بہرائچ کے فسادات اور کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے پر مشاورت کا سخت ردعمل

ملک کے سماجی تانے بانے کو سنگین خطرات لاحق، نفرت اور تشدد کی سیاست ناقابل قبول: فیروز احمد ایڈوکیٹ نئی دہلی: بہرائچ کے مہسی اور دوسرے مقامات پر پولیس کی پشت پناہی میں اتوار سے جاری فسادات پر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد کی سیاست سے ملک کے سماجی تانے بانے کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے اترپردیش کی یوگی حکومت کو اس کے لیے براہ راست ذمہ دار قرار دیتے ہوئے، وزیر اعلی سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ یوپی پولیس بلوائیوں کی پشت پناہی کررہی ہے، تصویروں اور ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اقلیتی آبادی پر حملہ کرنے والی بھیڑ میں کبھی پولیس آگے آگے اور دنگائی پیچھے پیچھے چل رہے ہیں جبکہ کبھی دنگائی پیچھے پیچھے اور پولیس آگے آگے چل رہی ہے۔صدر مشاورت نے کہا کہ بہرائچ میں تشدد کی جو کارروائیاں ہوئیں وہ اتفاقی نہیں، منصوبہ بندکارروائیاں ہیں، پہلے فساد کرایا گیا اور اب بے گناہوں پر ظلم ڈھایا جارہا ہے۔سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ فیروز احمد نے کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو بھی انتہائی افسوسناک بتایا ہے جس میں اشتعال انگیزی کے ان ملزمین پر درج کردہ مقدمہ کو منسوخ کردیا گیا ہے جنھوں نے ایک مسجد میں گھس کر جے شری رام کا نعرہ لگایا اور علاقے کی سماجی ہم آہنگی اور امن و قانون کو تباہ کرنے کی سازش کی تھی۔انہوں نے کہا کہ عدالت کا یہ ریمارکس زیادہ قابل افسوس ہے کہ مسجد کے اندر جے شری رام کا نعرہ لگانے سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح نہیں ہوتے۔انہوں نے کہا کہ پولیس اور ججوں کے اسی رویے سے شرپسندوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ درگا پوجا کے جلوس کے دوران ایک مسلمان کے گھر پر چڑھ کر اس پر موجود سبز مذہبی پرچم کو ہٹانا، بھگوا پرچم لہرانا اور جلوس کے ساتھ ڈی جے پر اشتعال انگیز گانا چلانا علاقہ میں فساد پھوٹ پڑنے کا سبب بنا کیونکہ پولیس نے شر پسندوں کو اس سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کی۔یوپی کی حکومت و انتظامیہ فساد پر قابو پانے میں ہنوزناکام ہے، لگاتار دوسرے تیسرے دن بھی اقلیتی علاقوں پر حملے ہوئے، جمعرات کو ایک فرضی انکاؤنٹر میں پولیس نے مسلم نوجوانوں کو شدید زخمی کردیا اور اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو یک طرفہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بہرائچ کی مہسی تحصیل کے مہراج گنج میں اتوار کی شام پھوٹ پڑنے والے فساد کا دائرہ دیہاتوں تک پھیل گیا اور شرپسندوں نے بے روک ٹوک اقلیتی فرقہ کے مکانوں، دکانوں اور عبادت گاہوں کو دن بھر نشانہ بنایا۔ شرپسندافرادگروپ کی شکل میں آس پاس کے مواضعات میں سرگرم رہے اور جابجا اب بھی حملے کررہے ہیں کیونکہ ان کو پولیس اور حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ صدر مشاورت نے کہا کہ یہ سلسلہ اس وقت تک رک نہیں سکتا جب تک کہ یوگی آدتیہ ناتھ اقتدار میں ہیں۔مقامی باشندے پولیس اور انتظامیہ کی بے حسی کی تنقید کر رہے ہیں لیکن ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے۔ بلوائیوں کا گروپ جب گاؤں میں توڑ پھوڑ، آتشزنی اور لوٹ مار کرکے چلا جاتا ہے تب پولیس آتی ہے اور وہ الٹے مظلوموں کو نشانہ بناتی ہے۔ضلع میں انٹر نیٹ خدمات بند ہیں۔ پولیس نے حالات قابو میں آجانے کا دعویٰ کیاہے لیکن سچائی یہ ہے کہ بلوائیوں کو لوٹ مار کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور پولیس بھی مظلوموں پر ہی ظلم ڈھارہی ہے۔ پورے متاثرہ علاقہ میں پولیس فورس تعینات ہے۔ایس ٹی ایف کے کمانڈو دستے اور سی آر پی ایف کے جوانوں نے مورچہ سنبھال لیا ہے لیکن صورت حال بدستور سخت کشیدہ اور دھماکہ خیز بنی ہوئی ہے۔  اتوار کو درگا پوجا کی مورتی وِسرجن کے جلوس کے دوران مسلم علاقوں سے گزرتے ہوئے ڈی جے پر انتہائی اشتعال انگیز گانے بجائے گئے اور پھر مسلمانوں کے ایک مکان پر چڑھ کر زبردستی سبز پرچم ہٹا کر بھگوا پرچم لہرایاگیا۔اس کے بعد پھوٹ پڑے تشدد کا سلسلہ آئندہ  دو دنوں تک جاری رہا اور تشدد کی وارداتیں اب بھی ہو رہی ہیں۔ضلع کے فخرپور، قیصر گنج، گائے گھاٹ اور شہرکے مختلف علاقوں میں مورتی وِسرجن کے جلوس کے دوران شرپسندوں نے ہتھیاروں کا مظاہرہ کیا، ایک مزار میں آگ لگا دی۔ مدرسوں اور عبادت گاہوں پر پتھراؤ کیا، شہر کے چوک بازار سے متصل گنج تالاب مارکیٹ میں مسلمانوں کی دکانوں کو نشانہ بنایا، گاڑیوں کو آگ کے حوالے کیا اور پولیس یاتو اس میں شریک تھی یا تماشائی بنی رہی۔ مشاورت کا ماننا ہے کہ صدر جمہوریہ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس میں مداخلت کریں اور معاملے کی اعلی سطحی جانچ کرائی جائے تاکہ مظلوموں کو انصاف مل سکے۔

