اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور مسلم ممالک کی بے بسی پراظہار تشویش

آل انڈیامسلم مجلس مشاورت میں ”اسرائیلی جارحیت،مشرق وسطی کی صورت حال اور اس کے بعد“کے موضوع پرمذاکرہ، دانشوران و قائدین ملت کا تبادلہ خیالات نئی دہلی:اس وقت غزہ میں وحشت وحیوانیت کی جو تاریخ لکھی جارہی ہے،اس نے بے رحمی کی ساری مثالوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔فلسطین کی عورتوں بچوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں، وہ انتہائی انسانیت سوز ہیں۔اس جنگ نے اس تصورکو تبدیل کردیا ہے کہ یہودی ایک مظلوم قوم ہے۔جو مظلوم تھا آج سب سے بڑا ظالم بن گیا ہے۔دوسرا پرسپشن اس جنگ نے یہ توڑ دیا کہ اسرائیل ناقابل شکست ہے۔ایران کے میزائلوں نے مایوسی کی تاریکیوں میں امید کی کرن پیدا کرنے کی ایک بہترین مثال دی ہے۔ان خیالات کا اظہار ہفتے کو یہاں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے زیر اہتمام سید شہاب الدین یادگاری مذاکرہ میں حصہ لیتے ہوئے ملک کے سرکردہ مسلم دانشوران و قائدین نے کیا۔ وہ ”اسرائیلی جارحیت،مشرق وسطی کی صورت حال اور اس کے بعد“کے موضوع پرمذاکرہ میں شریک تھے۔موضوع پراپنے تعارفی کلمات میں سینئر صحافی اور مشاورت کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن سید منصور آغا نے کہا کہ مشرق وسطی کی صورت حال پر مسلم قوموں کی خاموشی انتہائی تشویشناک ہے۔انہوں نے ایران پر اسرائیل کے حملے کو ایک دھوکے کی کارروائی کہتے ہوئے کہا کہ ایران نے خود کو عبادات تک محدود نہیں رکھا، ان آیات کو بھی پڑھا ہے جو کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں۔ جبکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان اور سینئرصحافی سید قاسم رسول الیاس نے قرآن کریم کے حوالے سے کہا کہ دنیا نے بارہا دیکھا ہے کہ چھوٹی سی تعداد کثیرجماعت پر غالب آجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1979ء میں ایران کا اسلامی انقلاب ایک تاریخ ساز واقعہ تھا۔ دوسرا ایسا ہی ناقابل یقین واقعہ1989ء میں افغانستان میں روس کے مقابلے پر مجاہدین اسلام کی فتح تھی۔ اب فلسطین کے لوگوں نے اپنے ایمان کی طاقت سے ثابت کیا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ ان کے شہروں کو تباہ کرسکتے ہیں، ہزاروں لوگوں کو ہلاک کرسکتے ہیں، بچوں اور عورتوں کو مار سکتے ہیں، بھوک اور پیاس کو ہتھیار بنا سکتے ہیں لیکن ان کے حوصلے کو نہیں توڑ سکتے۔ میڈیا اسٹار کے ایڈیٹر محمداحمدکاظمی نے کہا کہ12 دن کی اس جنگ نے مشرق وسطی میں طاقت کا توازن تبدیل کردیا۔انہوں نے کہا کہ یہ جنگ صرف میزائلوں کی نہیں تھی نظریاتی جنگ بھی تھی، جس میں امریکہ اور اسرائیل کی شکست ہوئی ہے۔ایران نے جو میزائل داغے وہ میزائیل ہی نہ تھے، ایک پیغام تھے۔امریکہ کو مجبور کردیا کہ اسرائیل فرسٹ کی پالیسی ترک کرے، اس جنگ کے نتیجے میں ایران ایک گلوبل پاور بن گیا۔ انہوں نے یوروپی، امریکی اور خود اسرائیلی ماہرین دفاع اور تجزیہ نگاروں کی آراکی روشنی میں بتایا کہ اس وقت مغربی دنیا اسرائیل اور ایران کے تعلق سے کیا سوچ رہی ہے۔ سینئرصحافی اور بین الاقوامی امور کے ماہرقمرآغا نے شرکائے مذاکرہ کو تفصیل سے بتایا کہ اس جنگ کی سب سے بڑی وجہ ابراہم اکارڈ تھا۔ فلسطینیوں کو یہ لگا کہ ان کی قیدمستقل ہوجائیگی۔عرب ملکوں کے ذریعے ان کی جانوں کا سودا کیا جارہا ہے۔یہ تاریخ میں پہلا واقعہ تھا کہ فلسطینی مجاہدین نے اسرائیل کو اس کے اندر گھس کریرغمال بنالیا اور گھنٹوں یرغمال بنائے رکھا اور وہ آج تک اپنے قیدیوں کی رہائی نہیں کراسکے ہیں۔اسرائیل پہلے صرف اپک لینڈ کی بات کرتا تھا، اب وہ گریٹر اسرائیل بنانے کا دعوی کر رہے ہیں۔پورے خطے کو خالی کرارہے ہیں۔اسرائیل ہتھیاروں سے جنگ جیت نہ سکا تو بھوک پیاس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایران کی پالیسی تھی کہ اسرائیل کو کسی بھی قیمت پر ارریلیونٹ بنادو اور اس نے ایسا ہی کیا۔ میزائل اور ڈرونز اس نے اس لئے بنائے کہ یہ سستے تھے۔ایران کو بمبارطیارے دینے کو کوئی تیار نہ تھا، انہوں نے کہا کہ آج کا ایران مایوسی سے امید پیدا کرنے کی بہترین مثال ہے۔ مشہور اسلامی اسکالرڈاکٹر جاوید جمیل نے کہا کہ ایران کاانقلاب اسلامی تاریخ کا ایک اہم ترین واقعہ تھا۔ اللہ نے قرآن میں عربوں سے کہا ہے کہ اگر اللہ کی راہ میں تم نہ نکلے تو ہم کسی اور قوم کو لے آئیں گے اور ایران عالم اسلام کے امید کی کرن بن کر ابھراجبکہ ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کہا کہ مونارکی اس خطے میں فلسطین کے تنازع کی بدولت زندہ ہے۔ یوم قدس منایا جانے لگا تو منافقین کھل کرسامنے آئے ورنہ 1967 کی جنگ کے بعد مسئلہ فلسطین دب گیا تھا اور عرب ممالک چین کی نیند سو رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ 7 اکتوبر کے بعد جو ہزاروں فلسطینی شہید ہوئے ہیں ان کے خون کی قیمت کا اندازہ دنیا کواس وقت ہوگا، جب غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں گی۔ انہوں نے کہا کہ شام کا صدرجولانی اگر مزاحمت کے لیے تیار نہیں ہے تو اس کی قیمت پورے مشرق وسطی اور عالم اسلام کو چکانی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ ہم اہل غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ہماری تمام تر ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔جبکہ پروفیسراخترالواسع نے کہا کہ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ گریٹر اسرائیل نہیں بنناہے۔انہوں نے فلسطین مملکت کو تسلیم کرنے کے فرانس کے اعلان پر سعودی عرب کے ردعمل کوچشم کشا بتایا اور کہا کہ ہمیں مسلکوں کے جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ چیزیں وقت کے ساتھ بدلیں گی۔ مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے شرکائے مذاکرہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم آئندہ بھی اس طرح مفیدو معلومات افزا مذاکرات اور کنونشن کا اہتمام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطی کی صورت حال تشویشناک ضرور ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ فرانس اور دوسرے ممالک فلسطین اور ایران کی حمایت میں آرہے ہیں، دنیا بھر میں انسانیت کی پامالی خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ کسی تفریق و تعصب سے بالاترہوکر انسانوں پر مظالم کے خلاف کھڑے ہوں۔ انسانوں پر ظلم و بربریت کو کسی فرقے یا مذہب کا مسئلہ نہ بننے دیں۔ظلم اور ناانصافی انسانیت کے ماتھے کا داغ اور پورے بنی نوع انسان کا مسئلہ ہے۔ اس موقع پر پروفیسر بصیر احمد خان اور ایڈو کیٹ