آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے اجلاس میں ملک و ملت کو درپیش مسائل پر غوروفکر

مسلم تنظیموں کے نمائندوں،ممتازرہنماؤں اوردانشوروں کاملک کی سیاسی و سماجی صورتحال پر اظہار تشویش، اقلیتوں اور مظلوموں کے اتحاد پر زور، انصاف کے لیے مل کر لڑنے کاعزم ہجومی تشدد، بلڈوزر راج،نفرت و عداوت کی سیاست، اقلیت مخالف معاشی پالیسی ،سی بی ایس ای کی اردودشمنی، انتخابی حلقوں کی حدبندی،دہلی کے متاثرین فسادات کے لیے انصاف، بےگناہ قیدیوں کی رہائی،مظلومین آسام کی دادرسی اوروقف ترمیمی بل سمیت اہم امور پر 20 سے زائد قراردادیں منظور، پڑوسی ممالک اور فلسطین کے حالات و واقعات اورہندوستان پران کےاثرات بھی زیر بحث آئے نئی دہلی: ملک کی مؤقر مسلم تنظیموں اورممتازاشخاص کے وفاق “آل انڈیامسلم مجلس مشاورت” کا سالانہ اجلاس ہفتے کو نئی دہلی میں منعقد ہوا۔ مہاراشٹر، جھارکھنڈ، کرناٹک، مغربی بنگال، تلنگانہ، دہلی، اتر پردیش، ہریانہ اور بہار کے نمائندوں کی ایک اچھی تعداد نے اس میٹنگ میں شرکت کی اور ملک وملت کو درپیش مسائل پرغوروفکرمیں حصہ لیا۔مسلم تنظیموں کے نمائندوں، ممتاز قائدین ، ارکان پارلیمنٹ ، دانشوران،علمائے دین اور اصحاب رائے نے اس موقع پر ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ، اقلیتوں اور دیگرکمزور طبقات کے اتحاد پر زور دیا اور انصاف کے لیے مل کر جدوجہد کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ہجومی تشدد، نفرت کی سیاست، حکومت کی اقلیت مخالف اقتصادی پالیسی ، سی بی ایس ای کے اردو مخالف فیصلے، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی حالت، انتخابی حلقوں کی حد بندی، وقف ترمیمی بل، ذات برادری کی مردم شماری، بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں بلڈوزر راج، آسام اور یوپی کی تشویشناک صورت حال ،شمال مشرقی دہلی( 2020 ) کےمتاثرین فسادات کے لیے انصاف اوربےگناہ قیدیوں کی رہائی جیسے سلگتے مسائل پر تقریباً 20 قراردادیں منظور کی گئیں۔ اجلاس میں پڑوسی ممالک کی صورتحال ، فلسطین کے لوگوںپراسرائیلی مظالم اور دنیا پر اس کے اثرات بھی زیربحث آئے اوران پرقراردادیںمنظور کی گئیں۔شرکائے اجلاس کی پختہ رائے تھی کہ مسلمانوں کے خلاف حکومت کے دشمنانہ رویے، اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف ریاستی ایجنسیوں کے استعمال اور نفرت کی سیاست کا متحد ہوکر مقابلہ کرنا ہے۔ صدرمشاورت فیروز احمد ایڈوکیٹ نے اپنے صدارتی کلمات میںبھی اس عزم کا اعادہ کیا۔انہوں نے کہاکہ ہم مسلمانوں کوبانٹنے کے لیے “پسماندہ غیرپسماندہ کارڈ” کھیلنےکی اجازت ہرگزکسی کونہیں دیںگے۔ انہوں نےکہا کہ مشاورت اپنی صوبائی یونٹوں کو مضبوط کرےگی اور کم ازکم 20 ریاستوں میں مشاورت کواسی سال فعال کیاجائےگا جبکہ مشاورت کے رکن اور سابق رکن پارلیمنٹ شاہد صدیقی نے اس موقع پرمشاورت کے ماضی کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مشاورت ایک بااثر تاریخی تنظیم رہی ہے جس کی ساکھ کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں ارکان مشاورت پرزور دیا کہ آپ اس کی کریڈبلیٹی کو رسٹور کریں ،نہ توافراد کی کمی ہوگی نہ وسائل کی کمی رہےگی ۔