ظلم کے خلاف مظلوموں کے اتحاد پر زور ٭بریلی کے حالیہ فساد،گجرات،آسام، یوپی، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ اوردیگر ریاستوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے پرغم وغصہ٭مولانا توقیررضاخاں کی گرفتاری اور بریلی کے مسلمانوں پربلاجواز کارروائی کی مذمت اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ٭ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو درپیش خطرات سے ڈٹ کر لڑنے کے عزم کا اعادہ٭ اقلیتوں کی کل ہندکنونشن بلانے کا فیصلہ٭ ملک کے مختلف مقامات سے آئے ارکان و مندوبین نے تجاویزپربحث میں حصہ لیا٭جملہ قراردادیں اورسال رواں کابجٹ اتفاق رائے سے منظور

نئی دہلی: ملک و ملت کو سنگین مسائل کا سامنا ہے، ہندوستان کی جمہوریت خطرے میں ہے، ہرطرف خوف و دہشت کا ماحول ہے جس کا مقابلہ ہمیں اٹوٹ اعتماد اور بے خوفی سے کرنا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ہفتے کو یہاں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے مشاورت کی مجلس عاملہ اور جنرل باڈی کے مشترکہ اجلاس میں کیا۔انہوں نے کہا کہ ہمارا سب سے طاقتور ہتھیار ووٹ ہے او ر نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اب اس کو بھی کمزور کرنے بلکہ کمزور وں سے یہ طاقت چھین لینے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔نہایت ڈھٹائی کے ساتھ ایس آئی آر کو ووٹ کاٹنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مظلوموں کو سرجوڑ کر بیٹھنے اور اتحاد سے کام لینے کی ضرورت ہے۔صدر مشاورت نے اس کے لیے نومبر کے آخر یا دسمبر کے اوائل میں کل ہند کنونشن بلانے کی تجویزرکھی جبکہ مشاورت کے نائب صدر مولانا اصغرعلی امام مہدی سلفی نے کہا کہ آج یہ ملت ہمیشہ سے زیادہ بے ترتیب اور بے تربیت ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم پہلے اپنے نوجوانوں کی تربیت کریں، پھر ان کو آگے بڑھائیں۔سابق رکن پارلیمنٹ سید عزیز پاشا نے کہا کہ مشاورت کو کشمیر سے کنیا کماری تک ہرجگہ مضبوط اور فعال کرنے کی ضرورت ہے اور سابق رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی نے زور دیا کہ مشاورت کو پوری طاقت سے میدان عمل میں اترنا ہوگااور ہمیں ہرقربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ جبکہ پروفیسر بصیر احمدخاں نے مشاورت میں زیادہ سے زیادہ جماعتوں اور ہر چھوٹی بڑی تنظیم کے نمائندوں کو شامل کر نے پر زور دیا اور ڈاکٹر انوارالاسلام نے کہا کہ مشاورت کو تنظیمی امور اور اختلافات سے نکل کر اس کے اصل مینڈیت اور منشور پرآنا چاہیے۔ہارون الرشید(مرشدآباد)، محمد احمدمومن(اورنگ آباد)، عبد القیوم خاں (سرینگر)اورپروفیسر عاقل علی سید (گجرات) نے مشاورت کو زمینی سطح تک فعال اور میڈیا میں موجود بنانے کی تجاویز پیش کیں جبکہ انڈین یونین مسلم لیگ کے سکریٹری محمد آصف نے مشورہ دیا کہ مشاورت کو چاہیے کہ سیاسی پارٹیوں سے بھی ملاقات کرے اور ان کے لیڈروں کو بھی تبادلہ خیال کے لیے بلائے۔اجلاس نے ملک و ملت کے مسائل پر ایک درجن سے زائد قراردادیں منظور کیں۔ جن میں فرقہ وارانہ تشددکے بڑھتے رجحانات کی مذمت، مظلوموں کے اتحاد پر زور، بریلی کے حالیہ فساد،گجرات،آسام، یوپی، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ اوردیگر ریاستوں میں سرکاری مشینری کے ذریعے مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے پر اظہارتشویش کیاگیااور مطالبہ کیا گیا کہ متاثرین کے نقصانات کی تلافی کی جائے۔مشاورت نے اتحاد ملت کونسل کے صدرمولاناتوقیررضاخاں کی نظر بندی کی مذمت کرتے ہوئے ان کی نقل و حرکت پر ہرقسم کی پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا۔اجلاس نے آسام، یوپی،مدھیہ پردیش، اتراکھنڈ اور ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کو نشانہ بناکر کی جارہی ماورائے قوانین و ضوابط انہدامی کارروائیوں اور مدارس و مساجد پر بلڈوزر چلائے جانے کو آئین و قانون کی پامالی قرار دیا اور اسی طرح’آئی لومحمد پوسٹر‘ کو لے کرکانپور اور بریلی میں پولیس کی بلاجواز کارروائیوں کو انتہائی مذموم اور ناقابل برداشت کہا۔ یہ تجاویز مشاورت کے نائب صدر نوید حامد اور جنرل سکریٹری شیخ منظور احمدنے پیش کیں جبکہ سابق سفیر ہنداور رکن مشاورت پروفیسرذکرالرحمٰن نے بین الاقوامی امور پر قرارداد پیش کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور اجلاس نے اتفاق رائے سے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی اور کہا کہ دنیا کے197ممالک میں اقوام متحدہ کے 157 ممالک کا فلسطین کو آزادمملکت تسلیم کرنا امید کی ایک کرن ہے۔اجلاس نے کہا کہ ہم فلسطین کے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اجلاس کی کارروائی کا آغاز رکن مشاورت مولانا اظہر مدنی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ صدر مشاورت کے افتتاحی کلمات کے بعد مولانا ڈاکٹرمحمد شیث تیمی نے ملت کے مرحومین کے لیے قرارداد تعزیت پیش کی اور حاضرین اجلاس نے ان کی مغفرت کی دعاکی۔
مشاورت کے جنرل سکریٹری(مالیات) جناب احمد رضا نے 26- 2025 کا بجٹ پیش کیا جس کو اجلاس نے اتفاق رائے سے منظور کرلیا جبکہ جنرل سکریٹری (میڈیا) جناب احمد جاوید نے کارروائی رپورٹ پیش کی جس میں گزشتہ ایک سال کی کارکردگی کا جائزہ پیش کرتے ہوئے مشاورت کی کاوشوں،اسے درپیش چیلنجز اور اس کی پیشرفتوں کا احاطہ کیا گیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشاورت نے ایک ایسے وفاق اور ایک ایسی چھتری کے طور پراپنے کردارکو برقرار رکھاہے،جس نے مختلف مسلم تنظیموں، علما، دانشوروں اور سماجی کارکنوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم دیا۔رکن تنظیموں کے ساتھ باقاعدہ رابطہ قائم رکھا گیا تاکہ قومی و ملی مسائل پر مشترکہ موقف اپنایا جا سکے اورنئے اداروں سے روابط بڑھانے اور انہیں مشاورت سے جوڑنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ محدود مالی وسائل مشاورت کی سرگرمیوں کو بڑھانے کی راہ میں حائل ہیں۔رکن تنظیموں کے درمیان مزید بہترروابط و ہم آہنگی قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص ہردن بدلتی سیاسی و سماجی صورت حال کے پیش نظر اس پر زیادہ توجہ اور وافروسائل درکار ہیں اور یہ بھی کہ ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ منافرت،پولرائزیشن، تشدد کے رجحانات اور شہری آزادی کی روزافزوں کمی ہمارے سامنے ہمیشہ سے زیادہ اور بڑی چیلنجزز ہیں۔ رپورٹ میں اس پر زور دیا گیا ہے کہ مشاورت کی اساس قرآن کی ان ہدایات پر ہے کہ ’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرواور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں کسی کے مددگار نہ بنو‘اور یہ کہ”اپنے اندرکے خطاکاروں کومعاف کردو، ان کے لیے مغفرت طلب کرو اور ان سے مشورہ کرو، پھر جب ارادہ کر لو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ بیشک اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے“۔
اجلاس کا اختتام صدر مشاورت کے اختتامی کلمات اور نائب صدر مولانا اصغرامام مہدی سلفی کی دعا پر ہوا۔ دیگرشرکائے اجلاس میں دہلی مشاورت کے صدرڈاکٹر ادریس قریشی، مہاراشٹر مشاورت کے سکریٹری جنرل محمداحمدمومن(اورنگ آباد)، جھارکھنڈ مشاورت کے کنوینرخورشید حسن رومی(رانچی)،حاجی شکیل احمد(جھارکھنڈ)،ابرار احمد،آئی آر ایس(ریٹائرڈ)دہلی، پروفیسر بصیراحمدخاں (دہلی)، انجینئرسکندر حیات (دہلی)،عبدالخالق انصاری(دہلی)، وقار احمد (لکھنو)، عبدالقیوم خاں (سرینگر)،مولانا محمد سالم (مرادآباد)،محمدآفتاب عالم (دہلی)،محمد مرتضیٰ(دہلی)، پروفیسر عاقل علی سید(گجرات)، پروفیسر ابوذر کمال الدین، صدر، بہار مشاورت اور پروفیسر وسیم احمدخاں (دہلی) کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔
مشاورت کے اجلاس میں منظورقراردادوں کے اہم اقتباسات:
بریلی میں پرامن مظاہرین کے خلاف پولیس کی بلاجوازکارروائی کی مشاورت سخت مذمت کرتی ہے۔ مظاہرین کا واحد نعرہ“آئی لو محمد ﷺ”تھا۔ یہ کارروائی ان کے بنیادی حقوق—آزادیِ مذہب، آزادیِ ضمیر اور پرامن اجتماع—کی صریح خلاف ورزی ہے۔ مولانا توقیر رضا خان کی نظر بندی اور گرفتاری کی بھی مذمت کرتی ہے اور اسے ایک سینئر مذہبی رہنما کی توہین اور اختلاف کی آواز کچلنے کی کوشش قرار دیتی ہے۔مشاورت مشاورت کا مطالبہ ہے کہ پرامن مظاہرین پر قائم تمام جھوٹے اور سیاسی مقدمات واپس لیے جائیں۔مولانا توقیر رضا خان پر تمام غیر ضروری پابندیاں ختم اور ان کی آزادی بحال کی جائے۔ پولیس کو واضح ہدایات دی جائیں کہ وہ پرامن مذہبی مظاہرے کے معاملات میں صبر و تحمل، احتیاط اور حساسیت کا مظاہرہ کرے۔مشاورت قومی انسانی حقوق کمیشن (NHRC) اور اقلیتی کمیشن سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس واقعے پر ازخود نوٹس لیں اور بریلی میں ریاستی طاقت کے غلط استعمال کی تحقیقات کریں۔مشاورت خبردار کرتی ہے کہ پرامن مظاہرین کے خلاف بار بار طاقت کے استعمال سے نہ صرف بھارت کے سیکولر اور جمہوری ڈھانچے کو نقصان پہنچے گا بلکہ یہ ایک خطرناک مثال قائم کرے گا جس میں آئینی آزادی کو بے معنی کر دیا جائے گا۔
