مسلم تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے پر مسلم مجلس مشاورت کا سخت ردعمل

یو ایس ٹی ایم کے بانی محبوب الحق کی گرفتاری کی مذمت، سپریم کورٹ اور صدر جمہوریہ سے مداخلت کی درخواست،مشاورت نے معززشہری کی گرفتاری کو انصاف کا خون اورترقی پسند طبقے کا حوصلہ پست کرنے کی سازش کہا، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اقلیتی کوٹے سے چھیڑ چھاڑ بھی ناقابل برداشت نئی دہلی: بی جے پی کی حکومتیں ملک کی مختلف ریاستوں میں مسلم تعلیمی اداروں کومسلسل نشانہ بنارہی ہیں جو انتہائی ناقابل برداشت اور قابل مذمت ہے۔ان جذبات کا اظہار آج آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے قومی صدر فیروز احمد ایڈو کیٹ نے کیا۔انہوں نے کہا کہ آسام میں یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، میگھالیہ (یو ایس ٹی ایم) کے بانی وچانسلر محبوب الحق کی گرفتاری ایک کھلا سیاسی انتقام اور انصاف کاخون ہے۔اس سے قبل راجستھان میں جے پور کی مولانا آزاد یونیورسٹی کے عتیق احمد کو بھی ہراساں کیا گیا،اترہردیش میں گلوکل یونیورسٹی کے اثاثوں کو ضبط کیا گیا اور رامپور کی مولانا جوہر یونیورسٹی پر اعصاب شکن کارروائیاں جاری ہیں۔ صدر مشاورت نے سپریم کورٹ اور صدر جمہوریہ سے مداخلت کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک معزز شہری،نامورماہرتعلیم اورملک وقوم کے بے لوث خادم کی گرفتاری اور قید کا مقصد معاشرے کے ترقی پسند افراد کے ایک خاص حصے کا حوصلہ پست کرنا ہے۔ اعلیٰ تعلیم اور صحت کے جدید سیکولر اداروں کے قیام کی کوششوں کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ محبوب الحق کی گرفتاری خالص انتقامی کارروائی ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے فرقہ پرست عناصرکی جانب سے این اے اے سی(NAAC) سے اے گریڈ یافتہ اداروں کے لیے بنیاد پرست اور دقیانوسی جیسے الفاظ استعمال کر کے ان کی شبیہ خراب کرناایک بہت بڑی بدبختی ہے جس کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔فیروزاحمدایڈوکیٹ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نئے وائس چانسلرآصف مظہر کو جامعہ کا اقلیتی کردار مسخ کرنے کے لیے استعمال کیے جانے کی خبروں پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے اورکہا ہے کہ جامعہ میں نافذالعمل اقلیتی کوٹے سے چھیڑ چھاڑ ہرگزبرداشت نہیں کیا جائیگا۔ یوایس ٹی ایم کے چانسلر کی گرفتاری سے ابھرے سنگین سوالات: آسام پولیس نے پچھلے ہفتے یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، میگھالیہ (یو ایس ٹی ایم) کے چانسلر محبوب الحق کو ذات سرٹیفکیٹ میں جعلسازی کے الزام میں جس طرح چھاپہ مارکر گرفتار کیا،وہ بڑے سنگین سوالات پیداکرتاہے۔ محبوب الحق کو سری بھومی ضلع پولیس اور آسام پولیس کی اسپیشل ٹاسک فورس (ایس ٹی ایف) کی ایک ٹیم نے گوہاٹی میں واقع ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لیا تھا۔ ان کے خلاف سری بھومی ضلع میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں ان پر ذات کا جعلی سرٹیفکیٹ بنانے کا الزام عائد کیاگیا ہے۔ گزشتہ سال مانسون میں گوہاٹی میں پانی جمع ہوگیا تھا تو وزیر اعلیٰ ہمنت بسوا شرما نے اس کیلئے یونیور سٹی کو نشانہ بنایا تھا اور یونیور سٹی کے خلاف کیس رجسٹرڈ کرنے کی ہدایت دی تھی۔شرمانے اسے فلڈ جہاد کا نام دیا تھا۔ اس سے پہلے، شرما نے الزام لگایا تھا کہ شہر کو گوہاٹی کے مضافات کی پہاڑیوں میں بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ ا نہوں نے یو ایس ٹی ایم جیسے نجی اداروں کو قرار دیا۔ شرما نے دعوی کیا کہ آسام کے سری بھومی ضلع سے تعلق رکھنے والے بنگالی نژاد مسلمان اور یو ایس ٹی ایم کے بانی محبوب الحق گوہاٹی میں ”فلڈ جہاد“میں مصروف ہیں۔ یوایس ٹی ایم کی خدمات اور حکومت کا مذموم رویہ: شمال مشرقی ہندوستان میں سپر اسپیشلٹی صحت خدمات کی مانگ کے ساتھ، پی اے سنگما انٹرنیشنل میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، یو ایس ٹی ایم کا ایک کالج، 150 نشستوں کے ساتھ قائم کیا جا رہا،1100 بستروں پر مشتمل جدید ترین سپر اسپیشلٹی اسپتال کا منصوبہ اعلیٰ درجے کی صحت خدمات کے لیے جدید انفراسٹرکچر سے لیس ہے۔یہ سپر اسپیشلٹی اسپتال شمال مشرقی ریاستوں کے شہریوں کو جدید طبی سہولیات فراہم کرتا ہے جنہیں ابھی تک اس کے لیے کولکاتہ جانا پڑتا ہے۔ یہ بنگلہ دیش، بھوٹان اور نیپال سمیت پڑوسی آسیان ممالک کی صحت کی دیکھ بھال کی ضروریات کو پورا کرکے طبی سیاحت میں بھی حصہ ڈالے گالیکن یوایس ٹی ایم کے بانی ڈاکٹر محبوب الحق کو حکومت آسام نہایت بدبختانہ طور پر نشانہ بنارہی ہے۔ یونیورسٹی اور ڈاکٹر محبوب الحق سے حکومت آسام دست و گریباں ہے،اس نے ان پر گوہاٹی میں ’فلڈ جہاد‘ کا الزام لگایا اورکہ اس یونیورسٹی کے فارغین کو آسام میں ملازمت نہیں دی جائے گی اور وزیراعلی نے ایسا صرف اپنے سیاسی اغراض کے لیے کیا۔
تعاون برائے اپیل

بتاریخ: 20؍فروری2025ء محترمی و مکرمیالسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہامید کہ بخیر ہوں گے اور ماہ رمضان المبارک کی تیاریوں میں مصروف ہوں گے۔ اللہ آمد رمضان کو ہم سب کے لیے اس کی خصوصی رحمتوں کے انعامات کے مستحق ہونے کا اہل بنائے۔ آمین نہ جانے اللہ کی کیا مشیت ہے اور ہم امت مسلمہ کے اپنے اعمال ہیں کہ امت سارے عالم میں آزمائش کا شکار ہے۔ جان ، مال ، عزت و آبرو سب دائوپر لگے ہیں ۔ ملک عزیز میں بھی فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہیں۔ جانوروں کے مقابلے مسلمانوں کا خون حلال کرلیا جاتا ہے۔ حکومت و قانون کی سرد مہری نہ صرف فتنہ پردازوں کے حوصلے بڑھاتی ہے بلکہ مسلم متاثرین پر ہی مقدمات درج کر دیے جاتے ہیں ۔ اس صورتحال میں ملی تنظیمیں اپنی بساط بھر کوششوں سے ریلیف کا کام کرتی ہیں۔آل انڈیامسلم مجلس مشاورت ملی تنظیموں ، جماعتوں ، اور زعماء ملت کا وفاق ہے۔ اور ایک عرصہ سے ریلیف کا کام کرتا آیا ہے اور اس میں سن 2016 ء کے بعد تھوڑا اور مزید اضافہ ہوا ہے۔ ماہ رمضان میں ملت کا معمول ہے کہ فی سبیل اللہ خرچ کرتی آئی ہے۔ چنانچہ مشاورت کے بہی خواہاں سے اپیل ہے کہ آنے والے رمضان میں بھی متاثرین، مظلومین و ضرورت مندوں کی مدد کے لئے مشاورت کے ذریعہ کی جانے والی ریلیف کی مد میں اپنی امداد جمع کروائیں تاکہ بے گناہ قیدیوں کی رہائی، کورٹ کیسز ، فسادزدگان و قدرتی آفت کے مظلومین و متاثرین کی اعانت وغیرہ کی جا سکے۔ امید ہے آپ کے ذریعہ دی جانے والی امدادی رقم ضرورتمندوں کی راحت کا اہم ذریعہ بنے گی۔ ان شاء اللہ! والسلاماپیل کنندگان فیروز احمد ایڈووکیٹصدر، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت احمد رضاجنرل سیکرٹری (مالیات) ، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت شیخ منظور احمدجنرل سکریٹری مشاورت، سابق ایڈیٹر یواین آئی اردو Account Details:Bank: Bombay Mercantile Co-operative Bank LTD.Account No:200100100039575IFSC: BMCB0000044Branch: Darya Ganj, New Delhi-110002(Saving Account) آپ مشاورت کے نام بذریعہ چیک بھی اپنے عطیات بھیج سکتے ہیں۔All India Muslim Majlis e Mushawarat اگر آپ چاہتے ہیں کہ مشاورت کا نمائندہ ملاقات کرکے آپ سے زکوۃ و عطیات حاصل کرےتو آپ فون پر مطلع فرمادیں۔ فون نمبر: 9891294692ویب سائٹ: www.mushawarat.org
مشاورت کے سابق صدرنویدحامد’قائدملت ایورڈ‘کے لیے منتخب

روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو بتاریخ: 27 فروری ،2025
مشاورت کے سابق صدرنویدحامد’قائدملت ایورڈ‘کے لیے منتخب

قائدملت ایجوکیشنل اینڈسوشل ٹرسٹ(چنئی) کی ایوارڈ کمیٹی نے2024 کے اس باوقار قومی ایوارڈ کامستحق جان دیال کوبھی قرار دیا، ۵ لاکھ روپے کا یہ ایوارڈ2015ء سے ہرسال عوامی زندگی میں گرانقدر بے لوث خدمات کے لیے پیش کیاجاتاہے نئی دہلی:جنوبی ہندکے مشہوروباوقارادارہ قائدملت سوشل اینڈ ایجوکیشنل ٹرسٹ(چنئی)نے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے سابق صدرجناب نوید حامدکو 2024کا’قائد ملت ایوارڈ‘دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری ایم جی داؤدمیاں خان کی جاری کردہ اطلاع کے مطابق ملک کے مشہورسیاسی و سماجی رہنماقائد ملت محمداسماعیل مرحوم(بانی انڈین یونین مسلم لیگ) کی یادمیں قائم شدہ،5لاکھ روپے،سندتوصیفی اور ٹرافی پرمشتمل یہ ایورڈ 2015 سے ہرسال گرانقدربے لوث عوامی خدمات کے لیے دیاجاتا ہے۔اس بارمشہورماہرتعلیم ڈاکٹر وی وسنتی دیوی (سابق وائس چانسلر ایم ایس یونیورسٹی) کی زیر صدارت چاررکنی سلیکشن کمیٹی فارایوارڈنے نوید حامد اور جان دیال کو ایوارڈ کا مستحق قرار دیاہے جو ان کو اپریل میں ایک بڑے جلسہ میں پیش کیا جائیگا۔ قائدملت ٹرسٹ یہ ایوارڈ اس سے پہلے تیستا شیتلواڈ،آر نلاکنو، این سنکریا،سید شہاب الدین،مانک سرکار، حامد انصاری،ارونارائے،اے جی نورانی، ہرش مندر،بلقیس بانو(شاہین باغ کی دادی)، ڈاکٹر عرفان حبیب،تھری کے ویرامنی،دی وائر(ڈیجیٹل پورٹل)،این رام (دی ہندو)اورڈاکٹر ابو صالح شریف کو پیش کرچکا ہے۔ مشاورت کے قومی صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے اپنے پیشروجناب نوید حامد اور معروف صحافی وسماجی خدمت گارجناب جان دیال کو اس باوقار ایورڈ کے لیے منتخب کیے جانے پر سلیکش کمیٹی کے ارکان اور ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری ایم جی داؤد میاں خان کے لیے نیک خواہشات کے ساتھ انعام یافتگان کو مبارک باد پیش کی ہے۔ 1980ء کے اواخر سے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے لیے کام کرتے آئے، نویدحامد23جون1963ء کو دہلی میں پیداہوئے اوروہ سیاسی و سماجی زندگی میں اس وقت سے سرگرم عمل ہیں جب دہلی یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔2016ء سے2023تک وہ مشاورت کے صدر رہے ہیں اورفی الحال نائب صدر ہیں۔یوپی اے حکومت کے دور میں ان کا شمار ملک کے سب سے بااثرمسلم لیڈروں میں ہوتا تھا اور حکومت ہندنے ان کومسلسل دو میعاد(2004۔ 2014)کے لیے قومی یک جہتی کونسل کا رکن مقررکیا۔ساؤتھ ایشین کونسل فار مائنارٹیز(ایس اے سی ایم)کے بانی سکریٹری اور موومنٹ فار امپاورمنٹ آف مسلم انڈینس(MOEMIN)کے قومی جنرل سکریٹری کی حیثیت سے بھی انہوں نے گرانقدرخدمات انجام دی ہیں۔وہ2008ء میں نئی دہلی گلوبل مائنارٹیزمیٹ کے موقع پر18ملکوں کے مندوبین کی موجوگی میں گلوبل مائنارٹیز فورم فارجسٹس اینڈ پیس کے جنرل سکریٹری منتخب کیے گئے تھے۔2023-24 میں انہوں نے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت اور متعدد دلت، عیسائی اوردیگرمظلوم اقوام کی تنظیموں کو ساتھ لاکر ’وایلنس فری انڈیا‘مہم منظم کیا۔
