مشاورت کے کارگزار صدر نوید حامد نے وقف ترمیمی ایکٹ پر سپریم کورٹ کے عبوری حکم کا خیر مقدم کیا اور اس فیصلہ کو وقف املاک کو غصب کرنے کی حکومت کی کوششوں کو ایک جھٹکا قرار دیا۔

نئی دہلی :ملک میں ممتاز مسلم تنظیموں اور متمول مسلمانوں کی واحد کنفیڈریشن آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے کارگزار صدر جناب نوید حامد نے متنازعہ وقف ترمیمی ایکٹ پر سپریم کورٹ کے عبوری حکم کا خیرمقدم کیا ہے اور اسے غیر آئینی ضوابط کے تحت مودی حکومت کے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہونے کے ضعم کے ذریعہ نافذ کردہ وقف ترمیمی ایکٹ کی غیر آئینی متنازعہ دفعات پر اسٹے لگا کر ان کے نفاذ پر روک لگانے کو مودی سرکار پر فیصلہ کن ضرب لگانے سے تعبیر کیا ہے۔ یہ فیصلہ بی جے پی کے علاقائی حلیفوں خاص طور پر آندھرا پردیش کے وزیر اعلی چندر بابو نائیڈو اور بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کے لیے بھی ایک یاد دہانی ہے کہ بی جے پی کے غیر آئینی اقدام کی حمایت کرنا آپ کی اپنی بقا کی سہولت کی سیاست کے لیے شرمندگی کا باعث بنا ہے، اس کے علاوہ آپ کو تاریخ میں تقسیم کرنے والے ایجنڈے کے شراکت داروں کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ جناب نوید حامد نے ان ‘مسلم چہروں’ کی بھی سرزنش کی جو وقف ترمیمی ایکٹ کا جشن منانے کے لیے کود رہے تھے اور انہیں یاد دلایا کہ سپریم کورٹ کے عبوری حکم نے آئینی دفعات کے بارے میں ان کی دانشمندی اور سمجھ بوجھ کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جناب نوید حامد نے وقف ترمیمی ایکٹ کے حامیوں کو یاد دلایا ہے کہ اس فیصلے نے مسلمانوں کے اس موقف کی توثیق کی ہے کہ وقف دفعات میں اصلاحات حقیقی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ باہمی مشاورت اور آئین میں درج اقلیتوں کے حقوق اور آئینی دفعات کے مطابق ہونی چاہئیں۔ جناب حامد نے رائے ہے کہ ایکٹ میں کلکٹر کے بے لگام انتظامی کردار کی شق کو سپریم کورٹ کے ذریعہ کالعدم قرار دینے کے بعد وقف کی حیثیت کا فیصلہ کرنے میں وقف ٹربیونلز کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے، متنازعہ قانون میں وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی نامزدگیوں کی شق کو کلعدم اور وقف بورڈ میں ان کی نمائندگی زیادہ سے زیادہ تین تک محدود کرنے کے فیصلہ سے حکومت کی اصلاحات کے نام پر وقف املاک کو ہڑپ کرنے کے ایجنڈے پر بھی کراری ضرب لگی ہے۔ جناب نوید حامد نے وقف کے قیام کے لیے پانچ سال تک اسلام پر عمل کرنے کی شرط کو سپریم کورٹ کے ذریعہ کالعدم قرار دئے جانے کا بھی خیر مقدم کیا ہے اور اس بات کی یاد دہانی کرائی ہے کہ یہ شق شہریوں کے آئینی حقوق پر ڈاکہ زنی کے مترادف تھی۔ جناب نوید حامد نے اس بات پر بھی اطمینان کا اظہار کیا کہ معزز عدالت نے اپنے عبوری حکم نامہ میں واضح ہدایت دی ہے کہ وقف بورڈ کا سی ای او مسلمان ہوگا۔
غریبی و ہجرت کو جرائم اوردولت واقتدار کی لوٹ کوجائزبنایا جارہا ہے: مشاورت

روزنامہ ہندوستان، ممبئی بتاریخ 09 اگست2025
ملک کے سیاسی و سماجی صورتحال پرآل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا اظہار افسوس

روزنامہ انقلاب ، دہلی بتاریخ:09 اگست 2025
غریبی و ہجرت کو جرائم اوردولت واقتدار کی لوٹ کوجائزبنایا جارہا ہے: مشاورت