اوقاف پر سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے پرمشاورت اور تمام رکن تنظیمیں مایوسی کا اظہار کرتی ہیں کیونکہ یہ وقف اداروں کو مکمل آئینی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ مشاورت یہ مطالبہ دہراتی ہے کہ وقف ترمیمی ایکٹ کو مکمل طور پر منسوخ کیا جائے، کیونکہ یہ آئین کے بنیادی اصولوں اور اقلیتوں کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔مشاورت مطالبہ کرتی ہے کہ وقف ایکٹ 1995 (ترمیم 2013) کے فریم ورک کو بحال کیا جائے، جس نے وقف بہ استعمال کو تسلیم کیا اور ادارہ جاتی اختیارات کو متوازن بنایا۔مشاورت مطالبہ کرتی ہے کہ وقف بورڈز کو فوری بے دخلی (summary eviction) کے وہی اختیارات دیے جائیں جو ہندو مندر بورڈز کے پاس ہیں تاکہ ایک بار عدالتی حکم آنے کے بعد قابضین کو فوراً ہٹایا جا سکے۔مشاورت مطالبہ کرتی ہے کہ وقف ایکٹ 1995 کی دفعات 54 اور 55 کو مزید سخت اور مؤثر بنایا جائے تاکہ عدالت کے حکم کے بعد غیر قانونی قابضین کو فوری طور پر ہٹایا جا سکے۔مشاورت مزید مطالبہ کرتی ہے کہ ایسے افراد—خواہ سیاست دان ہوں یا سرکاری اہلکار—جو وقف جائیدادوں کا غلط استعمال کریں، ان کے خلاف سخت قوانین بنائے جائیں اور ان کو حقیقی احتساب کے دائرے میں لایا جائے۔
مشاورت اعلان کرتی ہے کہ غیر مسلم اراکین اورسی اوز CEOs کی شمولیت وقف اداروں کے مذہبی تشخص کو کمزور کرتی ہے، لہٰذا ان دفعات کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ مشاورت اس پر زور دیتی ہے کہ وقف کے لیے ہر قانونی ڈھانچہ آئین کے آرٹیکل 29 اور 30 کی بنیاد پر بنایا جانا چاہیے تاکہ اقلیتیں اپنے اداروں کا انتظام آزادانہ طور پر کر سکیں۔ مشاورت کا یہ اجلاس اعلان کرتا ہے کہ وقف کے تحفظ کی جدوجہد محض جائیداد کے بارے میں نہیں بلکہ مذہبی شناخت، تہذیبی بقا اور آئینی حقوق کے تحفظ کے بارے میں ہے۔مشاورت اور تمام ملی تنظیمیں اس پر پرامن، جمہوری اور قانونی جدوجہد جاری رکھیں گی یہاں تک کہ وقف ترمیمی ایکٹ مکمل طور پر منسوخ ہو اور ایک ایسا فریم ورک تشکیل پائے جو وقف کے تقدس، خود مختاری اور بقا کو یقینی بنائے۔
ایس آئی آر پرمشاورت اس بات کی سخت مذمت کرتی ہے کہ نظرثانی (SIR) کے عمل میں جائز اور مستحق شہریوں کے نام بلاجواز خارج کیے جائیں۔ خاص طور پر تارکینِ وطن مزدوروں، بے گھر افراد اور غریب و ناخواندہ شہری اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ لہٰذا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ووٹرکی فہرستوں سے متنازعہ طور پرکسی بھی نام کو خارج کرنے پر فوری روک لگائی جائے۔ ہم الیکشن کمیشنِ اور ریاستی چیف الیکٹورل افسران سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فہرست سے نام خارج کرنے کے تمام اصول اور طریقہ کار عوام کے سامنے مشتہر کیے جائیں۔ کوئی بھی نام بغیر تحریری اطلاع اور مناسب اعتراض و دعویٰ کی کارروائی کے بغیر خارج نہ کیا جائے۔ بلاجواز خارج شدہ نام فوری طور پر بحال کیے جائیں اور متاثرہ ووٹروں کو عبوری ووٹر پرچی یا متبادل سہولت فراہم کی جائے تاکہ وہ ووٹ ڈال سکیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مہاجرین دوست اقدامات اختیار کیے جائیں۔ فیکٹریوں، تعمیراتی مقامات، منڈیوں، ریلوے اسٹیشنوں اور مہاجر بستیوں میں موبائل رجسٹریشن ٹیمیں تعینات کی جائیں۔آسان زبانوں میں فارم اور ناخواندہ شہریوں کے لیے امدادی ڈیسک قائم کیے جائیں۔ دستاویز کی کمی کی صورت میں راشن کارڈ، آجر کا سرٹیفکیٹ، اسکول و اسپتال کے کاغذات وغیرہ کو بھی تسلیم کیا جائے۔ انتخابی کمیشن عوام کو واضح پیغام دے کہ کوئی مستحق شہری رائے دہی سے محروم نہیں ہوگا اور اس کے لیے عوامی بیداری مہم چلائے۔
