آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت پر قبضہ کرنے کی مذموم سازش کے جواب میں مکتوب بنام ارکان و ہمدردان مشاورت

آستینوں میں چھپالیتی ہے خنجر دنیا                                                                                                                                                 اورہمیں چہرے کا تاثر نہ چھپانا آیا ملک میں اپنی نوعیت کی واحدتاریخی تنظیم” آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت” کا قیام  1964 میں مسلم جماعتوں کے مشترکہ پلیٹ فارم کے طورپر جن حالات     میں ہوا تھا،آج ہمارے سامنے ان سےکہیں زیادہ مشکل حالات ہیں اورکسی ذی شعورمسلمان کو احساس دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اتحادویکجہتی کی قدروقیمت کیاہے۔پھربھی ہمیں مشاورت کے معزز ارکان کو یہ خط لکھنا پڑرہا ہےجوانتہائی تکلیف دہ ہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے سابق صدر اور سابق رکن ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں صاحب نےارکان مشاورت کوخط لکھ کرایک بار پھر اختلاف و انتشارکوہوادینے اور غلط فہمیاں پیداکرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس سے زیادہ افسوس کی  بات یہ کہ وہ رجسٹرڈ مشاورت کا صدر ہونے کے دعویدارہیں اور لوگوں کو مشاورت کارکن بنانے کے نام پر چندہ کی مہم چلارہے ہیں جوان کا سراسر بےبنیاد دعویٰ اورگمراہ کن فعل ہے۔  اول تو اس گروپ کا جس نےاس وقت کےصدر مشاورت سید شہاب الدین مرحوم کی مخالفت میں مشاورت سےالگ ہوکر 2003میں سوسائٹی رجسٹرڈکرائی تھی، 2013میں اصل مشاورت کے ساتھ باضابطہ انضمام ہوچکا ہے اور رجسٹریشن کے اصل کاغذات ہماری کی تحویل میں ہیں،لہٰذا ایسی کسی سوسائٹی کا کوئی علاحدہ یامتوازی وجود اب کہیں باقی نہیں ہے۔خودراقم السطور شیخ منظوراحمدکوبھی اسی رجسٹرڈمشاورت نے رکنیت دی تھی اوراسی انضمام و اتحادکے نتیجے میں یہ حقیراب آل انڈیامسلم مجلس مشاورت کاحصہ ہے ۔دوم ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں 2022 سے مشاورت کے رکن بھی نہیں ہیں، تادیبی کارروائی کے تحت موصوف کی رکنیت منسوخ ہوگئی تھی کیونکہ انہوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے مشاورت اور اس کی جائیدادوں پر مستقل قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی جس کی تفصیلات ارکان مشاورت کے علم میں ہیں۔ مشاورت کے تنظیمی امور میں مداخلت کا کوئی حق آں موصوف کو نہیں پہنچتا، ان کی یہ سرگرمیاں سراسر ناجائز اور قانوناً قابل مواخذہ ہیں۔وہ اور ان کے پیچھے جولوگ بھی ہیں مشاورت میں رجسٹرڈ سوسائٹی کے انضمام واتحاد کوتباہ کرنے کی مذموم سازش اورذاتی مفادات کےحصول کے لیے مشاورت کوناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں جوان شاء اللہ کامیاب نہیں ہوگی۔ضرورت ہے کہ ان عناصر کی سازشوں کا قلع قمع سختی سے کیا جائے ورنہ اتنا تفصیلی خط لکھنا اور آپ کو زحمت توجہ دینا کوئی خوشگوار عمل نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مکتوب (مرقومہ29اپریل 2024 ) کے ذریعے ارکان مشاورت کی میٹنگ بلائی ہےاورلوگوں کو ورغلانے کے لیےانہوں نے مشاورت پر اپنےبےبنیادسنسنی خیز الزامات کا اعادہ کیا ہے،مثلاً دستور مشاورت میں منمانی ترمیمات کی گئیں،مشاورت سے 70 ارکان کو نکال باہر کیاگیا اور غیرمعیاری لوگوں کو مشاورت کی رکنیت دی گئی جبکہ ان کا ایک بھی دعوی حقیقت سےقریب نہیں ہے۔