اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور مسلم ممالک کی بے بسی پراظہار تشویش

آل انڈیامسلم مجلس مشاورت میں ”اسرائیلی جارحیت،مشرق وسطی کی صورت حال اور اس کے بعد“کے موضوع پرمذاکرہ، دانشوران و قائدین ملت کا تبادلہ خیالات نئی دہلی:اس وقت غزہ میں وحشت وحیوانیت کی جو تاریخ لکھی جارہی ہے،اس نے بے رحمی کی ساری مثالوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔فلسطین کی عورتوں بچوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں، وہ انتہائی انسانیت سوز ہیں۔اس جنگ نے اس تصورکو تبدیل کردیا ہے کہ یہودی ایک مظلوم قوم ہے۔جو مظلوم تھا آج سب سے بڑا ظالم بن گیا ہے۔دوسرا پرسپشن اس جنگ نے یہ توڑ دیا کہ اسرائیل ناقابل شکست ہے۔ایران کے میزائلوں نے مایوسی کی تاریکیوں میں امید کی کرن پیدا کرنے کی ایک بہترین مثال دی ہے۔ان خیالات کا اظہار ہفتے کو یہاں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے زیر اہتمام سید شہاب الدین یادگاری مذاکرہ میں حصہ لیتے ہوئے ملک کے سرکردہ مسلم دانشوران و قائدین نے کیا۔ وہ ”اسرائیلی جارحیت،مشرق وسطی کی صورت حال اور اس کے بعد“کے موضوع پرمذاکرہ میں شریک تھے۔موضوع پراپنے تعارفی کلمات میں سینئر صحافی اور مشاورت کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن سید منصور آغا نے کہا کہ مشرق وسطی کی صورت حال پر مسلم قوموں کی خاموشی انتہائی تشویشناک ہے۔انہوں نے ایران پر اسرائیل کے حملے کو ایک دھوکے کی کارروائی کہتے ہوئے کہا کہ ایران نے خود کو عبادات تک محدود نہیں رکھا، ان آیات کو بھی پڑھا ہے جو کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں۔ جبکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان اور سینئرصحافی سید قاسم رسول الیاس نے قرآن کریم کے حوالے سے کہا کہ دنیا نے بارہا دیکھا ہے کہ چھوٹی سی تعداد کثیرجماعت پر غالب آجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1979ء میں ایران کا اسلامی انقلاب ایک تاریخ ساز واقعہ تھا۔ دوسرا ایسا ہی ناقابل یقین واقعہ1989ء میں افغانستان میں روس کے مقابلے پر مجاہدین اسلام کی فتح تھی۔ اب فلسطین کے لوگوں نے اپنے ایمان کی طاقت سے ثابت کیا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ ان کے شہروں کو تباہ کرسکتے ہیں، ہزاروں لوگوں کو ہلاک کرسکتے ہیں، بچوں اور عورتوں کو مار سکتے ہیں، بھوک اور پیاس کو ہتھیار بنا سکتے ہیں لیکن ان کے حوصلے کو نہیں توڑ سکتے۔ میڈیا اسٹار کے ایڈیٹر محمداحمدکاظمی نے کہا کہ12 دن کی اس جنگ نے مشرق وسطی میں طاقت کا توازن تبدیل کردیا۔انہوں نے کہا کہ یہ جنگ صرف میزائلوں کی نہیں تھی نظریاتی جنگ بھی تھی، جس میں امریکہ اور اسرائیل کی شکست ہوئی ہے۔ایران نے جو میزائل داغے وہ میزائیل ہی نہ تھے، ایک پیغام تھے۔امریکہ کو مجبور کردیا کہ اسرائیل فرسٹ کی پالیسی ترک کرے، اس جنگ کے نتیجے میں ایران ایک گلوبل پاور بن گیا۔ انہوں نے یوروپی، امریکی اور خود اسرائیلی ماہرین دفاع اور تجزیہ نگاروں کی آراکی روشنی میں بتایا کہ اس وقت مغربی دنیا اسرائیل اور ایران کے تعلق سے کیا سوچ رہی ہے۔ سینئرصحافی اور بین الاقوامی امور کے ماہرقمرآغا نے شرکائے مذاکرہ کو تفصیل سے بتایا کہ اس جنگ کی سب سے بڑی وجہ ابراہم اکارڈ تھا۔ فلسطینیوں کو یہ لگا کہ ان کی قیدمستقل ہوجائیگی۔عرب ملکوں کے ذریعے ان کی جانوں کا سودا کیا جارہا ہے۔