تعاون برائے اپیل

بتاریخ: 20؍فروری2025ء محترمی و مکرمیالسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہامید کہ بخیر ہوں گے اور ماہ رمضان المبارک کی تیاریوں میں مصروف ہوں گے۔ اللہ آمد رمضان کو ہم سب کے لیے اس کی خصوصی رحمتوں کے انعامات کے مستحق ہونے کا اہل بنائے۔ آمین نہ جانے اللہ کی کیا مشیت ہے اور ہم امت مسلمہ کے اپنے اعمال ہیں کہ امت سارے عالم میں آزمائش کا شکار ہے۔ جان ، مال ، عزت و آبرو سب دائوپر لگے ہیں ۔ ملک عزیز میں بھی فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہیں۔ جانوروں کے مقابلے مسلمانوں کا خون حلال کرلیا جاتا ہے۔ حکومت و قانون کی سرد مہری نہ صرف فتنہ پردازوں کے حوصلے بڑھاتی ہے بلکہ مسلم متاثرین پر ہی مقدمات درج کر دیے جاتے ہیں ۔ اس صورتحال میں ملی تنظیمیں اپنی بساط بھر کوششوں سے ریلیف کا کام کرتی ہیں۔آل انڈیامسلم مجلس مشاورت ملی تنظیموں ، جماعتوں ، اور زعماء ملت کا وفاق ہے۔ اور ایک عرصہ سے ریلیف کا کام کرتا آیا ہے اور اس میں سن 2016 ء کے بعد تھوڑا اور مزید اضافہ ہوا ہے۔ ماہ رمضان میں ملت کا معمول ہے کہ فی سبیل اللہ خرچ کرتی آئی ہے۔ چنانچہ مشاورت کے بہی خواہاں سے اپیل ہے کہ آنے والے رمضان میں بھی متاثرین، مظلومین و ضرورت مندوں کی مدد کے لئے مشاورت کے ذریعہ کی جانے والی ریلیف کی مد میں اپنی امداد جمع کروائیں تاکہ بے گناہ قیدیوں کی رہائی، کورٹ کیسز ، فسادزدگان و قدرتی آفت کے مظلومین و متاثرین کی اعانت وغیرہ کی جا سکے۔ امید ہے آپ کے ذریعہ دی جانے والی امدادی رقم ضرورتمندوں کی راحت کا اہم ذریعہ بنے گی۔ ان شاء اللہ! والسلاماپیل کنندگان فیروز احمد ایڈووکیٹصدر، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت احمد رضاجنرل سیکرٹری (مالیات) ، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت شیخ منظور احمدجنرل سکریٹری مشاورت، سابق ایڈیٹر یواین آئی اردو Account Details:Bank: Bombay Mercantile Co-operative Bank LTD.Account No:200100100039575IFSC: BMCB0000044Branch: Darya Ganj, New Delhi-110002(Saving Account) آپ مشاورت کے نام بذریعہ چیک بھی اپنے عطیات بھیج سکتے ہیں۔All India Muslim Majlis e Mushawarat اگر آپ چاہتے ہیں کہ مشاورت کا نمائندہ ملاقات کرکے آپ سے زکوۃ و عطیات حاصل کرےتو آپ فون پر مطلع فرمادیں۔ فون نمبر: 9891294692ویب سائٹ: www.mushawarat.org
مسلم مجلس مشاورت کا جھارکھنڈ ممبرشپ ڈرائیو شروع

روزنامہ عوامی نیوز بتاریخ:25 اگست 2024
عبد الرشید اگوان تبدیلی کے محرک اور حقیقت پسند انسان تھے

روزنامہ سہارا اردو بتاریخ:23 اگست 2024
عبد الرشید اگوان تبدیلی کے محرک اور حقیقت پسند انسان تھے

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (دہلی) کے جلسہ تعزیت میں قوم کے بے لوث خادم اور ہمہ جہت دانشور کوجذباتی خراج عقیدت نئی دہلی: عبد الرشید اگوان مرحوم ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ان میں خدمت خلق کا بے پناہ جذبہ تھا اور وہ کسی وسائل کی پرواہ کیے بغیر قدم اٹھا لیتے تھے،ان خیالات کا اظہار جمعرات کو یہاں ایک تعزیتی جلسہ میں آل انڈیا ایجو کیشن مؤمنٹ کے صدر خواجہ شاہد نے کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ رضاکار کے طور پر کام کرتے تھے،نوجوانوں کو ساتھ لاتے تھے،تبدیلی چاہتے تھے،تبدیلی کے ایک پر جوش محرک تھے لیکن وہ اتنے ہی حقیقت پسند بھی تھے۔ ان کی ہر بات اور ہر خواہش تحقیق پر مبنی ہوتی تھی، ہم نے ان سے بہت زیادہ مستفید ہوتے تھے ان کی کمی بڑی شدت سے محسوس ہوگی۔انھوں نے کہا کہ وہ بہت سی تنظیموں سے جڑے ہوئے تھے،بیک وقت بہت سے کام کرتے تھے اس لیے ان کے بہت سے کام ادھورے رہ گئے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کاموں کو پوری کریں۔اس سے قبل مشاورت کے سینئر رکن اور مشہور دانشور ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کہا کہ وہ سماج اور زندگی کا ایک مخصوص نظریہ رکھتے تھے اور وہ سوچ ان کو ہمیشہ متحرک رکھتی تھی انھوں نے کہا کہ ملت کو ایسے بہت سے خادموں کی ضرورت ہے۔جبکہ مسلم مجلس مشاورت دہلی کے سید منصور آغا نے کہا کہ میری شعوری زندگی تقریباً 62سال پر محیط ہے اور میں دہلی میں 42سال سے ہوں لیکن اتنے طویل عرصے میں کبھی کسی شخصیت کے لیے اتنی تواتر کے ساتھ تعزیتی جلسے ہوتے نہیں دیکھے،جتنے اگوان صاحب مرحوم کے لیے ایک ہی علاقے میں ہو رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ جن کے کام اچھے ہوتے ہیں دنیا ان کو یاد کرتی ہے۔انھوں نے مشاورت کی قومی صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ کا تعزیتی پیغام بھی پیش کیا کیونکہ ان کو اچانک ناگزیرکام سے شہر سے باہر جانا پڑ گیا۔جلسہ تعزیت کا اہتمام آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت،دہلی نے کیا تھا۔ جلسہ کی صدارت مشاورت کے سینئر رکن ڈاکٹر سید فاروق کر رہے تھے، انھوں نے اپنے صدارتی کلمات میں مرحوم کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کیا۔جبکہ حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مسلم مجلس مشاورت دہلی کے جنرل سکریٹری اور ایجو کیشن مؤ منٹ کے جنرل سکریٹری عبد الرشید انصاری نے کہا کہ ہمارے کاموں میں سب سے زیادہ دانشورانہ مواد انھیں کا مہیا کردہ ہوا کر تا تھا۔ اس سے قبل مسلم مجلس مشاورت دہلی کے نائب صدر منصور احمد نے عبد الرشید اگوان مرحوم کے ساتھ اپنے طویل رفاقت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک انتہائی خلیق اور خرد نواز انسان تھے۔جبکہ مشاورت کے رکن اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر جاوید عالم نے کہا کہ پالیسی کے مطالعہ اور اعدادو شمار کے تجزیہ میں ان کی غیر معمولی دلچسپی اور مہارت تھی۔اس موقع پر مشاور ت دہلی کے کار گزار صدر ڈاکٹر ادریش قریشی نے کہا کہ وہ سماج کے ہر طبقہ کی خدمت کا یکساں جذبہ رکھتے تھے اور وہ کام بھی کرتے تھے جس کو ہم نا ممکن تصور کر تے تھے۔ جبکہ معروف قانون داں وسماجی کارکن رئیس احمد ایڈوکیٹ نے اپنی طالب علمی کے زمانہ کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ان میں نوجوانوں کی رہنمائی کا غیر معمولی جذبہ تھا۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ایسے شخص تھے جن کا جانا ایک انجمن کا اٹھ جانا ہے۔ جلسہ سے خطاب کرنے والوں میں مشاورت کے رکن مجلس عاملہ انجینئر سکندر حیات، معروف صحافی احمد جاوید، ڈاکٹر مظفر حسین غزالی، مشاورت کے رکن مجلس عاملہ ڈاکٹر محمد شیث تیمی، اشرف علی بستوی، ڈاکٹر ریحانہ پروین اور دوسرے اہم شرکاء نے بھی اس موقع پر مرحوم کا خراج عقیدت پیش کیا۔محمد طیب نے مرحوم کو منظوم خراج عقیدت پیش کی۔جلسہ کی نظامت مشاورت دہلی کے سکریٹری محمدالیاس سیفی کر رہے تھے۔شرکاء میں مولانا نثار احمد حسینی نقشبندی، ڈاکٹر عبد الجلیل صدیقی، محمد خاں،شمس آغاز، محمد انوارالحق، شاہد رضا، اصغر علی ندوی، مولانا مصلح الدین فلاحی، معین احمد خان، نیاز احمد اور کمال احمد ہاشمی شامل ہیں۔ جلسہ کا اختتام دعائے مغفرت پر ہوا۔ جاری کر دہ دستخط آفیس سکریٹری، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت
عبد الرشید اگوان صاحب پر تعزیتی میٹنگ 22 اگست 2024

جے ڈی یو سے وقف (ترمیمی) بل 2024 کی مخالفت کرنے کی اپیل

روزنامہ قومی بھارت بتاریخ: 14 اگست 2024
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت پر قبضہ کرنے کی مذموم سازش کے جواب میں مکتوب بنام ارکان و ہمدردان مشاورت

آستینوں میں چھپالیتی ہے خنجر دنیا اورہمیں چہرے کا تاثر نہ چھپانا آیا ملک میں اپنی نوعیت کی واحدتاریخی تنظیم” آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت” کا قیام 1964 میں مسلم جماعتوں کے مشترکہ پلیٹ فارم کے طورپر جن حالات میں ہوا تھا،آج ہمارے سامنے ان سےکہیں زیادہ مشکل حالات ہیں اورکسی ذی شعورمسلمان کو احساس دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اتحادویکجہتی کی قدروقیمت کیاہے۔پھربھی ہمیں مشاورت کے معزز ارکان کو یہ خط لکھنا پڑرہا ہےجوانتہائی تکلیف دہ ہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے سابق صدر اور سابق رکن ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں صاحب نےارکان مشاورت کوخط لکھ کرایک بار پھر اختلاف و انتشارکوہوادینے اور غلط فہمیاں پیداکرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ کہ وہ رجسٹرڈ مشاورت کا صدر ہونے کے دعویدارہیں اور لوگوں کو مشاورت کارکن بنانے کے نام پر چندہ کی مہم چلارہے ہیں جوان کا سراسر بےبنیاد دعویٰ اورگمراہ کن فعل ہے۔ اول تو اس گروپ کا جس نےاس وقت کےصدر مشاورت سید شہاب الدین مرحوم کی مخالفت میں مشاورت سےالگ ہوکر 2003میں سوسائٹی رجسٹرڈکرائی تھی، 2013میں اصل مشاورت کے ساتھ باضابطہ انضمام ہوچکا ہے اور رجسٹریشن کے اصل کاغذات ہماری کی تحویل میں ہیں،لہٰذا ایسی کسی سوسائٹی کا کوئی علاحدہ یامتوازی وجود اب کہیں باقی نہیں ہے۔خودراقم السطور شیخ منظوراحمدکوبھی اسی رجسٹرڈمشاورت نے رکنیت دی تھی اوراسی انضمام و اتحادکے نتیجے میں یہ حقیراب آل انڈیامسلم مجلس مشاورت کاحصہ ہے ۔دوم ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں 2022 سے مشاورت کے رکن بھی نہیں ہیں، تادیبی کارروائی کے تحت موصوف کی رکنیت منسوخ ہوگئی تھی کیونکہ انہوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے مشاورت اور اس کی جائیدادوں پر مستقل قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی جس کی تفصیلات ارکان مشاورت کے علم میں ہیں۔ مشاورت کے تنظیمی امور میں مداخلت کا کوئی حق آں موصوف کو نہیں پہنچتا، ان کی یہ سرگرمیاں سراسر ناجائز اور قانوناً قابل مواخذہ ہیں۔وہ اور ان کے پیچھے جولوگ بھی ہیں مشاورت میں رجسٹرڈ سوسائٹی کے انضمام واتحاد کوتباہ کرنے کی مذموم سازش اورذاتی مفادات کےحصول کے لیے مشاورت کوناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں جوان شاء اللہ کامیاب نہیں ہوگی۔ضرورت ہے کہ ان عناصر کی سازشوں کا قلع قمع سختی سے کیا جائے ورنہ اتنا تفصیلی خط لکھنا اور آپ کو زحمت توجہ دینا کوئی خوشگوار عمل نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مکتوب (مرقومہ29اپریل 2024 ) کے ذریعے ارکان مشاورت کی میٹنگ بلائی ہےاورلوگوں کو ورغلانے کے لیےانہوں نے مشاورت پر اپنےبےبنیادسنسنی خیز الزامات کا اعادہ کیا ہے،مثلاً دستور مشاورت میں منمانی ترمیمات کی گئیں،مشاورت سے 70 ارکان کو نکال باہر کیاگیا اور غیرمعیاری لوگوں کو مشاورت کی رکنیت دی گئی جبکہ ان کا ایک بھی دعوی حقیقت سےقریب نہیں ہے۔