انہوں نے کہا کہ مسلم ممبران اسمبلی و پارلیمنٹ کے درمیان آپسی روابط بڑھانےکی ضرورت ہے، مشاورت اس پر کام کرے کہ مسلم ممبران پارلیمنٹ و اسمبلی کم ازکم اسمبلی و پارلیمنٹ کے ہر اجلاس سے پہلے میٹنگ کیاکریں۔مشاورت نےان کی اس تجویزپررکن پارلیمنٹ جناب ای ٹی محمد بشیر ، سابق ممبران پارلیمنٹ جناب شاہد صدیقی، جناب عزیز پاشا، جناب کنور دانش علی ،جناب م افضل اورمشاورت کے سابق صدر جناب نوید حامد پرمشتمل پارلیمانی امورکی ذیلی کمیٹی تشکیل دی۔ اسی طرح مشاورت کے رکن اوراتر پردیش کے معروف سیاسی و سماجی رہنما اخترحسین اختر نے کہا کہ مشاورت کو اوقاف اور دوسرے اہم امور پر مسلمانوں کے لیے گائڈ لائن جاری کرنا چاہیےاور اس کام کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جائےجبکہ مشاورت کے نائب صدر نوید حامد نے کہا کہ ملک بھر سےسیکڑوں میل کا سفر کرکے ارکان و مندوبین کا اس اجلاس میں شریک ہونا ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ ملت کے مسائل میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ انہوںنے کہاکہ مشاورت کواب بھی ملک و بیرون ملک،سیاسی و سماجی حلقوں میں سنجیدگی سے لیاجاتاہے۔اس سے قبل مشاورت کے جنرل سکریٹری (میڈیا) احمدجاویدنے مشاورت کی گذشتہ کارروائیوں کی رپورٹ پیش کی ۔ رپورٹ میں ان صحافیوں کے لیے قانونی امدادکا نظم جو سچائی کو سامنے لانے کے لیے اپنے آپ کواوراپنے مستقبل کو خطرے میں ڈالتے ہیں اوراسی طرح میڈیا مانیٹرنگ سیل اور ڈیٹا سینٹر کے قیام کے منصوبے کی تفصیلات بھی شامل تھیں۔مشاورت نے ملک وقوم کو درپیش مسائل پر قومی کنونشن بلانےاور سید شہاب الدین کی یاد میں سالانہ لیکچر کرانےکا بھی اعلان کیا ۔پہلا سیدشہاب الدین میموریل لکچر اس سال 4 نومبر کو منعقدکیاجائےگا۔ رپورٹ میں مشاورت کی عمارت کی تعمیر نو اور مشاورت ریفرنس لائبریری کے استحکام کی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی گئی اوربتایاگیاکہ دفتر مشاورت میںایک علاحدہ ریڈنگ روم کی سہولت بھی ہے جو مسابقتی امتحانات کی تیاری کرنے والے طلباء کے لیےوقف ہے۔مشاورت کےجنرل سکریٹری (فائنانس)جناب احمدرضا نے سال گذشتہ کی آمدوخرچ کا حساب وکتاب اور سال 2024-25کابجٹ پیش کیا۔بنگلور (کرناٹک) سےآئے رکن مشاورت حیدرولی خاں نے مشاورت کے بجٹ میں انتظامی اموراورمیڈیا کےلیےرقوم میں اضافہ کرنے کی تجویز رکھی جس کی حاضرین نے تائید کی اوربجٹ کواتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔میٹنگ کے دوسرے حصے میں ڈاکٹر قیصر شمیم ،سابق سکریٹری سنٹرل وقف کونسل(حکومت ہند) نے وقف ترمیمی ایکٹ 2024 پر قرارداد پیش کی جس پر بحث میں سابق ایم پی عزیز پاشا اور دیگراراکین نےحصہ لیا۔اسی طرح ہجومی تشدد پرقراردادپر خورشید حسن رومی، منظور احمد اورسپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ اعجاز مقبول نےتجاویزپیش کیں۔ دونوں قراردادیں ان مسائل پر مرکزی حکومت اور ریاستوں کی این ڈی اے حکومتوں کی پالیسیوں اور کام کاج کے طریقے کو مسترد کرتی ہیں۔قرارداد میں نشاندہی کی گئی کہ قانون کے نفاذ کے تقریباً تین دہائیوں کے بعد بھی حکومت وقف ایکٹ 1995 کے تحت اوقاف کا سروے کرانے میں ناکام رہی ہے، نئے قواعد و ضوابط کی توضیع ، بورڈ میں کل وقتی سی ای او کی تقرری اور قانون کے دیگر مینڈیٹ پربھی اس نے عمل درآمد نہیںکیا۔ یہ صرف ریاستیں ہی نہیں جو ایکٹ کو نافذ کرنے میں ناکام رہی ہیں، مرکز بھی نگرانی کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سنٹرل وقف کونسل کی میعاد 3فروری2023 کو ختم ہو گئی تھی اور اس کی تشکیل نو نہیں کی گئی ۔ کونسل کے سیکرٹری کو 11اپریل2023 کو رخصت کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے کونسل