ڈاکٹر خان کے دعووں کی دستاویزی تردیدمشاورت کے کاغذات میں موجود ہے ۔وہ اپنے زیرنظر مکتوب میں اپنی تحریروں، تقریروں اور مشاورت کی کارروائیوں میں موجود ان مندرجات کے برخلاف دعوے کررہے ہیں جن پر ان کے دستخط موجود ہیں ۔زیرنظرمکتوب میں آپ ان کی نکات وارتفصیلات د یکھ سکتے ہیں۔   جیساکہ آپ جانتے ہیں،مشاورت کے دستور میں کبھی کوئی منمائی ترمیم نہیں کی گئی اور ایسا کرناممکن بھی نہیں ہے۔اگریہ ممکن ہوتاتو ڈاکٹرصاحب موصوف اپنے دور صدارت کے آخری ایام میں ترمیم لانے کی جوکوشش کررہے تھے، ناکام نہ ہوتی ۔دستورمیں جو ترامیم آخری بار لائی گئی ہیں،ان  میں ہرترمیم کو 67 فیصد سے 81 فیصد تک ارکان مشاورت کی تائید حاصل ہے اورترمیم شدہ دستور کے نفاذ کے بعد مشاورت کی مجلس عاملہ کے انتخابات (برائےمیقات 2026-2023 ) میں 85 فیصد سے زیادہ ارکان نے حصہ لیا اور منصب صدارت کے لئے دو امیدواروں کے درمیان دوستانہ مقابلہ میں منتخب امیدوار کو تقریباً 57 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ڈاکٹر صاحب موصوف کااعتراض ان کے آمرانہ مزاج کا اشتہار اورایک انتہائی غیرجمہوری فعل ہے۔ دستور میں ترمیم یا اس کی کسی شق پر اختلاف رائے کو مسئلہ بناکر انتشار کو ہوا دینا ہر گز کوئی دانشمندی نہیں ۔جو لوگ بھی اس طرح کے کام کررہے ہیں،مسلمانوں کے اتحاد اور ملی تنظیموں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ مشاورت ایک جمہوری تنظیم ہے اور دستور مشاورت میں ترمیم و تصحیح کا دروازہ ہر وقت کھلا ہواہے ۔ ارکان مشاورت جب چاہیں دستور میں مذکور ضوابط (Due  process)کے تحت ایسا کر سکتے ہیں ۔ اگر دستور کی کسی شق پر کسی کے پاس کو ئی معقول اعتراض ہے تو وہ اپنی تجاویز مشاورت میں پیش کرے نہ کہ لوگوں کو ورغلاکر جتھے بنائے اوران کے دلوں میں وسوسے ڈالے۔ جن ارکان کی رکنیت دستورمشاورت کی روشنی میں ان کی عدم فعالیت اور ڈفالٹ کی بناپر منسوخ ہوئی تھی، ان کے تعلق سےڈاکٹر ظفرالاسلام خان صاحب نے اپنے خط میں دعوی کیا ہے کہ 70 ارکان کا مشاورت سے اخراج کردیا گیا جبکہ غیرفعال ارکان کی رکنیت منسوخ کرنے کی قرارداد خود ان کی اپنی صدارت میں منعقدہ مشاورت کی جنرل باڈی اور مجلس عاملہ کی 5 ِ دسمبر 2015ء کی مشترکہ میٹنگ میں منظورکی گئی تھی اوربالآخر 12 فروری 2017 کی جنرل باڈی میٹنگ میں جس میں ڈاکٹر ظفرالاسلام خان صاحب بنفس نفیس موجود تھے اور اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ ان ایکٹیو ارکان کا اخراج ہو، یہ طے کیا گیا تھاکہ فی الحال ایسے 14 ان ایکٹو (غیر فعال) ارکان کا اخراج کیا جائے۔ غیر فعال  ارکان کا معاملہ اکتوبر 2018 کی حیدرآباد میں منعقد جنرل باڈی میٹنگ میں بھی زیر بحث آیا اور پھر27ِ فروری 2021 کوبھی اس معاملے پر آسام سے رکن جناب حافظ رشید احمد چودھری صاحب(جن کی حمایت کےڈاکٹرصاحب دعویدارہیں) کی تحریری قرارداد میٹنگ میں پیش ہوئی۔دستور کی متعلقہ شقوں اور قراردادمشترکہ اجلاس (5دسمبر2015) کی روشنی میں اس پرکارروائی کے نتیجے میں جن غیر فعال ارکان کی رکنیت منسوخ کی گئی، ان کی