جھارکھنڈ حکومت اور پریاگ کے مسلمانوں کے سیکولرزم اورانسانیت کی ستائش

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے یکساں سول کوڈ پر حکومت جھارکھنڈ کے موقف اور مہا کمبھ میں حادثے کے شکار ہندؤوں کی مدد پرمقامی مسلمانوں کو ملک وقوم کا سچاخیرخواہ بتایا نئی دہلی:مہا کمبھ کے دوران پیش آئے حادثے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے کہاہے کہ یہ سانحہ نہ صرف متاثرہ خاندانوں کے لیے بلکہ پوری قوم کے لیے دکھ اور افسوس کا باعث ہے۔ مشاورت کے قومی صدر فیروزاحمد ایڈوکیٹ نے کہا کہ ہم ان تمام مسلمانوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے فرقی پرستی اور نفرت و عداوت کے اس ماحول میں جس پر دنیا بھر میں تشویش کا اظہار کیاگیا، اپنے مذہب، ذات اور فرقے سے بالاتر ہو کر حادثے کے شکار ہندو یاتریوں کی بے لوث مدد کی۔ زخمیوں کو اسپتال پہنچانے، بھوکوں کو کھانا کھلانے اور خوفزدہ افراد کو تسلی دینے اور ان پر اپنے گھروں کے دروازے کھول دینے میں جس جذبہئ ہمدردی اور انسانیت نوازی کا مظاہرہ کیا گیا، وہ ہمارے قومی یکجہتی اور بھائی چارے کی روشن مثال ہے۔آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا ماننا ہے کہ ملک میں مذہبی اور سماجی ہم آہنگی کو مزید فروغ دیا جانا چاہیے۔ ہم تمام شہریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ انسانیت کو اولین ترجیح دیں اور ہر مصیبت زدہ کی بلا تفریق مدد کریں۔ مشاورت نے جھارکھنڈ اسمبلی کی جانب سے یکساں سول کوڈ (UCC) اور وقف ترمیمی بل پرلیے گئے دانشمندانہ فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے ریاست کے معزز وزیر اعلیٰ، قانون ساز اسمبلی، حکمراں جماعت اور پوری حکومت کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور کہا کہ ہم ان کو ملک کے آئین و قانون اور جمہوری اقدار کے دفاع کے لیے اٹھائے گئے اس قدم پردل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور مشاورت کے صدر فیروز احمد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ قرارداد ملک کی تکثیریت، گنگا جمنی تہذیب اور آئینی حقوق کی پاسداری کی عکاس ہے۔ جھارکھنڈ حکومت نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ دستورِ ہند کے بنیادی اصولوں، اقلیتوں کے مذہبی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کے لیے پوری طرح سنجیدہ ہے۔ یہ قدم صرف مسلمانوں ہی نہیں، بلکہ ملک کے ہر انصاف پسند شہری کے لیے امید کی کرن ہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت تمام ریاستی حکومتوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ جھارکھنڈ کے اس جمہوری عمل سے سبق لیتے ہوئے ملک کے تنوع اور آئینی حقوق کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات کریں۔ ہم جھارکھنڈ کے عوام کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں، جنہوں نے اپنی حکومت کو ایسا مضبوط موقف اختیار کرنے کاحوصلہ بخشا۔ صدر مشاورت نے ریاست کے وزیراعلی ہیمنت سورین کے نام اپنے مکتوب میں کہا ہے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ جھارکھنڈ حکومت آئندہ بھی ملک میں مساوات، انصاف اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے ایسے فیصلے لے کر ایک مثالی ریاست بننے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔
اقلیتی امور اور اقلیت کی تعلیمی بہبود کے بجٹ میں تخفیف پر اظہار تشویش

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر فیروزاحمد ایڈوکیٹ نے مرکزی بجٹ کو اقلیتوں کے لیے مایوس کن بتایا نئی دہلی: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے مرکزی بجٹ کو ملک کی اقلیتوں کے لیے مایوس کن اور بی جے پی کے سیاسی مقاصد سے متاثر کہا ہے۔ مشاورت کے قومی صدر فیروزاحمد ایڈوکیٹ نے بجٹ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقلیتوں کی تعلیمی بہبود کے لیے مختص رقوم میں بھاری تخفیف اور اقلیتی امور کے بجٹ میں اعدادو شمار کا کھیل اور ہاتھ کی صفائی سے کام لینا انتہائی مایوس کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کے اس عمل سے سماج میں انتہائی بد بختانہ پیغام جائیگا اور بی جے پی کا مقصد بھی یہی ہے۔واضح رہے کہ مرکزی بجٹ میں وزارت اقلیتی امور کے لیے مالی سال 2025-26 میں 3,350 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جو کہ2024-25 کے بجٹ تخمینہ 3,183.24 کروڑ روپے کے مقابلے میں صرف پانچ فیصد اوپر ہے۔ مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے کہا کہ ریاستوں کو دی جانے والی گرانٹس میں تقریباً 1,000 کروڑ کا بڑا اضافہ کیا گیا ہے لیکن یونین ٹریٹریزحکومتوں کو دی جانے والی گرانٹس کو30.06 کروڑ سے کم کر کے10.06 کروڑ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح قبائل، خواتین اور سماجی بہبود کے بجٹ میں 35 فیصد تک کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ اقلیت کی تعلیمی بہبود کے بجٹ میں ایک بار پھر بھاری کٹوتی کی گئی ہے۔ 2024-25میں مائناریٹی ایجوکیشنل ویلفیئر کے بجٹ کو کم کر کے صرف ایک ہزار پانچ سو بہترکروڑ کردیا گیا تھا جو اس بارصرف 678.03 کردیا گیا۔ اسکولی طلبہ و طالبات کے لیے اسکالرشپس، مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ، فری کوچنگ اور تعلیمی قرضوں کے سود پر سبسڈی اقلیتی تعلیمی بہبود کے بجٹ میں شامل ہیں اور حکومت کا یہ رویہ اقلیت کے بچوں کی تعلیمی ترقی کو متاثر کریگا۔ حکومت نے مرکزی سکیموں اور منصوبوں کے لیے فنڈز میں بھی کٹوتی کی ہے جن میں ہنر کی ترویج و ترقی، روزگار، اقلیتوں کے لیے خصوصی پروگرام اور وزیراعظم وراثت وکاس اسکیم شامل ہیں۔2024-25میں ان کے لیے بجٹ 2,120.72 کروڑ تھا، جو کہ 2024-25میں گھٹا کر1,237.32 کروڑ کردیا گیا ہے۔ جبکہ2025-26 میں، پردھان منتری جن وکاس پروگرام کے لیے فنڈز میں ایک بڑا اضافہ کیا گیا ہے۔ 2024 میں اس کا بجٹ 910 کروڑ تھا اور اب یہ بڑھ کر 1,913.97 کروڑ ہو گیا ہے۔ اقلیتوں کی ترقی کینام پر علاقائی ترقی کے پروگراموں کے لیے بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکے۔
سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے انتقال پر مسلم مجلس مشاورت کا اظہارتعزیت

روزنامہ راشٹریہ سہارا، اردو بتاریخ: 28 دسمبر،2024
سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے انتقال پر مسلم مجلس مشاورت کا اظہارتعزیت