ڈاکٹر خان کے دعووں کی دستاویزی تردیدمشاورت کے کاغذات میں موجود ہے ۔وہ اپنے زیرنظر مکتوب میں اپنی تحریروں، تقریروں اور مشاورت کی کارروائیوں میں موجود ان مندرجات کے برخلاف دعوے کررہے ہیں جن پر ان کے دستخط موجود ہیں ۔زیرنظرمکتوب میں آپ ان کی نکات وارتفصیلات د یکھ سکتے ہیں۔ جیساکہ آپ جانتے ہیں،مشاورت کے دستور میں کبھی کوئی منمائی ترمیم نہیں کی گئی اور ایسا کرناممکن بھی نہیں ہے۔اگریہ ممکن ہوتاتو ڈاکٹرصاحب موصوف اپنے دور صدارت کے آخری ایام میں ترمیم لانے کی جوکوشش کررہے تھے، ناکام نہ ہوتی ۔دستورمیں جو ترامیم آخری بار لائی گئی ہیں،ان میں ہرترمیم کو 67 فیصد سے 81 فیصد تک ارکان مشاورت کی تائید حاصل ہے اورترمیم شدہ دستور کے نفاذ کے بعد مشاورت کی مجلس عاملہ کے انتخابات (برائےمیقات 2026-2023 ) میں 85 فیصد سے زیادہ ارکان نے حصہ لیا اور منصب صدارت کے لئے دو امیدواروں کے درمیان دوستانہ مقابلہ میں منتخب امیدوار کو تقریباً 57 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ڈاکٹر صاحب موصوف کااعتراض ان کے آمرانہ مزاج کا اشتہار اورایک انتہائی غیرجمہوری فعل ہے۔ دستور میں ترمیم یا اس کی کسی شق پر اختلاف رائے کو مسئلہ بناکر انتشار کو ہوا دینا ہر گز کوئی دانشمندی نہیں ۔جو لوگ بھی اس طرح کے کام کررہے ہیں،مسلمانوں کے اتحاد اور ملی تنظیموں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ مشاورت ایک جمہوری تنظیم ہے اور دستور مشاورت میں ترمیم و تصحیح کا دروازہ ہر وقت کھلا ہواہے ۔ ارکان مشاورت جب چاہیں دستور میں مذکور ضوابط (Due process)کے تحت ایسا کر سکتے ہیں ۔ اگر دستور کی کسی شق پر کسی کے پاس کو ئی معقول اعتراض ہے تو وہ اپنی تجاویز مشاورت میں پیش کرے نہ کہ لوگوں کو ورغلاکر جتھے بنائے اوران کے دلوں میں وسوسے ڈالے۔ جن ارکان کی رکنیت دستورمشاورت کی روشنی میں ان کی عدم فعالیت اور ڈفالٹ کی بناپر منسوخ ہوئی تھی، ان کے تعلق سےڈاکٹر ظفرالاسلام خان صاحب نے اپنے خط میں دعوی کیا ہے کہ 70 ارکان کا مشاورت سے اخراج کردیا گیا جبکہ غیرفعال ارکان کی رکنیت منسوخ کرنے کی قرارداد خود ان کی اپنی صدارت میں منعقدہ مشاورت کی جنرل باڈی اور مجلس عاملہ کی 5 ِ دسمبر 2015ء کی مشترکہ میٹنگ میں منظورکی گئی تھی اوربالآخر 12 فروری 2017 کی جنرل باڈی میٹنگ میں جس میں ڈاکٹر ظفرالاسلام خان صاحب بنفس نفیس موجود تھے اور اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ ان ایکٹیو ارکان کا اخراج ہو، یہ طے کیا گیا تھاکہ فی الحال ایسے 14 ان ایکٹو (غیر فعال) ارکان کا اخراج کیا جائے۔ غیر فعال ارکان کا معاملہ اکتوبر 2018 کی حیدرآباد میں منعقد جنرل باڈی میٹنگ میں بھی زیر بحث آیا اور پھر27ِ فروری 2021 کوبھی اس معاملے پر آسام سے رکن جناب حافظ رشید احمد چودھری صاحب(جن کی حمایت کےڈاکٹرصاحب دعویدارہیں) کی تحریری قرارداد میٹنگ میں پیش ہوئی۔دستور کی متعلقہ شقوں اور قراردادمشترکہ اجلاس (5دسمبر2015) کی روشنی میں اس پرکارروائی کے نتیجے میں جن غیر فعال ارکان کی رکنیت منسوخ کی گئی، ان کی
نفرت انگیز فلم ’ ہمارے 12‘کی ریلیز پر پابندی لگانے کا مطالبہ