٭مسلم تنظیموں کے وفاق نیووٹ کی لوٹ،ایس آئی آر، غیرقانونی انہدام، بنگالی مزدوروں کو نشانہ بنانے، اوردہشت گردانہ بم دھماکوں پر حکومت کے دوہرے رویے کوملک کے لیے خطرناک اورجمہوریت پرحملہ قرار دیا ٭آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر فیروزاحمد ایڈوکیٹ نے قانونی، سیاسی اور سماجی ہر سطح پر مزاحمت کرنے کے عزم کا اعادہ کیا، مشاورت جلدہی دہلی میں آل انڈیا کنونش بلائے گی نئی دہلی: ملک کی مسلم تنظیموں اور ممتاز شخصیتوں کے واحد وفاق آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت نے ملک کی سیاسی و سماجی صورت حال پر اپنی شدید تشویش اور گہرے رنج کا اظہار کیاہے اور کہا کہ یہ بات اس کے لیے ناقابل برداشت ہے کہ غریبی اور ہجرت کو جرائم اور دولت و اقتدار کی لوٹ کو جائز اور معمولی بنایا جارہا ہے۔ہفتے کو یہاں مشاورت کے مرکزی دفتر میں میڈیاکے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے مشاورت کے صدر فیروزاحمدایڈوکیٹ نے بہار اور بھارت کے دیگر حصوں میں ایس آئی آر (خصوصی گہری نظرثانی) کے ذریعے پسماندہ طبقات سے ووٹ کے حق کو چھیننے کی کوششوں، ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے روزافزوں رجحانات، نفرت انگیز جرائم اور اقلیتی برادریوں کو نشانہ بناکر کی جا رہی دہشت ناک کارروائیوں میں خطرناک اضافہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ آسام میں مسلمانوں کو غیر قانونی طور پر بے گھر کرنا اور ملک کے مختلف حصوں میں بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کو نشانہ بنانا، وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کے خطرناک اثرات، مالیگاؤں بم دھماکوں کے سب کے سب ملزموں کی رہائی، مہاراشٹر حکومت کا مالیگاؤں اور ممبئی ٹرین دھماکوں کے فیصلوں پر دوہرا رویہ اور مسلمانوں کو درپیش دیگر چیلنجز، انتہائی پریشان کن رجحان اور ملک کے سیکولر جمہوری ڈھانچے کے لیے سنگین خطرات کے غماز ہیں۔ مشاورت نے اپنے یوم تاسیس کے موقع پرجاری کردہ پریس نوٹ میں انصاف کے حصول، آئینی حقوق کے تحفظ اور جمہوریت کی بقا کے لیے جدو جہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان واقعات کوآج کل ملک کے طول و عرض میں تواتر سے رونما ہورہے ہیں، انصاف، جمہوریت اور انسانی حقوق پر حملے سمجھتی ہے اور ہر سطح پر قانونی، سیاسی اور اخلاقی مزاحمت کا عہد کرتی ہے۔ یہ حق رائے دہی سے محرومی، فرقہ وارانہ تشدد، ادارہ جاتی تعصب اور جبر واستبدادکے خلاف قانونی، سیاسی اور اخلاقی مزاحمت کے لیے سول سوسائٹی، حقوق انسانی کے محافظوں اور سیاسی و سماجی تنظیموں کو کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہونے کا مطالبہ کرتی ہے اوردنیا کے مظلوموں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے۔امریکی حکومت کی جانب سے بھارت پر نئے محصولات (ٹیرف) کے نفاذ پر بھی مشاورت نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اقدام ملک کی برآمدات، صنعتوں اور ان سے وابستہ کروڑوں محنت کشوں پر شدید منفی اثرات ڈالے گا۔ اس بحران میں مودی حکومت کا رویہ غیر سنجیدہ اور غیر دوراندیشانہ رہا ہے، جو بھارت کی عالمی تجارتی پوزیشن کو مزید کمزور کر رہا ہے۔ اسی طرح مشاورت اسرائیلی حکومت اور اس کے مددگاروں کے ذریعے فلسطینی عوام، خاص طور پر غزہ، مغربی کنارے اور مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کے قتل عام، ان پرجنگی جرائم اور منظم مظالم کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور اسے بین الاقوامی قانون، اخلاقیات اور انسانی شرافت کی کھلی پامالی قرار دیتی ہے اور اسرائیل کے خلاف عالمی برادری اور خطہ کے ملکوں سے قرارواقعی کاروائی کرنے اور مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے کی اپیل کرتی ہے۔ مشاورت کے نائب صدرنوید حامد نے اس موقع پر زور دیکر کہا کہ فہرست رائے دہندگان پر نظرثانی کا عمل، جو لسٹ میں شفافیت اور درستگی لانے کے لیے ہونا چاہیے، پسماندہ طبقات خصوصاً مسلم، دلت، پسماندہ اور غریب طبقات کو نشانہ بنانے اور بلاجواز طور پران کے نام فہرست سے حذف کرنے کا ہتھیار بن گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مشاورت کا موقف ہے کہ ایس آئی آر کا اس طرح کا غلط استعمال ہندوستان کے آئین میں دی گئی شہری حقوق کی ضمانت پر براہ راست حملہ ہے۔ جبکہ مشاورت کے پریس نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ووٹ کا حق کوئی احسان نہیں،یہ شہریت کے بنیادی حقوق کا اظہار ہے، اور اسے کمزور کرنے کی کوئی بھی کوشش ہندوستان کی جمہوریت کے تصور پرضرب لگانا ہے۔ لہٰذا،مشاورت ناقص شکل میں جاری ایس آئی آر کی کارروائی کو فوری طور پر روکنے اور اس کی ایک جامع اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہے۔ اور متنبہ کرتی ہے کہ تکنیکی اصلاحات کی آڑ میں پسماندہ طبقات کو حق رائے دہی سے محروم کرنا نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ امن وامان، سماجی ہم آہنگی اور جمہوریت کی بقا کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے۔ مشاورت نے کہا ہے کہ گزشتہ مہینوں میں فرقہ وارانہ حملے، ماورائے قانون انہدامات اور مذہبی بنیاد پر دہشت خیز کارروائی میں خطرناک اضافہ ہوا ہے۔ میڈیا کے کچھ حصے اس قسم کی کارروائیوں کو نارملائز کرتے اور نفرت انگیز پروپیگنڈے کرتے ہیں، سیاسی سرپرستی مجرموں کو تحفظ دے رہی ہے، اور عدالتی تاخیر عوام کے اعتماد کو مجروح کر رہی ہے۔ آسام میں خاص طور پر بنگلہ بولنے والے ہزاروں مسلمانوں کو بے گھر کرنے کی مہم، اور دہلی این سی آر، ہریانہ و اترپردیش میں ان پر غیر قانونی تارکین کا الزام لگا کر ہراساں کرنا، ایک منظم امتیازی کارروائی اور سوچی سمجھی پالیسی کی عکاسی ہے۔مشاورت اس کے خلاف کھڑی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ مفلسی اور غریب الوطنی (مائیگریشن) کو جرائم بنانے کا سلسلہ فی الفور بند کیا جائے، بے دخلی کی تمام مہمات روکی جائیں، اور ملک کے ہر شہری کو لسانی و مذہبی امتیاز سے بچانے کے لیے مضبوط قانونی ضمانتیں دی جائیں۔مشاورت کا مطالبہ یہ بھی ہے کہ نسل، زبان، یا مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو روکنے کے لیے مضبوط قانونی اور ادارہ جاتی تحفظات قائم کیے جائیں، غیر آئینی یا انسانیت دشمن اقدامات میں ملوث اہلکاروں اور حکومتوں کی جوابدہی طے کی جائے اوراقلیتوں کو نشانہ بنانے کے بڑھتے رجحان کے خلاف سیکولر اور جمہوری قوتیں متحد ہو کرملک گیرپیمانے پر کھڑی ہوں۔ مشاورت نے وقف (ترامیم)ایکٹ کے تعلق سے اپنے اس موقف کو دوہرایا ہے کہ
اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور مسلم ممالک کی بے بسی پراظہار تشویش

آل انڈیامسلم مجلس مشاورت میں ”اسرائیلی جارحیت،مشرق وسطی کی صورت حال اور اس کے بعد“کے موضوع پرمذاکرہ، دانشوران و قائدین ملت کا تبادلہ خیالات نئی دہلی:اس وقت غزہ میں وحشت وحیوانیت کی جو تاریخ لکھی جارہی ہے،اس نے بے رحمی کی ساری مثالوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔فلسطین کی عورتوں بچوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں، وہ انتہائی انسانیت سوز ہیں۔اس جنگ نے اس تصورکو تبدیل کردیا ہے کہ یہودی ایک مظلوم قوم ہے۔جو مظلوم تھا آج سب سے بڑا ظالم بن گیا ہے۔دوسرا پرسپشن اس جنگ نے یہ توڑ دیا کہ اسرائیل ناقابل شکست ہے۔ایران کے میزائلوں نے مایوسی کی تاریکیوں میں امید کی کرن پیدا کرنے کی ایک بہترین مثال دی ہے۔ان خیالات کا اظہار ہفتے کو یہاں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے زیر اہتمام سید شہاب الدین یادگاری مذاکرہ میں حصہ لیتے ہوئے ملک کے سرکردہ مسلم دانشوران و قائدین نے کیا۔ وہ ”اسرائیلی جارحیت،مشرق وسطی کی صورت حال اور اس کے بعد“کے موضوع پرمذاکرہ میں شریک تھے۔موضوع پراپنے تعارفی کلمات میں سینئر صحافی اور مشاورت کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن سید منصور آغا نے کہا کہ مشرق وسطی کی صورت حال پر مسلم قوموں کی خاموشی انتہائی تشویشناک ہے۔انہوں نے ایران پر اسرائیل کے حملے کو ایک دھوکے کی کارروائی کہتے ہوئے کہا کہ ایران نے خود کو عبادات تک محدود نہیں رکھا، ان آیات کو بھی پڑھا ہے جو کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں۔ جبکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان اور سینئرصحافی سید قاسم رسول الیاس نے قرآن کریم کے حوالے سے کہا کہ دنیا نے بارہا دیکھا ہے کہ چھوٹی سی تعداد کثیرجماعت پر غالب آجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1979ء میں ایران کا اسلامی انقلاب ایک تاریخ ساز واقعہ تھا۔ دوسرا ایسا ہی ناقابل یقین واقعہ1989ء میں افغانستان میں روس کے مقابلے پر مجاہدین اسلام کی فتح تھی۔ اب فلسطین کے لوگوں نے اپنے ایمان کی طاقت سے ثابت کیا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ ان کے شہروں کو تباہ کرسکتے ہیں، ہزاروں لوگوں کو ہلاک کرسکتے ہیں، بچوں اور عورتوں کو مار سکتے ہیں، بھوک اور پیاس کو ہتھیار بنا سکتے ہیں لیکن ان کے حوصلے کو نہیں توڑ سکتے۔ میڈیا اسٹار کے ایڈیٹر محمداحمدکاظمی نے کہا کہ12 دن کی اس جنگ نے مشرق وسطی میں طاقت کا توازن تبدیل کردیا۔انہوں نے کہا کہ یہ جنگ صرف میزائلوں کی نہیں تھی نظریاتی جنگ بھی تھی، جس میں امریکہ اور اسرائیل کی شکست ہوئی ہے۔ایران نے جو میزائل داغے وہ میزائیل ہی نہ تھے، ایک پیغام تھے۔امریکہ کو مجبور کردیا کہ اسرائیل فرسٹ کی پالیسی ترک کرے، اس جنگ کے نتیجے میں ایران ایک گلوبل پاور بن گیا۔ انہوں نے یوروپی، امریکی اور خود اسرائیلی ماہرین دفاع اور تجزیہ نگاروں کی آراکی روشنی میں بتایا کہ اس وقت مغربی دنیا اسرائیل اور ایران کے تعلق سے کیا سوچ رہی ہے۔ سینئرصحافی اور بین الاقوامی امور کے ماہرقمرآغا نے شرکائے مذاکرہ کو تفصیل سے بتایا کہ اس جنگ کی سب سے بڑی وجہ ابراہم اکارڈ تھا۔ فلسطینیوں کو یہ لگا کہ ان کی قیدمستقل ہوجائیگی۔عرب ملکوں کے ذریعے ان کی جانوں کا سودا کیا جارہا ہے۔یہ تاریخ میں پہلا واقعہ تھا کہ فلسطینی مجاہدین نے اسرائیل کو اس کے اندر گھس کریرغمال بنالیا اور گھنٹوں یرغمال بنائے رکھا اور وہ آج تک اپنے قیدیوں کی رہائی نہیں کراسکے ہیں۔اسرائیل پہلے صرف اپک لینڈ کی بات کرتا تھا، اب وہ گریٹر اسرائیل بنانے کا دعوی کر رہے ہیں۔پورے خطے کو خالی کرارہے ہیں۔اسرائیل ہتھیاروں سے جنگ جیت نہ سکا تو بھوک پیاس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایران کی پالیسی تھی کہ اسرائیل کو کسی بھی قیمت پر ارریلیونٹ بنادو اور اس نے ایسا ہی کیا۔ میزائل اور ڈرونز اس نے اس لئے بنائے کہ یہ سستے تھے۔ایران کو بمبارطیارے دینے کو کوئی تیار نہ تھا، انہوں نے کہا کہ آج کا ایران مایوسی سے امید پیدا کرنے کی بہترین مثال ہے۔ مشہور اسلامی اسکالرڈاکٹر جاوید جمیل نے کہا کہ ایران کاانقلاب اسلامی تاریخ کا ایک اہم ترین واقعہ تھا۔ اللہ نے قرآن میں عربوں سے کہا ہے کہ اگر اللہ کی راہ میں تم نہ نکلے تو ہم کسی اور قوم کو لے آئیں گے اور ایران عالم اسلام کے امید کی کرن بن کر ابھراجبکہ ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کہا کہ مونارکی اس خطے میں فلسطین کے تنازع کی بدولت زندہ ہے۔ یوم قدس منایا جانے لگا تو منافقین کھل کرسامنے آئے ورنہ 1967 کی جنگ کے بعد مسئلہ فلسطین دب گیا تھا اور عرب ممالک چین کی نیند سو رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ 7 اکتوبر کے بعد جو ہزاروں فلسطینی شہید ہوئے ہیں ان کے خون کی قیمت کا اندازہ دنیا کواس وقت ہوگا، جب غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں گی۔ انہوں نے کہا کہ شام کا صدرجولانی اگر مزاحمت کے لیے تیار نہیں ہے تو اس کی قیمت پورے مشرق وسطی اور عالم اسلام کو چکانی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ ہم اہل غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ہماری تمام تر ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔جبکہ پروفیسراخترالواسع نے کہا کہ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ گریٹر اسرائیل نہیں بنناہے۔انہوں نے فلسطین مملکت کو تسلیم کرنے کے فرانس کے اعلان پر سعودی عرب کے ردعمل کوچشم کشا بتایا اور کہا کہ ہمیں مسلکوں کے جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ چیزیں وقت کے ساتھ بدلیں گی۔ مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے شرکائے مذاکرہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم آئندہ بھی اس طرح مفیدو معلومات افزا مذاکرات اور کنونشن کا اہتمام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطی کی صورت حال تشویشناک ضرور ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ فرانس اور دوسرے ممالک فلسطین اور ایران کی حمایت میں آرہے ہیں، دنیا بھر میں انسانیت کی پامالی خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ کسی تفریق و تعصب سے بالاترہوکر انسانوں پر مظالم کے خلاف کھڑے ہوں۔ انسانوں پر ظلم و بربریت کو کسی فرقے یا مذہب کا مسئلہ نہ بننے دیں۔ظلم اور ناانصافی انسانیت کے ماتھے کا داغ اور پورے بنی نوع انسان کا مسئلہ ہے۔ اس موقع پر پروفیسر بصیر احمد خان اور ایڈو کیٹ
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے امریکہ-اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کا خیرمقدم کیا

دنیا کے امن کو درپیش خطرات پر اظہار تشویش اور فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور جنگی جرائم کی شدید مذمت نئی دہلی: ہندوستان کی سرکردہ مسلم تنظیموں کا وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے امریکہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔ یہ جنگ بندی مغربی ایشیا میں مزید تباہی اور کشیدگی سے بچاؤ کے لیے ایک اچھا اور ضروری قدم ہے۔ مشاورت کے صدر جناب فیروز احمد ایڈوکیٹ نے جنگ بندی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران پر حملے ایک خودمختار پر بلا جواز جارحیت، اس کی خود مختاری کی پامامالی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ صدر ٹرمپ کے حملوں اور جارحیت سے عالمی نظام اور خطے میں امن کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ مشاورت نے اسی کے ساتھ غزہ میں جاری اسرائیل کے وحشیانہ حملوں، عام شہریوں کے قتل عام اور انسانی بحران پر شدید رنج و غم اور سخت مذمت کا اظہار کیا ہے۔اس کا ماننا ہے کہ اسپتالوں، اسکولوں، صحافیوں اور امدادی کارکنوں کو نشانہ بنانا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ مشاورت کو امریکہ جیسے بااثر عالمی طاقتوں کی اسرائیل کی کھلی حمایت پر شدید تشویش ہے، جو اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عالمی اصولوں کو پامال کرنے کی شہ دے رہی ہے۔ فلسطینی عوام پر مسلط طویل عرصے سے جاری مظالم، محاصرہ، جبری بے دخلی اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی عالمی برادری کے لیے ایک کڑی آزمائش ہے۔ مشاورت عالمی برادری، اقوام متحدہ اور عالمی ضمیر سے اپیل کرتی ہے کہ وہ: 1. غزہ سمیت تمام متاثرہ علاقوں میں فوری اور مستقل جنگ بندی کو یقینی بنائیں اور عام شہریوں کو تحفظ دیں۔ 2. جنگی جرائم کے مرتکبین کو بین الاقوامی عدالتوں کے ذریعے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ 3. اس بحران کی بنیادی وجہ اسرائیل کے غیر قانونی قبضے اور نسل پرستانہ پالیسیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ 4. غزہ کی ناکہ بندی ختم کی جائے اور انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ 5. فلسطینی عوام کے حق خودارادیت اور بین الاقوامی قانون پر مبنی منصفانہ امن کی کوششوں کو بحال کیا جائے۔ مشاورت فلسطینی عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے اور دنیا بھر کے تمام انصاف پسند، امن دوست اور انسانی وقار کے علمبرداروں کے ساتھ کھڑی ہے۔
ڈاکٹر علی محمودآباد پر ایف آئی آر اور گرفتاری کی سخت مذمت

روزنامہ قومی بھارت اکیس مئی 2025
ڈاکٹر علی محمودآباد پر ایف آئی آر اور گرفتاری کی سخت مذمت

روزنامہ انقلاب ادو اکیس مئی 2025
ڈاکٹر علی محمودآباد پر ایف آئی آر اور گرفتاری کی سخت مذمت

ملک کے ایک ممتاز اسکالر اور مسلم تنظیموں کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت کے معزز رکن کی گرفتاری ملک کے آئین اور جمہوریت کی روح پر حملہ ہے نئی دہلی: آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت ملک کے ایک ممتاز اسکالر، سیاسیات کے پروفیسر، قومی اخباروں کے معتبرکالم نگار اور مشاورت کے معزز رکن، ڈاکٹر علی محمودآباد کے خلاف ’وطن مخالف تبصرہ‘ کرنے کے الزام میں ایف آئی آر اور ان کی گرفتاری پر گہری تشویش کا اظہار اور اس کارروائی کی سخت مذمت کرتی ہے۔ ان پر “ملک مخالف” ریمارکس دینے کا الزام عائد کرناانتہائی بد بختانہ فعل ہے۔ ملک کی مسلم تنظیموں اور ممتاز افراد کے وفاق نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ڈاکٹر محمودآباد ایک معزز علمی شخصیت اور عوامی مفکر ہیں، جو سیاسی نظریے اور جمہوری مکالمے میں اپنی علمی اور باریک بین شراکت کے لیے جانے جاتے ہیں۔ تنقیدی خیالات یا ماہرانہ تجزیے کو “ملک مخالف” قرار دینا ایک تشویشناک رجحان ہے جو ہمارے آئین میں موجود جمہوریت، آزادی، اور اظہارِ رائے کے حق جیسے بنیادی اصولوں کو خطرے میں ڈالتا ہے۔مشاورت کے صدر فیروزاحمد ایڈوکیٹ نےمزید کہا ہے کہ کسی اسکالر کو ان کے علمی یا عوامی بیانات پر گرفتار کرنا نہ صرف فکری آزادی پر حملہ ہے بلکہ یہ سوچ کو جرم بنائےجانے کی خطرناک نظیر قائم کرتا ہے۔ یہ رجحان ہمارے معاشرے میں تنقیدی سوچ اور مختلف نقطہ نظر کے لیے بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی عکاسی کرتا ہے۔ مشاورت نے حکام سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ ڈاکٹر علی محمودآباد کے خلاف الزامات کو فوری طور پر واپس لیں، انہیں فی الفور رہا کریں، اور ان کی عزت اور سلامتی کو یقینی بنائیں۔ مشاورت سول سوسائٹی، تعلیمی اداروں، اور تمام انصاف پسند شہریوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ڈاکٹر علی کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور تنقیدی آوازوں کو دبانے کے لیے قانون کے استعمال کی مخالفت کریں۔ مسلم تنظیموں کے وفاق نے کہا ہے کہ بھارت کی طاقت اس کے تنوع، فکری وسعت اور جمہوری اقدار میں مضمر ہے۔ زبردستی یا دھمکی کے ذریعے ان اقدار کو دبانا خود جمہوریت کی روح کو مجروح کرتا ہے۔
مشاورت کے سابق صدر نویدحامدقائدملت ایوارڈ سے سرفراز

،روزنامہ انقلاب ا28پریل -2025