Mushawarat condemns the notification of rules for contentious CAA (2019)

Mushawarat condemns the notification of rules for contentious CAA (2019) New Delhi: All India Muslim Majlis e Mushawarat, the apex body of India’s Muslim and only federation of renowned Muslim organisations and prominent citizens, expressed its deep concerns over the controversial decision of the Modi government of the implementation of the contentious CAA 2019 by notification of the rules for it just before the announcement of the ensuing general elections in the country. The decision is divisive in nature, taken for political benefits, and with a purpose to distract from the failure on different fronts. The government has taken the controversial decision to notify the rules for contentious law in spite of it being challenged in the Supreme Court of India by various groups of concerned civil society groups. Mushawarat is of the firm opinion that the decision once again had not only exposed the communal politics of dividing people on sectarian lines but will also open the avenues for a large scales of influx of illegal Bangladeshi immigrants in the North Eastern states which will undoubtly endanger the demography of the indegenious population of these states. Furthermore, the large scale of influx of refugees from the neighboring countries will be a burden on the India’s economy and will further squeeze employment avenues for the youths of the country who are already forced to opt for risky jobs and migrate to war zones in Israel & Russia. Instead of  working to chalk out plans to dissuade educated and skilled youths on whom a good percentage of national resources were spent by state on their education, and who are migrating on large-scale because of squeezing job opportunities in the country and renouncing Indian citizenship by migrating to Europe, Russia, USA, and far eastern countries for better employment opportunities in a safe bigotry and violence free environments, the government has decided to push its agenda of vote bank divisive politics. In the year 2019, the then president of Mushawarat, Mr. Navaid Hamid, had challenged the contentious law in the Supreme Court in the year 2019, but unfortunately, the hon’ble court had only two hearings so far. Now with this new development, Mushawarat is in touch with its learned legal counsels for challenging the controversial decision to implement the contentious law of CAA (2019).

 مشاورت کا ہلدوانی معاملے پر سخت تشویش کا اظہار، بلاجوازتشدد کی مذمت اور اعلیٰ سطحی جانچ کا مطالبہ

نئی دہلی:بھارتیہ مسلمانوں کے ممتاز وفاقی ادارہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر جناب فیروز احمد ایڈوکیٹ نے ہلدوانی کے بن بھول پورہ میں مدرسہ، مسجد اور درگاہ پر ہوئی انہدامی کارروائی کے بعد پولیس انتظامیہ کے جانب سے فرقہ وارانہ انتقامی کارروائی پر سخت تشویش  کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ریاستی انتظامیہ نے بلا کسی جواز کے اور جان بوجھ کر اقلیتی فرقہ کے لوگوں کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کے تحت ریاست اور ملک کے دوسرے علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ آنے والے لوک سبھا انتخابات میں حکمراں جماعت کو سیاسی فائدہ مل سکے۔ صدر مشاورت جناب فیروز احمد ایڈوکیٹ نے اس پورے معاملے کی اعلیٰ سطحی جانچ کا مطالبہ کیا اور کہا کہ  پولیس کی کارروائی میں ناحق  مارے گئے لوگوں کے اہل خانہ کو  فی کس 50لاکھ روپے معاوضہ دینے کے ساتھ اس گھناؤنے معاملے میں ملوث افراد کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے۔ پولیس کی ظلم اور زیادتی کی وجہ سے اب تک سینکڑوں لوگ فساد زدہ علاقے سے نقل مقانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ یہ ظلم کی انتہا ہے اور کوئی بھی انصاف پسند معاشرہ اس کو قطعی برداشت نہیں کر ے گا۔ بچوں اور خواتین پر پولیس کی پر تشدد کارروائی سخت قابل مذمت اور ناقابل قبول ہے۔  صدر مشاورت نے کہا کہ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ عدالت عالیہ نے اس پورے علاقے میں انہدام پر حکم امتناعی دے رکھی لیکن اس کے باوجود مقامی انتظامیہ نے جان بوجھ کر اقلیتوں کے دینی مقامات کو نشانہ بنایا، ان کے جذبات کو مجروح کیا اور ان کو جانی و مالی نقصان پہنچایا۔  مشاورت نے سپریم کورٹ سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ عدالت عظمیٰ اس پورے معاملے پر ازخود نوٹس لے اور جن اہلکاروں نے عدالت کے فیصلہ کے خلاف ورزی کی ہے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ مشاورت کے صدر نے ملک کے انصاف پسند لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف کھڑے ہوں،ملک کے سماجی تانے بانے کو بکھرنے اور قانون کی حکمرانی کو تباہ ہونے نہ دیں۔ انھوں نے کہا کہ دہلی اور یوپی سمیت ملک کے مختلف مقامات پر اس قسم کی اشتعال انگیز ظالمانہ کارروائیاں اور سرکاری فورسزکا ناروا استعمال غماز ہے کہ یہ واقعات اتفاقی اور الگ تھلگ نہیں ہیں بلکہ  منصوبہ بند سازش کا حصہ ہیں۔

