren Singh government because of its utter failure in containing violence and bringing peace in the state. Therefore, AIMMM condemn the inaction of both the state and union governments of BJP in addressing this grave crisis in the state and urge immediate intervention from union government for restoring peace, and directing state government to ensure justice for the victims of both communities apart from providing necessary aid to affected victims of both the communities. Mushawarat also calls for accountability and effective measures to prevent further violence and uphold the rule of law in the state. (Proposed by Akif Ahmad)