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے سینسر بورڈ کو خط لکھا نئی دہلی 29مئی 2024: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے ’ہم دو ہمارے 12‘ نام کی فلم کے ٹریلر پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک نہایت زہریلی اور شر انگیز فلم ہے جو مسلمانوں کو بد نام کرنے اور نفرت پھیلانے کے ارادے سے بنائی گئی ہے۔ صدر مشاورت نے فلم سینسر بورڈ آف انڈیا کے نام خط لکھ کر اس فلم کی ریلیز پر فی الفور پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ 7جون کو ریلیز کی جانے والی یہ فلم اسلام، مسلمان،مسلم خواتین اور ہندوستانی مسلم سماج کو بد نام کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ جس کے خلاف ایکشن لینا ضروری ہے تاکہ اس فتنے کی بر وقت سرکوبی کی جاسکے۔ صدر مشاورت نے ملک کے انصاف پسند شہریوں سے اپیل کی ہے کہ اس فلم کے پروڈیوسر کو ایک خاص مذہبی طبقے کے خلاف نفرت پھیلانے کی اجازت ہر گز نہ دیں۔ سماج کے امن کو تباہ کرکے پیسہ کمانے کی حوصلہ افزائی کی گئی تو یہ لعنت وبا کی صورت اختیار کرلے گی۔ انھوں نے کہا کہ نفر ت کی تجارت ملک کو تباہ کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔
عدالتی تحویل میں ایک کے بعد ایک اموات جمہوریت اور انصاف کا قتل ہے: مشاورت

نئی دہلی، 29 مارچ 2024: اتر پردیش کے سابق رکن اسمبلی مختار انصاری کی موت جمعرات کوجن حالات میں ہوئی، وہ بادی النظر میں ایک منصوبہ بند سازش اور قانون وانصاف کا کھلاقتل ہے،اس کی اعلیٰ سطحی جانچ کرائی جائے، مرحوم کے جسد خاکی کا پوسٹ مارٹم اترپردیش کے باہر کے معالجوں کی ٹیم سے کرایا جائے اور ان کے قتل کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزادی جائے۔ باندہ ضلع کی جیل میں قیدمؤ کے سابق رکن اسمبلی کی مشتبہ موت پر اظہارتعزیت کرتے ہوئے یہ مطالبہ ملک کی مسلم تنظیموں کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے کیا ہے۔مشاورت کے صدر فیروزاحمد ایڈوکیٹ کی جانب سے جاری کردہ اس بیان میں سپریم کورٹ آف انڈیا سے کہا گیا ہے کہ اس واردات کاازخود نوٹس لینا چاہیے۔مشاورت نے مرحوم لیڈر مختار انصاری کی بیوہ محترمہ آصفہ انصاری، ان کے بیٹے عباس اور عمر، ان کے بھائی افضال انصاری اور جملہ پسماندگان کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوپی میں جس طرح ایک کے بعد ایک مسلم لیڈروں کے قتل کی وارداتیں انجام دی جارہی ہیں،وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔ بیان میں کہاگیاہے کہ مختار انصاری اور ان کے بیٹے عمر نے اس اندیشے کا بار بار اظہار کیا تھا کہ جیل میں ان کو قتل کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔گذشتہ سال عمر انصاری نے کہا تھا کہ ان کے والد کی جان کو خطرہ ہے اورانھوں نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ آف انڈیا سے رابطہ بھی کیا تھا۔عدالت میں دی گئی درخواست میں کہا گیا تھا کہ مختار انصاری کو مصدقہ اطلاع ملی تھی کہ ان کی جان کو شدید خطرہ ہے اور باندہ جیل میں انھیں قتل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔دو روز قبل منگل کو ان کی طبیعت بگڑنے پر انھیں اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا اوروہ انتہائی نگہداشت وارڈ میں رکھے گئے تھے لیکن ان کو جلد ہی واپس جیل بھیج دیا گیا۔ تحقیقات کا موضوع یہ بھی ہے کہ ان کو اس حالت میں اسپتال سے واپس جیل کیوں اور کس کے دباؤ میں بھیجا گیا۔جمعرات کی شب دوبارہ بے ہوشی کی حالت میں ان کو رانی درگاوتی میڈیکل کالج میں داخل کرایا گیاجہاں مڈیکل بلیٹن کے مطابق ڈاکٹروں کی ٹیم ان کو بچا نہیں سکی۔ مشاورت کا ماننا ہے کہ یہ فطری موت ہرگز نہیں ہے، ایک شخص نے کچھ دن پہلے الزام لگایا تھا کہ اسے زہر دیا جا رہا ہے، وہ سنگین حالت میں اسپتال میں بھرتی کرایا گیا لیکن اس کو جلدہی واپس بھیج دیا گیا، اگلے دن بے ہوشی کی حالت میں اسے دوبارہ اسپتال لایا گیا اوراب انتظامیہ کہہ رہی ہے کہ اس کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے۔ اس کی اعلیٰ سطحی تحقیقات ہونی چاہیے اورعدالت کی نگرانی میں تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ جیلوں میں کیا ہو رہا ہے۔
حکومت کے ذریعہ متنازعہ سی اے اے قانون کو نافذ کرنے کے فیصلہ کا مشاورت مذمت کرتی ہے

نئی دہلی: ہندوستانی مسلمانوں کے واحد وفاقی ادارہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت مودی حکومت کے ذریعہ متنازعہ CAA 2019 قانون کے لیے قواعد کا ملک میں نفاذ کے نوٹیفکیشن کا عام انتخابات کے اعلان سے عین قبل لئے گئے فیصلے پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتی ہے۔یہ فیصلہ تفرقہ انگیز نوعیت کا ہے جوسیاسی فائدے کے لیے لیا گیا ہے اور اس کا مقصد مختلف محاذوں پر حکومت کی ناکامی سے توجہ ہٹانا بھی ہے۔مودی حکومت نے متنازعہ قانون کے قوانین کو نوٹیفائی کرنے کا متنازعہ فیصلہ اس حقیقت کے باوجود لیا ہے کہ اسے ملک بھر کی سول سوسائٹی کے مختلف گروپوں کی جانب سے ملک کی عدالت عظمی- سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے اور اس کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے۔مشاورت کی پختہ رائے ہے کہ حکومت کے اس فیصلے نے نہ صرف لوگوں کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی فرقہ وارانہ سیاست کو نہ صرف ایک بار پھر بے نقاب کر دیا ہے اور اس خطرناک فیصلہ سے شمال مشرقی ریاستوں میں بنگلہ دیش سے بڑے پیمانے پر غیر قانونی تارکین وطن کا سیلاب امڈ آئیگا اور شمال مشرقی ریاستوں کی مقامی آبادی کے تناسب کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔مزید برآں، پڑوسی ممالک سے مہاجرین کی بڑے پیمانے پر آمد معیشت پر بوجھ ہو گی اور ملک کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع کو مزید کم کر دے گی? جو پہلے ہی پرخطر ملازمتوں کا انتخاب کرنے اور اسرائیل اور روس کے جنگی علاقوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوانوں کو جن پر ریاست کی طرف سے قومی وسائل کا ایک اچھا خاصہ حصہ ان کی تعلیم پر خرچ کیا گیا تھا، اور یہ نوجوان جو ملک میں ملازمتوں کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کر رہے ہیں اور ہندوستانی شہریت تک ترک کر رہے ہیں، ان کو روکنے کے منصوبوں پر کام کرنے کے بجائے وہ تعصب اور تشدد سے پاک ماحول میں روزگار کے بہتر مواقع کے لیے یورپ، روس، امریکہ اور مشرق بعید کے ممالک کی طرف مستقل ہجرت کر رہے ہیں، ایسے نوجوانوں کو ملک کی تعمیر میں حصہ دار بنانے کے موقع فراہم کرنے کے بجائے حکومت نے ووٹ بینک کی تقسیم کرنے والی سیاست کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔مشاورت کے اس وقت کے صدر جناب نوید حامد صاحب نے سال 2019 میں اس متنازعہ سی اے اے قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا لیکن بدقسمتی سے معزز عدالت میں اب تک اس تعلق صرف دو سماعتیں ہوئیں۔ اب اس نئی پیشرفت کے ساتھ، مشاورت سی اے اے (2019) کے متنازعہ قانون کو لاگو کرنے کے متنازعہ فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے اپنے ماہر قانونی مشیروں سے رابطے میں ہے۔