مولانا ندیم الواجدی کی رحلت ملک و ملت کے لئے ایک ناگہانی صدمہ ہے: نوید حامد

نئی دہلی: ملک کے معروف عالم دین، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن، ماہنامہ ترجمان دیوبند کے ایڈیٹر، متعدد کتابوں کے مصنف و مؤلف، دینی و علمی کتابوں کے ناشر دارالکتاب اور لڑکیوں کے مدرسہ معہد عائشہ صدیقہ دیوبند کے بانی مولانا ندیم الواجدی کی اچانک رحلت پر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے سابق صدر نوید حامد نے اپنے گہرے رنج و ملال کا اظہار کیا اور کہا کہ مرحوم کا انتقال ان کے خاندان کے لیے ہی نہیں، ملک و ملت کے لیے بھی ایک ناگہانی صدمہ ہے۔ تعزیتی پیغام کا متن حسب ذیل ہے: منگل کی صبح یہ خبر انتہائی افسوس اور رنج کے ساتھ امریکہ کے شکاگو سے موصول ہوئی کہ مولانا ندیم الواجدی اب اس دار فانی میں نہیں رہے۔ مولانا اپنے صاحبزادے مفتی یاسرندیم الواجدی کے پاس گئے ہوئے تھے جہاں ان پر دل کا دورہ پڑا، نہایت نازک حالت میں ان کو اوپن ہارٹ سرجری سے گزارا گیا لیکن وہ جاں بر نہ ہوسکے۔مولانا مرحوم اپنی طالب علمی کے زمانے سے مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور تعلیمی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔نوجوانی میں وہ دیوبند میں مسلم مجلس یوتھ سے وابستہ تھے۔آگے چل کر کتب خانہ قائم کیا جو صرف دارالاشاعت نہ تھا، نوجوان اہل قلم اور طالب علموں کی تربیت گاہ بھی تھا۔انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے دیوبند میں معہد عائشہ صدیقہ قائم کیا۔ وہ ایک بڑے مقبول کالم نگار اور جہاندیدہ صحافی بھی تھے۔مرحوم کی دینی، علمی اور سماجی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ مولانا ندیم الواجدی نے صحیح معنوں میں اپنی زندگی دین کی خدمت اور ملت کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر دی تھی۔ انہوں نے امام غزالی کی مشہور کتاب احیاء العلوم کا سلیس اردو میں ترجمہ کیا جو ان کے ذہن و فکر کی عکاسی ہے۔ ان کے علمی مقالات، کالم، اور تحریریں اسلامی شعور و آگاہی کو فروغ دینے کی نمایاں خدمت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی وفات نہ صرف ان کے اہل خانہ بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ میں مولانا ندیم الواجدی کے اہل خانہ، متعلقین اور تمام چاہنے والوں سے دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔

مولانا ندیم الواجدی کا انتقال ملک و ملت کا ناقابل تلافی نقصان: فیروزاحمد ایڈوکیٹ

مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اور مصنف و صحافی مولانا واجدی کی موت پر مسلم مجلس مشاورت کا پیغام تعزیت نئی دہلی: ملک کے معروف عالم دین، ماہنامہ ترجمان دیوبند کے ایڈیٹر، متعدد کتابوں کے مصنف و مؤلف اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن مولانا ندیم الواجدی کی اچانک رحلت ملک و ملت کا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ منگل کی صبح یہ خبر انتہائی افسوس اور رنج کے ساتھ امریکہ کے شکاگو سے موصول ہوئی جہاں وہ اپنے صاحبزادے مولانا یاسرندیم الواجدی کے پاس گئے ہوئے تھے۔ ان جذبات کا اظہار آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر فیروزاحمد ایڈوکیٹ نے مولانا ندیم الواجدی کے انتقال پرملال پر اپنے تعزیتی پیغام میں کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ مرحوم کی دینی، علمی اور سماجی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ مشاورت نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا ہے کہ مولانا ندیم الواجدی نے اپنی زندگی دین کی خدمت اور ملت کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر دی تھیں۔ امام غزالی کی مشہور کتاب احیاء العلوم کا سلیس اردو ترجمہ ان کے کاموں میں ایک نمایاں کام اور ان کے ذہن و فکر کا عکاس ہے۔ ان کے علمی مقالات، کالمز، اور تحریریں اسلامی شعور و آگاہی کو فروغ دینے میں ان کے نمایاں خدمات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی وفات نہ صرف ان کے اہل خانہ بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت مولانا ندیم الواجدی کے اہل خانہ، متعلقین اور تمام چاہنے والوں سے دلی تعزیت کا اظہار کرتی ہے اور دعا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔ اللہ ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے اور ان کے مشن کو جاری رکھنے کی طاقت دے۔ جاری کردہ:

دہلی مسلم مجلس مشاورت کی مشترکہ میٹنگ

سیاسی و سماجی مسائل پر سنجیدہ غوروفکر، مجلس عاملہ اور ذیلی کمیٹیوں کی تشکیل پیغمبراسلام ﷺکی شان میں گستاخی کی مذمت، مجرموں کو سزا دلانے کا مطالبہ، متاثرین فسادات کیلئے انصاف اور اوقاف کے تحفظ کے لیے عزم کا اعادہ، عہدیداروں کا تعارف کرایاگیا اوردہلی مشاورت کے ممبران کو قومی صدر فیروزاحمد ایڈوکیٹ اور دیگر معززین کے دست مبارک سے رکنیت کی سند پیش کی گئی نئی دہلی: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی نومنتخب مجلس عاملہ اور جنرل باڈی کی پہلی مشترکہ میٹنگ اتوار کو یہاں مشاورت کے مرکزی دفتر میں منعقد ہوئی جس کی صدارت دہلی مشاورت کے صدر ڈاکٹر ادریس قریشی نے کی۔ اپنے خیرمقدمی کلمات میں انہوں نے کہا کہ ہم دہلی کے مسلمانوں کے مسائل کا سامنا پوری مضبوطی سے کریں گے اور اس کے لیے ریاست میں مشاورت کو زیادہ فعال اور منظم کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم شہر کے تمام اضلاع میں مشاورت کے ارکان، مسلم تنظیموں کے نمائندوں اور ائمہ مساجد سے رابطہ کررہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ہرضلع میں کم ازکم ۵ افراد کو مشاورت سے جوڑنا ہے جبکہ مشاورت کے قومی صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے اس موقع پر کہا کہ کسی بھی آل انڈیا تنظیم کے لیے اس کی صوبائی یونٹ اس کے دست و بازو کا درجہ رکھتی ہے، اس لیے ہماری پوری توجہ ریاستی مجلس مشاورت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے پر ہے اور اس کے لیے ریاستی یونٹ کو ہم ہرممکن تعاون دیں گے۔ اس سے قبل میٹنگ میں سیاسی و سماجی مسائل پر قراردادیں پیش کی گئیں جن پر بحث میں شرکائے اجلاس نے کھل کر حصہ لیا، تجاویز پیش کیں اور تمام قراردادیں اتفاق رائے سے منظور کی گئیں۔ مشاورت نے پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں فرقہ پرستوں کی گستاخی پراپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ اس مسئلے پر انجینئر ابوسعید نے قرارداد پیش کی جس میں خاص طور پر ڈاسنا کے دریدہ دہن نام نہاد سوامی یتی نرسنگھانند کی سخت مذمت کی گئی۔ اس بدزبان شخص کے گستاخانہ کلمات کو بدترین اشتعال انگیزی اور  ناقابل برداشت حرکت بتاتے ہوئے مطالبہ کیاگیا کہ ایسے شخص کو پولیس بلاتاخر گرفتار کرے اور مقدمہ چلاکر سزا دے۔ اس کو آزاد چھوڑنا خطرناک ہے،وہ بار بار ملک کے کروڑوں باشندوں کی دل آزاری کر رہا ہے اور اس کی حرکتوں سے ملک کا امن وامان خطرے میں ہے۔مشاورت نے زوردیا ہے کہ کسی بھی مذہب کی مقدس ہستی کی توہین کرکے لوگوں کی دل آزاری کرنے والے شخص / اشخاص کے خلاف قانون کے مطابق مقدمہ قائم کیا جائے اور اگر پولیس ہماری شکایت پر کارروائی نہیں کرتی ہے تو براہ راست عدالت سے رجوع کریں اور پولیس کو مقدمہ درج کرنے پر مجبور کریں جبکہ شمال مشرقی دہلی (2020) کے فرقہ وارانہ تشدد کے شدید اثرات کومحسوس کرتے ہوئے، جس کے نتیجے میں تقریباً 55 معصوم افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے اوربڑے پیمانے پر بے گناہ لوگ بے گھر ہوئے،مشاورت نے اس اجلاس میں ایڈوکیٹ محمد طیب خاں کے ذریعے پیش کردہ قرار داد میں متاثرین کے لیے فوری امداد اور انصاف کا مطالبہ کیا اور کہا کہ انصاف میں تاخیر انصاف کی نفی ہے۔مشاورت نے قرارداد میں کہا ہے کہ عمر خالد، خالد سیفی، گل افشا ں فاطمہ اور ان جیسے دیگر کارکنوں کی مسلسل قید کی تشویشناک صورت حال کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے جنہیں ان کے پرامن سرگرمیوں کے باوجود ناجائز طور پر قید میں رکھا گیا ہے۔ انصاف میں یہ تاخیر متاثرین کے درد میں اضافہ کرتی ہے اور عدالتی عمل کی صحت پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔آمدو خرچ کا حساب و کتاب اور2024-25کا بجٹ جناب ایس ایم یامین قریشی (سی اے)نے پیش کیا۔ دہلی مشاورت نے میٹنگ میں اپنی مجلس عاملہ کے ارکان کے ناموں کا اعلان کرتے ہوئے حاضرین سے ان کا تعارف بھی کرایا۔مولانا نثار احمد نقشبندی، مسرورالحسن صدیقی ایڈوکیٹ اور انجینئر ابو سعید نائن صدر، ڈاکٹر اقبال احمدجنرل سکریٹری، رئیس احمد ایڈوکیٹ اور سید عشرت علی سکریٹری اور عزیزالرحمٰن راہی، اشرف علی بستوی، اطہر ابراہیم، بدرالاسلام کیرانوی، ڈاکٹر ریحانہ، فیروزاحمد صدیقی، کبیرخان ایڈوکیٹ، محمد الیاس سیفی، محمد تقی، محمد رئیس الاعظم فیضی، رئیس اعظم خان، صنوبر قریشی ایڈوکیٹ، تقی حیدر اور ذیشان خالق ارکان عاملہ بنائے گئے ہیں۔جبکہ جناب اسلم احمد جمال ایڈوکیٹ کوقانونی امور کی کمیٹی کا کنوینر اور معین الدین حبیبی (سابق رجسٹرار جامعہ ملیہ اسلامیہ) کو تعلیمی کمیٹی کا کنوینر نامزد کیا گیا ہے۔میٹنگ کا افتتاح حافظ عاطف کی تلاوت سے ہوا، نظامت کے فرائض ڈاکٹر اقبال احمد نے انجام دئے، شکریے کی تحریک منصور احمد نے پیش کی۔ میٹنگ کے اختتام سے قبل دہلی مشاورت کے ارکان کومرکزی مجلس مشاورت کے صدرفیروزاحمد ایڈوکیٹ، دہلی مشاورت کے سابق صدر سیدمنصورآغا اور دیگر معززین کے ہاتھوں سند رکنیت پیش کی گئی۔ جاری کردہ:

پیغمبر اسلام ؐ کی شان میں گستاخی ناقابل برداشت

  نئی دہلی: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے نام نہاد سوامی یتی نرسنگھانند کی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی شان میں گستاخی کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بدزبان شخص نے جو گستاخانہ کلمات کہے ہیں، وہ اس کی بدترین اشتعال انگیزی اور ناقابل برداشت حرکت ہے۔صدر مشاورت فیروز احمد ایڈوکیٹ نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ ایسے بدزبان شخص کو بلاتاخیر گرفتار کرے اور مقدمہ چلاکر سزا دے۔ انہوں نے کہا کہ اس کو آزاد چھوڑنا خطرناک ہے، کسی مہذب معاشرے میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہوسکتی، ایسے بدزبان شخص کی جگہ جیل ہے۔یہ شخص بار بار ملک کے کروڑوں باشندوں کی دل آزاری کر رہا ہے اور اس کی حرکتوں سے ملک کا امن وامان خطرے میں ہے۔ صدر مشاورت نے کہا کہ مسلمان ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور مورتی پوجا اسلام میں بدترین گناہ ہے لیکن یہ اپنے ماننے والوں کو کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں کی بے حرمتی سے روکتا ہے اور کسی کی بھی دل آزاری کی اجازت نہیں دیتا۔یہاں تک کہ قرآن نے ان دیوی دیوتاؤں کو بھی برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے جن کو غیرمسلم پوجتے ہیں، انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ نرسنگھانند کی گستاخی ایک بیہودہ شخص کا فعل بد ہے، ہمیں اس بدزبان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے اورحکومت سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اس شخص کو قرار واقعی سزا دے اور مسلمانوں کو چاہیے وہ جہاں بھی ہوں، اپنے ہم وطنوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی سیرت سے آگاہ کریں اور ان کو بتائیں کہ انسانوں کی آزادی اور برابری کے دشمنوں کو حضور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم سے کیا تکلیف ہے اور وہ ان کے کردار کو اس لئے مسخ کرنا چاہتے ہیں تاکہ مظلوموں کو ایک ہونے اور ان کی تعلیمات انصاف و مساوات کو اپنانے سے روکیں۔