یہ تاریخ میں پہلا واقعہ تھا کہ فلسطینی مجاہدین نے اسرائیل کو اس کے اندر گھس کریرغمال بنالیا اور گھنٹوں یرغمال بنائے رکھا اور وہ آج تک اپنے قیدیوں کی رہائی نہیں کراسکے ہیں۔اسرائیل پہلے صرف اپک لینڈ کی بات کرتا تھا، اب وہ گریٹر اسرائیل بنانے کا دعوی کر رہے ہیں۔پورے خطے کو خالی کرارہے ہیں۔اسرائیل ہتھیاروں سے جنگ جیت نہ سکا تو بھوک پیاس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایران کی پالیسی تھی کہ اسرائیل کو کسی بھی قیمت پر ارریلیونٹ بنادو اور اس نے ایسا ہی کیا۔ میزائل اور ڈرونز اس نے اس لئے بنائے کہ یہ سستے تھے۔ایران کو بمبارطیارے دینے کو کوئی تیار نہ تھا، انہوں نے کہا کہ آج کا ایران مایوسی سے امید پیدا کرنے کی بہترین مثال ہے۔ مشہور اسلامی اسکالرڈاکٹر جاوید جمیل نے کہا کہ ایران کاانقلاب اسلامی تاریخ کا ایک اہم ترین واقعہ تھا۔ اللہ نے قرآن میں عربوں سے کہا ہے کہ اگر اللہ کی راہ میں تم نہ نکلے تو ہم کسی اور قوم کو لے آئیں گے اور ایران عالم اسلام کے امید کی کرن بن کر ابھراجبکہ ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کہا کہ مونارکی اس خطے میں فلسطین کے تنازع کی بدولت زندہ ہے۔ یوم قدس منایا جانے لگا تو منافقین کھل کرسامنے آئے ورنہ 1967 کی جنگ کے بعد مسئلہ فلسطین دب گیا تھا اور عرب ممالک چین کی نیند سو رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ 7 اکتوبر کے بعد جو ہزاروں فلسطینی شہید ہوئے ہیں ان کے خون کی قیمت کا اندازہ دنیا کواس وقت ہوگا، جب غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں گی۔ انہوں نے کہا کہ شام کا صدرجولانی اگر مزاحمت کے لیے تیار نہیں ہے تو اس کی قیمت پورے مشرق وسطی اور عالم اسلام کو چکانی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ ہم اہل غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ہماری تمام تر ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔جبکہ پروفیسراخترالواسع نے کہا کہ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ گریٹر اسرائیل نہیں بنناہے۔انہوں نے فلسطین مملکت کو تسلیم کرنے کے فرانس کے اعلان پر سعودی عرب کے ردعمل کوچشم کشا بتایا اور کہا کہ ہمیں مسلکوں کے جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ چیزیں وقت کے ساتھ بدلیں گی۔ مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے شرکائے مذاکرہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم آئندہ بھی اس طرح مفیدو معلومات افزا مذاکرات اور کنونشن کا اہتمام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطی کی صورت حال تشویشناک ضرور ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ فرانس اور دوسرے ممالک فلسطین اور ایران کی حمایت میں آرہے ہیں، دنیا بھر میں انسانیت کی پامالی خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ کسی تفریق و تعصب سے بالاترہوکر انسانوں پر مظالم کے خلاف کھڑے ہوں۔ انسانوں پر ظلم و بربریت کو کسی فرقے یا مذہب کا مسئلہ نہ بننے دیں۔ظلم اور ناانصافی انسانیت کے ماتھے کا داغ اور پورے بنی نوع انسان کا مسئلہ ہے۔ اس موقع پر پروفیسر بصیر احمد خان اور ایڈو کیٹ
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے امریکہ-اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کا خیرمقدم کیا