روزنامہ انقلاب،، ئی دہلی بتاریخ: 28 دسمبر2024
سنبھل کی شاہی جامع مسجدپرحملہ اور مسلم نوجوانوں کا قتل فاشزم کا ننگا ناچ، مجرموں کو بخشاگیاتواچھا نہ ہوگا

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کایوپی کی یوگی سرکار کو برخاست کرنے، مقتولین کو فی کس ایک کڑور روپے معاوضہ دینے اور واردات کی اعلیٰ سطحی عدالتی جانچ کرانے کا مطالبہ نئی دہلی: سنبھل میں شاہی جامع مسجد کے سروے کی آڑمیں سرکاری دہشت گردی کاجو ننگاناچ کیاگیا،وہ کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ پانچ بے گناہ مسلم نوجوانوں کو یوپی پولیس نے جس طرح گولیوں کا نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتار دیا،وہ انتہائی المناک اورناقابل برداشت ہے۔مجرموں کو کسی بھی قیمت پر بخشانہیں جانا چاہیے۔یہ مطالبہ ملک کی مؤقر مسلم تنظیموں کے وفاق آل انڈیامسلم مجلس مشاورت نے کیاہے۔صدرمشاورت فیروز احمد ایڈو کیٹ نے اپنے شدید ردّعمل میں کہاہے کہ مقتولوں کو فی کس ایک کروڑ روپے معاوضہ ادا کیا جائے اورواردات کی اعلیٰ سطحی عدالتی تحقیقات کراکے ذمہ داروں کو قرارواقعی سزا دی جائے۔مشاورت کے صدرفیروزاحمد ایڈوکیٹ نے صدرجمہوریہ سے اترپردیش کی یوگی سرکار کو فی الفور برخاست کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حکومت کے اقتدار میں رہتے ہوئے مظلوموں کو انصاف نہیں مل سکتاہے۔وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا مجرمانہ کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے،اقتدار ملنے کے بعد اس میں اوربھی اضافہ ہوگیاہے۔مشاورت نے غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوں تو پورے اترپردیش میں مسلمانوں کے خلاف حکومتی عملہ، پولیس اور پی اے سی کا جو طرزِ عمل ہے، وہ نفرت اور تعصب سے عبارت ہے لیکن پہلے بہرائچ اور اب سنبھل میں جو کچھ ہوا، یہ ایک آرگنائزڈ کرائم ہے۔انہوں نے کہاکہ یوپی کے مختلف علاقوں میں مساجد کے حوالے سے ماحول کو بگاڑااور نئے نئے تنازعات پیدا کرکے نفرت و عداوت کی فضا پیدا کی جاتی رہی ہے۔سنبھل کی جامع مسجد کو سرفہرست رکھ کر مسلم کمیونٹی کے خلاف حالات خراب کیے جارہے ہیں اور ناحق ظلم وستم کے خلاف آواز بلند کرنے والے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ اترپردیش کی بی جے پی سرکار مسلمانوں کو ایک فریق کے طور پر نشانہ بناکر ووٹوں کی صف بندی کرنے کی کھلی سازش کرارہی ہے۔ مشاورت صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے کہا ہے کہ مسجد کا ایک بار سروے کرنے کے بعد پھر دوسری بار فوری سروے کرانے اور اسی دن اس کی رپورٹ پیش کرنے کا جو طرزعمل اختیار کیا گیا، وہ یقیناً ایک منظم سازش کا حصہ تھا۔ مسلمانوں کا غم وغصہ اور احتجاج عین فطری تھالیکن پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے یک طرفہ کارروائی اور نوجوانوں کے سینوں کو بندوق کی گولیوں سے سیدھانشانہ بنایا جو انتہائی بے رحمانہ اور بلاجواز کارروائی ہے۔اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے، وہ کم ہوگی۔ صدرمشاورت نے کہا کہ ریاستی حکومت، پولیس کے اعلیٰ اہلکاران اور زیریں عدالتیں بھی قانون کا دوہرا پیمانہ اپنا رہی ہیں جس سے ملک اور ریاست میں قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کو سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔مشاورت نے مطالبہ کیا ہے کہ مقتولین کے ورثاء کوفی الفورمناسب معاوضہ دینے اور سنبھل و اطراف امن وامان وشانتی کا ماحول بنانے کی حتی الوسع کوشش کی جائے۔