سنہری مسجدمعاملے میں این ڈی ایم سی کے نوٹس پرمسلم مجلس مشاورت کا شدید ردعمل

نئی دہلی: بھارتیہ مسلمانوں کے ممتاز وفاقی ادارہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے نئی دہلی کی تاریخی سنہری مسجدکے تعلق سے این ڈی ایم سی کو خط لکھ کر اس کی کارروائی کی پرزور مذمت کی ہے۔ صدر مشاورت جناب فیروز احمد ایڈوکیٹ کے دستخط سے این ڈی ایم سی کو بھیجے گئے مکتوب میں کہا گیا ہے کہ اس تاریخی مسجداور قومی و ثقافتی ورثہ کے ہٹانے یا منہدم کرنے کی سازش کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے جس کو نئی دہلی کی تعمیر کے وقت اوردارالحکومت کولکاتہ سے نئی دہلی منتقل کرنے کے دوران برٹش نو آبادیاتی نظام نے بھی نہیں چھوا۔این ڈی ایم سی کے چیف آرکیٹکٹ کو لکھے گئے مکتوب میں کہاگیا ہے کہ سنہری مسجد تاریخی ورثہ ہے، وقف بورڈ کے زیر انتظام ہے، اس کو ہیری ٹیج کمیٹی یا کسی اور محکمہ کے مشورے سے منتقل یا منہدم نہیں کیا جاسکتا ہے، گاڑیوں کی آمدورفت منظم کرنے کی آڑ میں اس قومی ورثہ کومنہدم کرنے کی این ڈی ایم سی کی تجویز متعدد وجوہات کی بنا پر نہ صرف مسائل پیدا کرنے والی ہے بلکہ دہلی میں صدیوں سے قائم اسلامی ورثے کو مٹانے کی مذموم سوچ کا نتیجہ اور ملک کے آئین و قانون پر اس کا حملہ ہے۔مشاورت نے اپنے 9 نکاتی مکتوب میں این ڈی ایم سی کے ارادے کی خلاف آئین و قانون بنیادوں کو گنانے اور ان کی توضیح کرنے کے بعد مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے ناقابل قبول نوٹس کو فی الفور واپس لے۔مکتوب کا متن حسب ذیل ہے:یہ ’ٹائمز آف انڈیا‘، نئی دہلی میں مورخہ 24.12.2023 کو شائع ہونے والے آپ کے عوامی نوٹس کا جواب ہے جس میں ادیوگ بھون سے متصل رفیع مارگ نئی دہلی کے چوراہے پر گاڑیوں کی آمدورفت کو منظم کرنے اور وہاں واقع تاریخی سنہری باغ مسجد کو ہٹانے کے بارے میں اعتراضات اور مشورے طلب کیے گئے ہیں اور نوٹس کے جوابات دینے کے لیے صرف 8 دن یعنی یکم جنوری 2024 کی شام تک کا وقت دیا گیا ہے: ملک کی ممتاز مسلم تنظیموں اور افراد کا وفاق”آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت“ جو 1964سے قائم ہے، این ڈی ایم سی اور/ یا دیگر تمام محکموں کے اس اقدام کی پرزورمذمت کرتا ہے جن کی باتوں پر این ڈی ایم سی گاڑیوں کی آمدورفت کو منظم کرنے کے بہانے سنہری باغ مسجد کو منہدم کرنا چاہتی ہے۔مذکورہ سنہری باغ مسجد کو منہدم کرنے کی این ڈی ایم سی کی تجویز نہ صرف کئی وجوہات کی بنامسائل پیدا کرنے والی ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے دہلی میں صدیوں سے قائم اسلامی ورثے کی نشانیوں کو مٹانے کی خودغرضانہ سوچ کانتیجہ ہے۔این ڈی ایم سی کے ذریعے سنہری باغ مسجد کو ہٹانے کے ارادے کا پبلک نوٹس دہلی وقفہ بورڈ کی ہائی کورٹ میں پیش کردہ عرضی کو نمٹانے کے صرف 5 دن بعد مورخہ 18 دسمبر 2023 کو جاری کیا گیا۔ دہلی ہائی کورٹ نے ڈبلیو پی سی سی 8950/2023 اور سی ایم اے پی پی ایل 34086/203 میں مسجد کے انہدام کے تعلق سے این ڈی ایم سی کی طرف سے واضح یقین دہانی کے بعد ہی داخل دفتر کیا ہے کہ کونسل قانونی پوزیشن کی خلاف ورزی نہیں کریگی اور اب جس رفتار سے این ڈی ایم سی نے معزز عدالت کو اپنی یقین دہانی کے ایک ہفتہ کے اندر نوٹس جاری کیا ہے، وہ شرانگیز قدم ہے اور اسے قانونی ابہام کے ساتھ جاری کیا گیا ہے جس کا مقصد سنہری باغ مسجد کے انہدام کو قانونی رنگ دینا ہے۔ سنہری باغ مسجد نہ صرف ایم ڈی سی کے ذریعے کنزرویشن کمیٹی کے مشورے پرنوٹیفائڈ ہیریٹیج سائٹ (تاریخی ورثہ) ہے بلکہ یہ ایک وقف جائیدادبھی ہے جس کا انتظام دہلی وقف بورڈ کے ذریعے کیا جاتا ہے جودہلی کی حکومت(خطہ قومی راجدھانی)کا ایک خودمختارادارہ ہے اور یہ عملی طور پرایک مسجد ہے۔ صدیوں تک اور یہاں تک کہ برٹش حکومت کے نوآبادیاتی دور میں بھی جب لٹین دہلی تعمیر کی گئی اور دارالحکومت کوکلکتہ سے نئی دہلی منتقل کیاگیا، اسے چھوا نہیں گیا۔وقف املاک کے ناطے،مذکورہ سنہری باغ مسجد کو ہیریٹیج کمیٹی کے فیصلے کے ذریعے بھی منتقل یا منہدم نہیں کیا جاسکتا۔پارلیمنٹ کے ذریعے نافذالعمل وقف ایکٹ 1995 کی روسے وقف املاک کو فروخت، لیز یاتبادلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے این ڈی ایم سی ایکٹ 1994 کے تحت جاری کردہ محولہ بالا ن پبلک نوٹس سنہری باغ مسجد کے معاملے میں بلاجوازو غیرمتعلق ہے۔یہ معاندانہ فیصلہ عبادت گاہ (خصوصی انتظامات) ایکٹ 1991 کے التزامات کے منافی بھی ہے اور اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ مذکورہ قابل اعتراض عوامی نوٹس جوتاریخی سنہری باغ مسجد کو ہٹانے/مسمارکرنے کے ارادے کا اعلان کرنے کے لیے جاری کیا گیا ہے،نہ صرف مذہبی آزادی کے بنیادی حقوق پراین ڈی ایم سی کا حملہ ہے بلکہ یہ ملک کے آئین کی دفعہ 29 کی خلاف ورزی بھی ہے جو شہریوں کو اپنے ثقافت کے تحفظ اور اس کی حفاظت کے حقوق دیتا ہے۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ لٹین دہلی میں اور بھی بہت سے چکر(چواراہے) ہیں جو روزانہ کے معمول کے ٹریفک کے بہاؤکے لیے رکاوٹ بنتے ہیں، سب سے اہم کرشی بھون اور جن پتھ-موتی لال نہرو مارگ اور تغلق روڈ-اکبر روڈ کے آس پاس کے گول چکرہیں۔ حیرت انگیز طور پر ٹریفک کو منظم کرنے یا ان چکروں کے دائرے کو مختصر کرنے کے فیصلوں کا فقدان این ڈی ایم سی اور دیگر محکموں کے اصل مقاصد کو واضح طور پر بے نقاب کرتا ہے جن کے مشورے پر تاریخی مسجد کو منہدم کرنے کے ارادہ کی رفتارتیز کی جا رہی ہے۔ این ڈی ایم سی کو یہ یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ تاریخی سنہری باغ مسجد نے تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ یہ آزادی کے رہنماؤں اور سب سے اہم مولانا حسرت موہانی کی میٹنگوں کا مرکز تھا جنھوں نے تحریک آزادی کو تیز کرنے کے لیے ”انقلاب زندہ باد“ کا نعرہ دیا اور 1921 میں پہلی بار کانگریس کے احمد آباد اجلاس میں ”مکمل آزادی“ کی قرارداد پیش کی۔نکات بالا کی روشنی میں،آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت تاریخی مسجد کو منہدم کرنے