دنیا کے امن کو درپیش خطرات پر اظہار تشویش اور فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور جنگی جرائم کی شدید مذمت نئی دہلی: ہندوستان کی سرکردہ مسلم تنظیموں کا وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے امریکہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔ یہ جنگ بندی مغربی ایشیا میں مزید تباہی اور کشیدگی سے بچاؤ کے لیے ایک اچھا اور ضروری قدم ہے۔ مشاورت کے صدر جناب فیروز احمد ایڈوکیٹ نے جنگ بندی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران پر حملے ایک خودمختار پر بلا جواز جارحیت، اس کی خود مختاری کی پامامالی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ صدر ٹرمپ کے حملوں اور جارحیت سے عالمی نظام اور خطے میں امن کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ مشاورت نے اسی کے ساتھ غزہ میں جاری اسرائیل کے وحشیانہ حملوں، عام شہریوں کے قتل عام اور انسانی بحران پر شدید رنج و غم اور سخت مذمت کا اظہار کیا ہے۔اس کا ماننا ہے کہ اسپتالوں، اسکولوں، صحافیوں اور امدادی کارکنوں کو نشانہ بنانا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ مشاورت کو امریکہ جیسے بااثر عالمی طاقتوں کی اسرائیل کی کھلی حمایت پر شدید تشویش ہے، جو اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عالمی اصولوں کو پامال کرنے کی شہ دے رہی ہے۔ فلسطینی عوام پر مسلط طویل عرصے سے جاری مظالم، محاصرہ، جبری بے دخلی اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی عالمی برادری کے لیے ایک کڑی آزمائش ہے۔ مشاورت عالمی برادری، اقوام متحدہ اور عالمی ضمیر سے اپیل کرتی ہے کہ وہ: 1. غزہ سمیت تمام متاثرہ علاقوں میں فوری اور مستقل جنگ بندی کو یقینی بنائیں اور عام شہریوں کو تحفظ دیں۔ 2. جنگی جرائم کے مرتکبین کو بین الاقوامی عدالتوں کے ذریعے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ 3. اس بحران کی بنیادی وجہ اسرائیل کے غیر قانونی قبضے اور نسل پرستانہ پالیسیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ 4. غزہ کی ناکہ بندی ختم کی جائے اور انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ 5. فلسطینی عوام کے حق خودارادیت اور بین الاقوامی قانون پر مبنی منصفانہ امن کی کوششوں کو بحال کیا جائے۔ مشاورت فلسطینی عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے اور دنیا بھر کے تمام انصاف پسند، امن دوست اور انسانی وقار کے علمبرداروں کے ساتھ کھڑی ہے۔
ڈاکٹر علی محمودآباد پر ایف آئی آر اور گرفتاری کی سخت مذمت

روزنامہ قومی بھارت اکیس مئی 2025
ڈاکٹر علی محمودآباد پر ایف آئی آر اور گرفتاری کی سخت مذمت

روزنامہ انقلاب ادو اکیس مئی 2025
ڈاکٹر علی محمودآباد پر ایف آئی آر اور گرفتاری کی سخت مذمت

ملک کے ایک ممتاز اسکالر اور مسلم تنظیموں کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت کے معزز رکن کی گرفتاری ملک کے آئین اور جمہوریت کی روح پر حملہ ہے نئی دہلی: آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت ملک کے ایک ممتاز اسکالر، سیاسیات کے پروفیسر، قومی اخباروں کے معتبرکالم نگار اور مشاورت کے معزز رکن، ڈاکٹر علی محمودآباد کے خلاف ’وطن مخالف تبصرہ‘ کرنے کے الزام میں ایف آئی آر اور ان کی گرفتاری پر گہری تشویش کا اظہار اور اس کارروائی کی سخت مذمت کرتی ہے۔ ان پر “ملک مخالف” ریمارکس دینے کا الزام عائد کرناانتہائی بد بختانہ فعل ہے۔ ملک کی مسلم تنظیموں اور ممتاز افراد کے وفاق نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ڈاکٹر محمودآباد ایک معزز علمی شخصیت اور عوامی مفکر ہیں، جو سیاسی نظریے اور جمہوری مکالمے میں اپنی علمی اور باریک بین شراکت کے لیے جانے جاتے ہیں۔ تنقیدی خیالات یا ماہرانہ تجزیے کو “ملک مخالف” قرار دینا ایک تشویشناک رجحان ہے جو ہمارے آئین میں موجود جمہوریت، آزادی، اور اظہارِ رائے کے حق جیسے بنیادی اصولوں کو خطرے میں ڈالتا ہے۔مشاورت کے صدر فیروزاحمد ایڈوکیٹ نےمزید کہا ہے کہ کسی اسکالر کو ان کے علمی یا عوامی بیانات پر گرفتار کرنا نہ صرف فکری آزادی پر حملہ ہے بلکہ یہ سوچ کو جرم بنائےجانے کی خطرناک نظیر قائم کرتا ہے۔ یہ رجحان ہمارے معاشرے میں تنقیدی سوچ اور مختلف نقطہ نظر کے لیے بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی عکاسی کرتا ہے۔ مشاورت نے حکام سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ ڈاکٹر علی محمودآباد کے خلاف الزامات کو فوری طور پر واپس لیں، انہیں فی الفور رہا کریں، اور ان کی عزت اور سلامتی کو یقینی بنائیں۔ مشاورت سول سوسائٹی، تعلیمی اداروں، اور تمام انصاف پسند شہریوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ڈاکٹر علی کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور تنقیدی آوازوں کو دبانے کے لیے قانون کے استعمال کی مخالفت کریں۔ مسلم تنظیموں کے وفاق نے کہا ہے کہ بھارت کی طاقت اس کے تنوع، فکری وسعت اور جمہوری اقدار میں مضمر ہے۔ زبردستی یا دھمکی کے ذریعے ان اقدار کو دبانا خود جمہوریت کی روح کو مجروح کرتا ہے۔
مشاورت کے سابق صدر نویدحامدقائدملت ایوارڈ سے سرفراز

،روزنامہ انقلاب ا28پریل -2025
مشاورت کے سابق صدر نویدحامدقائدملت ایوارڈ سے سرفراز

پرفیسر وپن کمار ترپاٹھی اور جان دیال کو بھی عوامی زندگی میں صداقت و دیانت کے لیے چنئی میں ایک باوقار تقریب میں یہ اعزاز پیش کیا گیا نئی دہلی: جنوبی ہند کے معتبر ادارہ قائد ملت ایجوکیشنل اینڈ سوشل ٹرسٹ(چنئی) نے ہفتے کو یہاں میوزک اکیڈمی کے آڈیٹوریم میں منعقدہ ایک پروقار تقریب میں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے سابق صدراورموومنٹ فار امپاورمنٹ آف مسلم انڈینس (MOEMIN)کے جنرل سکریٹری نوید حامد، مشہور صحافی و سماجی کارکن جان دیال اورسدبھاؤ مشن کے بانی نامور سائنسداں پروفیسر وپن کمار ترپاٹھی کو مدراس ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس کے این باشا کے ہاتھوں قائد ملت ایوارڈ پیش کیا۔عوامی زندگی میں دیانت داری کے لیے دیا جانے والا یہ سالانہ ایوارڈ سندتوصیف، پانچ لاکھ روپے اور نشان تکریم پر مشتمل ہے۔جسٹس باشا نیاس موقع ایورڈیافتگان کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان حضرات کو ایوارڈ پیش کرنے کی خدمت انجام دے کر اپنے آپ کو معززو مفتخر محسوس کررہاہوں کیونکہ یہ وہ افراد ہیں جوماحول کی تاریکی میں روشنی کا درجہ رکھتے ہیں جبکہ ایوارڈ یافتگان کی عزت افزائی کے موقع پر قائدملت ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری ایم جی داؤد میاخان نے کہا کہ”ان حضرات کو یہ ایوارڈ ہندوستان میں ان کی سیاسی اور ذاتی زندگی میں دیانتداری کے بے داغ ٹریک ریکارڈ پر پیش کیاجارہا ہے“’اور چرچ آف ساؤتھ انڈیا کے سبکدوش بشپ ڈاکٹر وی دیواساگایم نے اس موقع پرکہا کہ”ہم آپ کی خدمات کو تسلیم کرنے، آپ کے اقدامات کی حمایت کرنے اور تمام تر مشکلات کے باوجود آپ کی لڑائی جاری رکھنے کی خواہش کیساتھ یہاں حاضرآئے ہیں۔