حلقہ بندی کے عمل پر قرارداد

آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت کے قومی اجلاس میں منظور کی گئی تاریخ:21 ستمبر2024 ہندوستان کے آئین کی رو سے ہر دس سال بعد مردم شماری ہونی چاہیے اور شائع شدہ اعداد و شمار کی بنیاد پر لوک سبھا اور ریاستی اسمبلی کے حلقوں کے ساتھ ساتھ میونسپل کارپوریشنوں، میونسپل بورڈوں، میونسپل کونسلوں، ڈسٹرکٹ کونسلوں، پنچایت سمیتیوں اور گرام پنچایتوں کے وارڈز کی سرحدوں کو ازسرنو متعین کیا جانا چاہیے۔ آئین کے نفاذ(1950 ) کے بعد سے یہ عمل وقتاً فوقتاً کیا جاتارہا ہے۔ تاہم، 2002 میں آئین کی 84ویں ترمیم کے تحت لوک سبھا اور اسمبلی کے حلقوں کی حد بندی بالعموم 2031 میںاگلی مردم شماری کے اعداد و شمار کی اشاعت تک روک دی گئی۔ اس کے باوجود، مقامی اداروں (میونسپل کارپوریشنز، میونسپل بورڈز، ڈسٹرکٹ کونسلز، پنچایت سمیتیوں، گرام پنچایتوں وغیرہ) کے وارڈز کی حد بندی ہر دس سال بعد جاری ہے۔ حلقہ بندی کے قوانین اور قواعد ٹھوس ہیں لیکن ان کا نفاذ اکثر ناکافی ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں بعض کمیونٹی کو جمہوری نمائندگی کا مکمل انصاف نہیں ملتا۔ ہندوستان کے ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے، ہمیں چوکس رہنا چاہیے اور نچلی سطح پر منظم طریقے سے کام کرنا چاہیے تاکہ حلقہ بندی کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے اور یہ کسی بھی آبادی یا کمیونٹی کی نمائندگی پر منفی اثر نہ ڈالے۔ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے حلقوں کی حد بندی کا عمل واجب العمل ہے اور اگلی مردم شماری کے بعد مکمل کیاجاسکتا ہے کیونکہ “خواتین ریزرویشن ایکٹ 2023کے تحت پارلیمنٹ میں خواتین کے لیے نشستیں محفوظ کرنے کی دفعات کو نافذ کیا جانا ہے۔ لہٰذا، قومی مردم شماری اور حلقہ بندی کا عمل آپس میں جڑا ہوا ہے اور مسلم کمیونٹی اور دیگر پسماندہ گروہوں کی فوری توجہ کا مستحق ہے۔ ہمیں دونوں کارروائیوںپر نظر رکھنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت (AIMMM) کا پختہ احساس ہے کہ ماضی میں انتخابی حلقوں کی حدبندی کو بار بار مخصوص آبادیوں اور کمیونٹی، خاص طور پر مسلم کمیونٹی کی نمائندگی پر منفی اثر ڈالنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ ماضی کے تجربات سے مشاورت نے یہ پختہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تقریباً 80 لوک سبھا سیٹیں، جہاں مسلم ووٹروں کی بڑی تعداد ہے، جان بوجھ کر درج فہرست ذاتوں (SC) کے لیے مخصوص کر دی گئیں جبکہ ایسی نشستوں کو جن میںدرج فہرست ذات کے لوگوں کی بڑی آبادی موجود ہے، عام زمرے میں رکھا گیا۔ درج فہرست ذاتوں کی آبادی کو لوک سبھا یا ریاستی اسمبلیوں میں عام زمرے کے تحت ڈالنے کا بنیادی مقصد نہ صرف دلتوں کی مضبوط قیادت کے ابھرنے کے مواقع کو بند کرنا ہے بلکہ یہ بھی یقینی بنانا ہے کہ اس کمیونٹی کا بڑا حصہ ہندو رہنماؤں کے زیر اثر رہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مخصوص لوک سبھا حلقوں کے آبادیاتی اعداد و شمار میں درج فہرست ذاتوں کی آبادی مسلم ووٹروں کے مقابلے میں کم پائی گئی ہےاور اس کا مقصد مسلم کمیونٹی کی مساوی اور باعزت نمائندگی کو روکنا ہے۔ لہٰذا، ماضی میں حلقہ بندی کا عمل ایک گھناؤنے ایجنڈے کے تحت عمل میں لایا گیا تاکہ مسلم اور ایس سی کمیونٹیز کی مضبوط سیاسی قیادت کے ابھرنے اور ان کی پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں معتبر نمائندگی کے مواقع کومسدود کیا جا سکے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت حد بندی کے عمل میں اپنائے گئے رائج طریقہ کار اور چالاکیوں کی شدید مذمت کرتی ہے اور اقلیتوں اور دیگر پسماندہ گروہوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ حلقہ بندی کے عمل کے دوران اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے چوکس رہیں اور حلقہ بندی کے مختلف مراحل میں ریاستی چیف الیکٹورل افسران، نیشنل الیکشن کمیشن اور ضلع مجسٹریٹ (جو اپنے متعلقہ اضلاع کے لیے الیکشن آفیسر بھی ہوتے ہیں) کے ذریعے حتمی نوٹیفکیشن سے قبل ضروری اصلاحات کا مطالبہ کریں۔ مسلم مجلسِ مشاورت ماضی میں حلقہ بندی کے قوانین اور قواعد کی خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کرتی ہے جو وقتاً فوقتاً عمل میں آئیں۔مشاورت کا پختہ یقین ہے کہ ہندوستان کے الیکشن کمیشن، ریاستی چیف الیکٹورل افسران، اور ضلع مجسٹریٹس کو ان خلاف ورزیوں سے مہذب اور جرات مندانہ طورپر آگاہ کیا جانا چاہیے اور بروقت سوالات اٹھانے چاہئیں کہ ضروری اصلاحات کا عمل کب شروع کیا جائے گا اور حلقہ بندی کا حتمی نوٹیفکیشن کب جاری کیا جائے گا۔ہماراماننا ہےکہ ان اصلاحات کو سماجی تنظیموں کی طرف سے سروے اور حکومت کے دستیاب اعداد و شمار پر مبنی تحقیق کے ذریعے مسلسل مکالمے کے ذریعے یقینی بنایا جانا چاہیے۔ مشاورت کا یہ اجلاس اس بات کی بھی توثیق کرتا ہے کہ اس مسئلے کو سستی سیاسی تشہیر کے لیے سماجی کام کے نام پر عوامی طور پر اچھالنے کے بجائے، بنیادی مقصد پر سنجیدگی سے توجہ مرکوز کرنا زیادہ فائدہ مند ہوگا جو کہ مسلمانوں اور دیگر پسماندہ گروہوں کے عوام کے انتخابی حقوق کی حفاظت ہے۔ مسلم مجلس مشاورت یہ بھی تجویز کرتی ہے اور اپیل کرتی ہے کہ دونوں کمیونٹیز، یعنی دلت اور مسلمانوں کی معتبر سماجی قیادت سیاسی بصیرت کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کرے تاکہ قومی مردم شماری کے بعد شروع ہونے والے حلقہ بندی کے عمل کے دوران مناسب ہم آہنگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ مجلسِ مشاورت کو امید ہے کہ سمجھداری غالب آئے گی اور مذہبی تنظیمیں اپنے اداروں کو اس عمل میں ملوث کرنے سے گریز کریں گی کیونکہ یہ ممکنہ طور پر ردعمل پیداکر سکتا ہے۔ پیش کنندہ:نوید حامد، ڈاکٹر سید ظفر محمود اور احمد جاوید کی آراء کے ساتھمقام:نئی دہلی
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا اجلاس ملک و ملت کی موجودہ صورتحال پر غورو خوض

روزنامہ انقلاب بتاریخ:22 ستمبر2024
مسلمانوں کو تقسیم کرنے والی سازشوں کے خلاف متحد ہوکر لڑیں گے