مشاورت سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کے اداروں اور سول سوسائٹی سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اس معاملے میں غریب اور کمزور طبقات کے ساتھ یکجہتی دکھائیں اور انتخابی عمل کو تعصب و امتیاز سے پاک رکھیں۔ مشاورت کا یہ عام اجلاس اعلان کرتا ہے کہ جمہوریت کی اصل روح عوامی شمولیت میں ہے، نہ کہ ووٹروں کو فہرستوں سے خارج کرنے میں۔ مشاورت اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ ہراہل شہری خصوصاً مہاجرین، بے گھر افراد اور غریب و ناخواندہ طبقات کے حقِ رائے دہی کا تحفظ ہر سطح پر کیا جائے گا۔
اتر پردیش اور بی جے پی کی حکمرانی والی دیگرریاستوں میں تعزیری کارروائیوں کے لیے بلڈوزر کے استعمال پرآل انڈیا مسلم مجلس مشاورت شدید احتجاج کرتی ہے اور ایسی کارروائیوں کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ جائیداد کے تنازعات یا تجاوزات کے حوالے سے کسی بھی قانونی کارروائی کو طے شدہ قانونی اصولوں کے مطابق مناسب طریقہ کار پر عمل کرنا چاہیے۔ ہم ایک آزاد عدالتی کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ دوہراتے ہیں جو ماضی کے انہداموں کی قانونی حیثیت اور بے گناہ شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کی تحقیقات کرے۔ کمیشن متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ اور بحالی فراہم کرے جہاں خلاف ورزیاں ثابت ہوں۔ مشاورت ریاستی حکومتوں پر زور دیتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جائیداد سے متعلق کسی بھی کارروائی کو قانون کی حکمرانی کے تحت مناسب قانونی کارروائی، منصفانہ سماعت، اور اپیل کے مواقع کے ساتھ سختی سے انجام دیا جائے۔ ایسے معاملات میں جہاں غیر قانونی طور پر مسماری کی گئی ہو، متاثرہ شہریوں کو معاوضہ دیا جائے، اور ان کی جائیدادوں کی بحالی یا متبادل انتظامات کرنے کی کوشش کی جائے۔ مشاورت پسماندہ کمیونٹیز کو غیر متناسب طور پر نشانہ بنائے جانے سے بچانے کے لیے اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے۔ ریاستی حکومتوں کو یقینی بنانا چاہیے کہ فرقہ وارانہ یا نسلی تعصب انتظامی کارروائیوں پر اثر انداز نہ ہو۔
مشاورت قومی اتحاد اور سماجی ہم آہنگی کے نظریات پر کاربند رہتے ہوئے ناانصافیوں اور آئینی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سامنے خاموش نہیں رہ سکتی۔’بلڈوزر رول‘ آمریت اور مطلق العنان ریاستی اقتدار کی طرف ایک خطرناک پیش قدمی کی نمائندگی کرتا ہے، اور یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم ایسے اقدامات کی مزاحمت کریں جو ہندوستانی جمہوریت کے تانے بانے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہم ان انہدام کے متاثرین کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں اور انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ آئیے ہم ایک ایسے مستقبل کے لیے کام کریں جہاں ہر شہری چاہے مذہب یا پس منظر سے تعلق رکھتا ہو، قانون کے سامنے وقار، تحفظ اور برابری کے ساتھ رہ سکے۔