 صدرمشاورت نے جموں و کشمیر میں بڑھتے ہوئے تشدد پر تشویش کا اظہار کیا

بتاریخ: 26دسمبر،2023 (پریس ریلیز) نئی دہلی:بھارتیہ مسلمانوں کے ممتاز وفاقی ادارہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر جناب فیروز احمد ایڈوکیٹ صاحب نے جموں و کشمیر میں تشدد کے ان تازہ واقعات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا جن میں دہشت گرد گروپ کے ذریعہ راجوری ضلع میں فوجی گاڑی پر گھات لگا کر حملہ، سیکیورٹی فورسز کی تحویل میں معصوم شہریوں کے قتل اور نامعلوم افراد کے ذریعہ سابق ایس ایس پی محمد شفیع میر کا گولی مار کر قتل کیا گیا۔ مرکزی حکومت کے زیر انتظام علاقے میں ہونے والے ان دہشت گردانہ حملوں نے بلاشبہ یہ ثابت کر دیا ہے کہ مرکزی حکومت کے ذریعہ آرٹیکل 370 کی منسوخی اور سابقہ ریاست کی تقسیم کے بعد بھی شورش زدہ جموں و کشمیر میں امن اور معمولات کو بحال کرنے کا مودی سرکار کا بلند و بالا دعویٰ نہ صرف بے نقاب ہوگیا ہے بلکہ یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں سکیورٹی کی صورتحال خراب ہے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے چار سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی زمینی سطح  پر کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور تشدد کے واقعات یہ بھی اشارہ کرتے ہیں کہ دہشت گرد اور دہشت گردی کے ماڈیول جموں و کشمیر میں آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں اور یہ کہ تیزی سے بڑھتے دہشت گردی کے واقعات نے حقیقی اور تشویشناک صورتحال کے طور پر حکومت کے امن کے بیانیہ سے متصادم ہے۔ صدرآل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے سیکورٹی فورسز کے ذریعہ پوچھ گچھ کے دوران تین شہریوں کی ہلاکت پر بھی اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا اور اسے ایک سنگین تشویش کا معاملہ قرار دیا کیونکہ یہ ہلاکتیں مقامی آبادی کو مزید الگ کر دیتی ہیں۔ اگرچہ ریاستی انتظامیہ اور فوج نے تحقیقات کا اعلان کیا ہے لیکن آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا مطالبہ ہے کہ ہلاکتوں کی تحقیقات نہ صرف فوج بلکہ ایک سینئر سول جج کے ذریعہ بھی ہونی چاہئیں تاکہ اصل سچائی منظر عام پر آسکے۔ صدر مشاورت نے اپنے بیان میں کہا کہ اگرچہ سیکٹر کمانڈر اور سیکورٹی فورسز کے دیگر اعلیٰ افسران کو دوسری جگہوں پر منتقل کر دیا گیا ہے لیکن یہ واقعہ خود ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردانہ حملے کے بعد معصوم مقامی نوجوانوں سے پوچھ گچھ کے دوران سیکورٹی ایجنسیوں کی جانب سے غیر انسانی رویہ اپنایا گیا اور اس واقعے نے حقیقی طور پر لوگوں میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا ہے کیونکہ حراست میں مارے گئے تین شہریوں میں سے دو نے اس اندوہناک واقعے سے قبل طویل عرصے تک سیکیورٹی فورسز کے لیے کام کیا تھا اور یہ کہ اگرچہ پولیس نے اس معاملے میں ایف آئی آر درج کر لی ہے، لیکن مشاورت کو امید ہے کہ جانچ شفاف طریقے سے کی جائے گی تاکہ قصوروار وں کو سزا مل سکے۔