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے اجلاس میں ملک و ملت کو درپیش مسائل پر غوروفکر روزنامہ راشٹریہ سہارا بتاریخ:22 ستمبر2024
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان میں موجود تعطل پر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے اجلاس میں منظور شدہ قرار داد

تاریخ:21 ستمبر2024 قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان حکومت ہند وزارت تعلیم کا ایک خود مختار ادارہ ہے۔ جو اردو کے فروغ کے لیے کام کرتا ہے۔ قومی اردو کونسل کی جنرل باڈی کو اس کی میعا د کے ختم ہونے کے دو سال بعد بنائی ہے ۔وہ بھی آدھی ادھوری بغیر وائس چیئرمین کے ۔ جنرل باڈی کے ساتھ ایگیزکیٹو بورڈ اور فائنانس کمیٹی بھی سرکار ہی بناتی ہے۔لیکن سرکار نے ابھی تک اس کی کمیٹی کو تشکیل نہیں کیا ہے۔ جس سے قومی اردو کونسل کا کام پوری طرح سے متاثر ہورہا ہے۔ Full Coverage & Credits
جموں و کشمیر پر قرارداد

آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت کے قومی اجلاس میں منظور کی گئی تاریخ:21 ستمبر2024 آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت,جو بھارت میں مسلم تنظیموں اور ممتاز شخصیات کا واحد وفاق ہے، حکومتِ ہند سے مطالبہ کرتی ہے کہ جموں و کشمیر کے لیے انتخابات کے بعد ایک ترقی پسند روڈ میپ بنایا جائے۔ ہم حکومت اور الیکشن کمیشن کی اس بات پر تعریف کرتے ہیں کہ انہوں نے آزاد، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا ہے، اور تمام جماعتوں کے لیے مساوی میدان فراہم کیا ہے۔ تاہم، انتخابات کے بعد کے روڈ میپ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ الزامات سامنے آئے ہیں کہ انتخابات سے پہلے کی بے ضابطگیاں اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ اکثریتی مسلم آبادی کی آواز آئندہ اسمبلی میں کمزور ہوگی۔ اس تاثر کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر حد بندی کمیشن نے ہندو اقلیتی آبادی والے علاقوں کو زیادہ نشستیں دی ہیں اور لیفٹیننٹ گورنر کو مزید پانچ ارکان نامزد کرنے کا اختیار دیا ہے، جن میں سے تین یقینی طور پر ہندو ہوں گے، دو کشمیری پنڈت اور ایک 1947 میں پاکستان سے ہجرت کر کے آیا مہاجر۔اگرچہ اقلیتی آوازوں کو اسمبلی میں شامل کرنا قابلِ تحسین ہے لیکن غیر متناسب نمائندگی کا کوئی فائدہ نہیں۔ جموں و کشمیر کی آبادی کے مطابق، چونکہ اقلیتی ہندو آبادی 28% ہے، انہیں 95 رکنی اسمبلی میں 29 نشستیں ملنی چاہئیں۔ لیکن حد بندی کمیشن نے ہندو اکثریتی علاقوں کی نشستوں کو 24 سے بڑھا کر 31 کر دیا۔ نامزد ارکان کے ساتھ یہ تعداد ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ اگر یہ فارمولا اقلیتی آبادی کو بااختیار بنانے کے لیے ہے، تو اسے پورے بھارت میں نافذ کیا جانا چاہیے تاکہ دیگر ریاستوں میں بھی اقلیتوں کو سیاسی طور پر مضبوط کیا جا سکے۔ اس وقت پارلیمنٹ میں صرف 24 مسلمان ایم پی ہیں، جبکہ ان کی تعداد 74 ہونی چاہیے اور اگر کشمیر کا فارمولا پورے ملک میں نافذ کیا جائے، تو یہ تعداد تقریباً 200 تک پہنچ سکتی ہے۔اس کے علاوہ، ہم سمجھتے ہیں کہ مشترکہ حکمت عملی جموں و کشمیر میں دیرپا امن، خوشحالی اور جمہوری استحکام کی راہ ہموار کرے گی۔ ہم درج ذیل سفارشات پیش کرتے ہیں: ریاستی حیثیت کی بحالی فوری کارروائی: جموں و کشمیر کی مکمل ریاستی حیثیت بحال کی جائے تاکہ عوام کی امنگوں کا احترام کیا جا سکے۔ کیونکہ: ریاستی حیثیت مقامی اداروں کو مضبوط کرے گی اور خطے کی منفرد ضروریات کے مطابق بہتر حکمرانی کو ممکن بنائے گی۔ منتخب حکومت کو بااختیار بنانا: گورنر کے اختیارات کم کرنا: گورنر کے انتظامی اختیارات کو محدود کیا جائے تاکہ منتخب حکومت مؤثر طریقے سے کام کر سکے۔ جمہوریت کو مضبوط کرنا: منتخب نمائندوں کو فیصلے کرنے کا اختیار دینا جمہوری اقدار کو مضبوط کرے گا۔ نگرانی میں کمی: مواصلات میں کمی: عوام پر عائد نگرانی کے سخت اقدامات پر نظرثانی کی جائے اور انہیں کم کیا جائے۔ اعتماد کو فروغ دینا: نگرانی کے ماحول میں نرمی سے شہریوں اور حکام کے درمیان اعتماد بحال ہوگا۔ سیاسی آزادی کی بحالی: قیدیوں کی رہائی: ان سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا کیا جائے جنہیں بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے حراست میں لیا گیا ہے۔ مذاکرات کی حوصلہ افزائی: صحت مند مباحثے اور تنازعات کے حل کے لیے کھلی سیاسی فضا کا ہونا ضروری ہے۔ پریس کی آزادی: میڈیا پر پابندیوں خاتمہ: خطے میں مقامی اور قومی میڈیا پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ شفافیت کو یقینی بنانا: آزاد میڈیا احتساب اور باخبر شہریت کے لیے ناگزیر ہے۔ سماجی و اقتصادی ترقی: انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری: ان منصوبوں کو ترجیح دی جائے جو روزگار پیدا کریں اور عوام کے معیارِ زندگی کو بہتر بنائیں۔ ہمہ گیر ترقی: اقتصادی ترقی کا فائدہ تمام کمیونٹیز کو ہونا چاہیے تاکہ اتحادواتفاق اور ترقی کو فروغ دیاجاسکے۔ کمیونٹی کی شمولیت: سول سوسائٹی کی کوششوں کو فروغ دینا: ان تنظیموں کی حمایت کی جائے جو سماجی ہم آہنگی اور امن کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں۔ تعلیمی پروگرام: ایسے تعلیمی تبادلے اور پروگراموں کو فروغ دیا جائے جو ثقافتی اور سماجی تفریق کو کم کریں۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت جموں و کشمیر کی فلاح و بہبود کے لیے پرعزم ہے اور سمجھتی ہے کہ یہ اقدامات ایک پرامن اور خوشحال مستقبل کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان سفارشات پر سنجیدگی سے غور کرے اور تمام متعلقہ فریقوں کے ساتھ مل کر کام کرے۔ ہم جموں و کشمیر کا ایک ایسا منظرنامہ دیکھتے ہیں جہاں: ہر فرد کو بنیادی حقوق اور آزادی حاصل ہو۔ جمہوری ادارے بغیر کسی مداخلت کے کام کریں۔ میڈیا آزادی سے کام کرے اور شفافیت اور احتساب میں اپنا کردار ادا کرے۔ تمام کمیونٹیز امن، باہمی احترام اور افہام و تفہیم کے ساتھ رہیں۔ آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت پورے بھارت میں انصاف، جمہوریت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تعمیری مکالمہ اور تعاون ہماری قوم کو درپیش چیلنجوں کا حل فراہم کر سکتے ہیں۔ (پیش کردہ: جناب افتخار گیلانی) Full Coverage & Credits
ریاستی مجلس انتخاب کے ارکان نے اتفاق رائے سے صدرکاانتخاب کیا