مظلوموں کے زخموں پر مرہم نہ رکھا گیا تو اس کا انجام ملک و ملت کسی کے لیے بھی اچھا نہ ہوگا۔مشاورت نے اس کے لیے پہلی فرصت میں یوگی سرکار کو برخاست کرکیواردات کی غیرجانب دارانہ تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطحی عدالتی انکوائری کمیٹی تشکیل دینے کی مانگ کی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر سپریم کورٹ کا فیصلہ انصاف اور آئین کی جیت

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے کہا کہ اقلیتوں کو ناروا قانونی لڑائی میں گھسیٹ کر ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے نئی دہلی: ملک کی مؤقر مسلم تنظیموں کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے سپریم کورٹ آف انڈیا کے اس تاریخی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھتے ہوئے 1967 کے سید عزیز باشا مقدمہ کے فیصلے کو کالعدم کر دیا گیا۔ مشاورت کے صدر اور معروف قانون دان فیروز احمد ایڈوکیٹ نے کہا ہے کہ یہ آئین و انصاف کی جیت ہے۔انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ اب اقلیتوں کو ناروا قانونی لڑائی میں گھسیٹ کر ملک و قوم کی بہترین صلاحیتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ فرقہ پرست عناصر ابے اپنے گریبانوں میں منھ ڈالیں۔ سپریم کورٹ کی سات رکنی آئینی بینچ نے جس کی سربراہی چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کر رہے تھے، عدالت کی اکثریتی رائے سے فیصلہ دیا کہ پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے قائم اداروں کا اقلیتی کردار ختم نہیں کیا جا سکتا، عدالت نے عزیز باشا کیس میں سپریم کورٹ کے سابقہ موقف اور استدلال دونوں کو غلط قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ اس پر ایک نئی بنچ ہدایات تیار کرے گی۔ اب چونکہ سپریم کے اس فیصلے کی روشنی میں اب سپریم کورٹ کی نئی بنچ مسلم یونیورسٹی کے مقدمے کا فیصلہ کرے گی،مشاورت نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس مسئلہ کو جلد از جلد ہمیشہ کے لیے ختم کرے، قانون کی اس ناروا کشمکش کا سلسلہ کا سلسلہ بند ہونا چاہیے جس میں دہائیوں سے ہماری بیش قیمت توانائیاں ضیا ع ہورہی ہیں۔ صدر مشاورت فیروزاحمد ایڈو کیٹ نے مزید یہ بھی کہا ہے کہ ملک میں صرف مذہبی اقلیتی ادارے ہی نہیں ہیں، لسانی اقلیتی اداروں کی بھی کثیر تعداد ہے اور ہندوؤں کے اقلیتی ادارے بھی ہزاروں کی تعداد میں ہیں لیکن مسلمانوں کی نفرت و عداوت میں گرفتار عناصر کی آنکھوں پر پٹیاں پڑی ہوئی ہیں۔ صدرمشاورت فیروز احمد ایڈوکیٹ نے میڈیا کے لیے جاری کردہ اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ فیصلہ نہ صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بلکہ ملک بھر کے دیگر اقلیتی اداروں کے حقوق کی حفاظت کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے سے اقلیتوں کے تعلیمی ادارے قائم کرنے کے حق اور ان کے اقلیتی کردار کے تحفظ کو مضبوط بنیاد فراہم کی ہے، جو ملک کے آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق میں شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ چونکہ ابھی حتمی فیصلہ آنا باقی ہے اس لئے سپریم کورٹ میں پوری قوت اور حکمت عملی کے ساتھ اس لڑائی کو انجام تک پہونچانے کی ضرورت ہے۔