Mushawarat expresses it concern over spurt of violence in Jammu and Kashmir

New Delhi: All India Muslim Majlis e Mushawarat (AIMMM), the federation of prominent Muslim organisations and individuals of Indian Muslims, expressed its concern on recent cycle of violence in Jammu &Kashmir including the ambush on army vehicle in Rajouri district by the terror group, the killing of the civilians in custody of the security forces and killing of former SSP, Muhammad Shafi Mir. It is rateable that his security was withdrawn. These terror attacks in the union territory has undoubtably proved that even after abrogation of Article 370 and bifurcation of erstwhile state, Modi Government’s tall claim of restoring peace and normalcy in the troubled Jammu and Kashmir not only stand exposed but also established that the security situation at the ground level has not changed even after more than four years of the abrogation of the Article 370 and also it indicates that terrorists and terror modules are operating freely in J&K and the speeded terror incident contradicted government s narrative of peace as the real and alarming situation in Jammu and Kashmir is being brushed under the carpet. AIMMM also expressed serious concern over killing of three civilians during interrogation by the security forces and considering it as a matter of grave concern because the killings further alienate the local population. Although the state administration and the army has announced an investigation but AIMMM is of the firm view that the killings need to be investigated not only by the Army but also by a senior civil judge so that truth is unravelled. Though sector commander and other senior officers of the security forces have been shifted to other places, the incident itself shows that inhuman approach was adopted by the security agencies during the interrogation of innocent local youths after the terrorist attack. The incident has genuinely created a sense of fear as well as insecurity among the people as two of the three civilians killed in custody had worked for security forces for the long-time before the gory incident. Although the police have filed a FIR in this case, Mushawarat is quiet hopeful that probe is conducted in the transparent manner so that guilty, whosoever, are punished.   

The AIMMM appeals to the international community to play a positive role in preventing Israel from implementing the unjust policies of land grab

New Delhi: Deeply concerned over the escalation of violence between the Israeli forces and the Palestinian people due to the Israeli provocative actions in the West Bank and sacrilege of the Holy Al-Aqsa Mosque, the All India Muslim Majlis-e-Mushawarat calls upon all the parties concerned to eschew violence, protect civilians, and prevent further deterioration of the situation. The AIMMM appeals to the international community to play a positive role in preventing Israel from implementing the unjust policies of land grab and expanding settlements in the occupied territories of the West Bank to ensure a two-state solution as per the United Nations resolutions and the Arab Peace Initiative. Released by Shahabuddin Office Secretary (AIMMM)

Launch of new Website of All India Muslim Majlis-e-Mushawarat

🎉 Introducing Our New Website: A Platform for Unity and Progress 🌐 We are thrilled to announce the launch of our brand-new website, a digital gateway that embodies the essence of the All India Muslim Majlis-e-Mushawarat’s (AIMMM) mission – fostering unity, advocating for progress, and upholding the values that define our diverse and vibrant community. This revamped platform serves as a bridge connecting our rich history with the modern world, enabling us to engage, empower, and inspire like never before. Our new website reflects a commitment to inclusivity and accessibility. With its user-friendly interface, you can easily explore our initiatives, achievements, and ongoing projects. From advocating for minority rights to promoting education and social justice, the site offers a comprehensive view of our efforts to create a more equitable society. Engage with our thought-provoking articles, insightful blog posts, and updates on our activities that echo our dedication to consultation, collaboration, and positive change. Join us in celebrating our diverse heritage and nurturing understanding between communities through our platform’s interfaith resources and cultural showcases. The launch of this website marks a significant step forward in AIMMM’s journey. We invite you to explore, connect, and be a part of this shared vision for unity, progress, and a brighter future for all. Welcome to the new AIMMM online experience – where consultation meets action, and where our collective voice resonates stronger than ever before. 🌟🌍🤝