نو منتخب صدر کا گرمجوشی سے استقبال، قومی صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ کا اظہاراطمینان نئی دہلی: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے مرکزی دفتر میںاتوار کو یہاں طے شد پروگرام کے مطابق دہلی ریاستی مسلم مجلس مشاورت کا انتخاب عمل میں آیا۔ 20 سے زائدتنظیموں کے نمائندوں سمیت مشاورت کی ریاستی مجلس انتخاب کیارکان نے اتفاق رائے سے ڈاکٹر ادریس قریشی کو صدر منتخب کیا۔مشاورت کے دستور کے مطابق دوسال کی میعاد کے لیے صوبائی صدر کا انتخاب ریاستی مشاورت اورریاست میں مقیم مرکزی مشاورت کے ارکان کرتے ہیںاورصدر اپنی صوابدیدسے مجلس عاملہ تشکیل دیتے ہیں جس کے ارکان کی تعداد کم ازکم 11 ہوتی ہے۔ انتخابی کارروائی صبح 10بجے شروع ہوئی، 3بجے تک امیدواروں کے نام کی تجویز لی گئی، اراکین مشاورت کی جانب سے تین تجاویز پیش کی گئی تھی لیکن تینوں میں صدارت کے لیے ایک ہی نام تجویز کیا گیا تھا۔حاضرین کے سامنے تجاویز کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے مشاورت کے موجودہ ریاستی صدر سید منصور آغا نے ڈاکٹر ادریس قریشی کی صدارت کے حق میں تحریک حمایت رکھی اور اراکین نے گرمجوشی سے ہاتھ اٹھا کر تائید کی۔ پھر وقت مقرر پر ریٹر ننگ آفیسر عبد الرشید انصاری اور آبزرور محمد عاکف نے نتائج کا اعلان کیا، ریٹرننگ آفیسر نے حاضرین کو بتایا کہ ہمارے پاس جو تجاویز موصول ہوئی ہیں ان میں دہلی ریاستی مجلس مشاورت کی صدارت کے لیے سبھی اراکین کی جانب سے ایک ہی نام تجویزکیا گیا ہے۔ اس لیے ڈاکٹر ادریس قریشی کو منتخب قرار دیا جاتا ہے۔ حاضرین نے تالیوں کی گڑ گڑاہٹ کے ساتھ اعلان کا استقبال کیا۔ مشاورت کے قومی صدر جناب فیروز احمد ایڈوکیٹ، دہلی ریاستی مشاورت کے سابق صدر جناب سید منصور آغا، ریٹرننگ آفیسر عبد الرشید انصاری، آبزرو محمد عاکف،ڈاکٹر تسلیم رحمانی، دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق صدر ذاکر خان اور سبھی اراکین مشاورت نے نومنتخب صوبائی صدرکومبارکباد پیش کی اورنیک خواہشات کا اظہارکیا۔ قومی صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے اس موقع پرکہا کہ دہلی ریاستی مشاورت کومزید فعال بنانے کے لیے وہ ہر ممکن تعاون کریں گے، ہماری کوشش ہے کہ ریاستی سطح پر مشاورت کو مضبوط کیا جائے، اس ضمن میں ہم نے مہاراشٹر، بہار، مغربی بنگال، جھارکھنڈ اور دہلی یونٹ تشکیل دی ہے اور اب تمل ناڈو، کیرالہ اور گجرات میں مشاورت کی اسٹیٹ یونٹ کی تشکیل کی کوششیں جاری ہیں، ہم ہندوستان کی ہر ریاست میں مشاورت کو فعال بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ دہلی مشاورت کے انتخابی عمل میں سینئر رکن مشاورت جناب سید منصور آغا صاحب کا ہرممکن تعاون حاصل رہاجس سے پرانے اور نئے ممبران کو جوڑنے میں کامیابی ملی ہے۔ دہلی مشاورت کے سابق صدر سید منصور آغا نے کہا کہ ڈاکٹر ادریس قریشی کو ہمارا ہر ممکن تعاون حاصل رہے گا جبکہ مرکزی مشاورت کے سینئر رکن ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج کے حالات میں مشاورت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ جس تنظیم کی صوبائی یونٹ مضبوط ہوتی ہے اس کا مرکز بھی زیادہ طاقتور و فعال ہوتا ہے۔ مشاورت سے وابستہ مرکزی تنظیموں کے ریاستی یونٹوں کے نمائندوں کے علاوہ جن دوسری20 اہم تنظیموں کے نمائندوں نے اس انتخابی اجلاس میں شرکت کی ان میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند، انڈین یونین مسلم لیگ،آل انڈیا ایجو کیشن مؤمنٹ،،آل انڈیا جمعیت القریش، آل انڈیا مومن کانفرنس، مومنٹ فار ایمپاورمنٹ آف مسلم انڈینس(مؤمن)، آل انڈیا مسلم او بی سی آرگنائزیشن، قریش کانفرنس (رجسٹرڈ)، اے ایم یو اولڈ بوائز ایسو سی ایشن دہلی یونٹ، اے ایم یو اولڈ بوائز ایسو سی ایشن (مرکزی یونٹ)، آل انڈیا مسلم بیک ورڈ کلا سیز فیڈریشن ، آل انڈیا مسلم ایجو کیشنل سوسائٹی، یونائیٹیڈ ویلفیئر ایسو سی ایشن، کارواں فائونڈیشن،والنٹیرس آف چینز، اوکھلا پریس کلب (رجسٹرڈ) اور دیگر تنظیمیں شامل تھیں۔ اس موقع پر قومی مشاورت کے رکن ڈاکٹر محمد شیث تیمی ، ڈاکٹر محمد فیاض،ڈاکٹر جاوید عالم خان، احمد جاوید ، مدثر حیات ایڈو کیٹ رئیس احمد ، محمد رئیس الاعظم ، محمد معین الدین ، ڈاکٹر نبیل صدیقی، محمد الیا س سیفی، مولانا نثار احمد حسینی صدر انڈین یونین مسلم لیگ صوبہ دہلی ، آصف انصاری قومی صدر یوتھ آل انڈیا مسلم لیگ، ذیشان خلیق، املاک احمد ، شیخ یامین قریشی ، رئیس اعظم خان ، عزیز الرحمن راہی ، مہتاب عالم، قاضی محمد میاں ، ڈاکٹر سید محمد فیصل ، محمد معین الدین حبیبی ، محمد فیضان رحمان، محمد معین الحق خان، عبد الجبار، معین قریشی ، رئیس احمد ، ایڈوکیٹ محمد طیب خان ، اسلم احمد ( ایڈوکیٹ سپریم کورٹ)، بدر آفاق، ڈاکٹر اطہر الہی خان ، شیر محمد ، مسرو رالحسن صدیقی ایڈوکیٹ ، سید رومان ہاشمی ، ڈاکٹر ایم اطہر الدین (منے بھارتی )، اجمیر ی سہیل ، ملک تحسین احمد ، محمد عرفان ، سنوبر علی ایڈوکیٹ، عبد الرحمان ، منصور عالم ، مشتاق انصاری ، ابرار محسن ، محمد عاطف، سید عشر ت علی ، محمد خالد اور کبیر خان وغیرہم شامل تھے۔ Full Coverage & Credits
اے جی نورانی کے انتقال سے ملک و ملت نے ایک عظیم دانشور کو کھو دیا:مشاورت

روزنامہ قومی بھارت بتاریخ: 30 اگست2024 Full Coverage & Credits
اے جی نورانی کے انتقال سے ملک و ملت نے ایک عظیم دانشور کو کھو دیا:مشاورت

روزنامہ سہارا بتاریخ: 30 اگست2024 Full Coverage & Credits
اے جی نورانی کے انتقال سے ملک و ملت نے ایک عظیم دانشور کو کھو دیا:مشاورت

ممتاز ماہر قانون اور بالغ نظر مصنف و مبصر اے جی نورانی کے انتقال پر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے گہرے رنج و ملال کا اظہارکیا نئی دہلی: ممتاز ماہرقانون، اور بالغ نظر مصنف و مبصر اے جی نورانی کے انتقال پر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے گہرے رنج و ملال کا اظہار کیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ مرحوم کی رحلت سے ملک و ملت نے ایک بے لوث خادم کو کھو دیا۔ صدر مشاورت فیروز احمد ایڈو کیٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ مرحوم اے جی نورانی نے اپنی زندگی جمہوری قدروں کے فروغ اور دستور کی نگہبانی میں لگائی۔ وہ بیش قیمت دستاویزی کتابوں کے مصنف تھے،ان کا شمار حقوق انسانی کے سب سے بڑے علمبرداروں میں ہے۔صدر مشاورت نے کہا کہ وہ ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے جن کی کمی بہت دیر تک محسوس کی جائے گی۔ پروردگار ملک و ملت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور مرحوم کی مغفرت فرمائے۔آمین Full Coverage & Credits