“جلسے کی صدارت قائدملت ٹرسٹ کے صدر قاضی ڈاکٹر صلاح الدین محمد ایوب نے کی جبکہ ایوارڈکا اعلان اور ایورڈ یافتگان کے تعارف و تکریم کی رسم ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری ایم جی داؤد میاں خان نے انجام دی۔ اس موقع پر مدراس یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر ایس صادق اور چرچ آف ساؤتھ انڈیا کے بشپ ڈاکٹردیوساگایم کی عزت افزائی بھی کی گئی۔ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری داؤد میاں خان، خازن ایس مشتاق احمد اور قائد ملت کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ایم اے تواب نے ان حضرات کی خدمت میں سندتکریم، مومنٹوز اور شال پیش کیے۔ 2024کے قائد ملت ایوارڈ کا فیصلہ فروری2025 ء میں کیاگیا تھاجس کی جیوری ڈاکٹر واسنتی دیوی (سابق وائس چانسلر)،ڈاکٹردیواساگایم (سابق بشپ)،جناب پانیرسیلوان (ریڈرس ایڈیٹردی ہندو)اور داؤد میاں خان(جنرل سکریٹری، قائد ملت ٹرسٹ) پر مشتمل تھی۔ٹرسٹ اس سے قبل یہ ایوارڈ مشہور سماجی خدمت گار تیستا شیتلواڑ اور نلاکنو(2015)،این شنکریااور سید شہاب الدین (2016)، مانک سرکاراور محمد اسماعیل (2017)،نائب صدر جمہوریہ ڈاکٹر حامدانصاری اور ارونا رائے(2018)اے جی نورانی اور تھروماوالاون (2019)، ہرش مندر اورشاہین باغ کی دادی بلقیس بانو(2020)،ڈاکٹر عرفان حبیب اور سمیوکت کسان مورچہ(2021)، تھرو ویرامانی اوردی وائر نیوزپورٹل(2022) اور این رام(دی ہندو) اور ڈاکٹر ابو صالح شریف کو پیش کرچکاہے۔یہ ایوارڈ قائد ملت مولوی محمد اسماعیل کی یاد میں پیش کیا جاتا ہے جو ملک و ملت کے ایک بے لوث خادم،مجاہدآزادی اور نامور رہنما تھے۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد ملک و ملت کی تعمیرو ترقی میں ان کا اہم کردار تسلیم کیا جاتا ہے، قانون ساز اسمبلی کے رکن، لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے رکن اور انڈین یونین مسلم لیگ کے بانی و رہنما کی حیثیت سے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے بانیوں میں بھی شامل تھے۔قائدملت ٹرسٹ نے ان کے چالیسویں یوم وصال کے موقع پر یہ ایوارڈ قائم کیا تھا جو عوامی زندگی میں سرگرم جانے مانے افراد کو ہرسال پیش کیا جاتاہے۔
پہلگام کی دہشت گردانہ واردات کی مذمت

یہ انسانیت کے دشمنوں کی حرکت ہے،بے گناہ سیاحوں کے قاتل کشمیر یا مسلمانوں کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے، اسلام میں دہشت گردی کی کوئی جگہ نہیں ہے: مشاورت نئی دہلی:پہلگام میں دہشت گردوں کے ہاتھوں معصوم سیاحوں کا قتل ایک انتہائی گھناؤنا فعل ہے اور اس کی غیرمشروط مذمت کی جانی چاہیے۔ بے گناہ انسانوں کے قاتل کشمیر یا مسلمان کسی کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے، جس نے بھی بہیمانہ کارروائی انجام دی، کشمیر اور اسلام دونوں کے دشمن ہیں۔ان خیالات و جذبات کا اظہار منگل کو پہلگام میں 28 سیاحوں کے قتل پر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے قومی صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے کیا۔انہوں نے کہا کہ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی جگہ نہیں ہے، قرآن نے ایک بے گناہ کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس واردات کی فوری تحقیقات کر کے ضروری کارروائی کی جائے۔ امن کے دشمنوں کو اجازت نہیں دی جانی چاہئے کہ وہ سماج کو تقسیم کریں۔ ہمیں اپنے ملک اور اپنے اتحاد پر ہونے والے اس حملے کے خلاف متحد ہونا چاہئے۔ جو لوگ افواہ پھیلا رہے ہیں کہ حملہ آور مذہب اور نام پوچھ کر قتل کررہے تھے، ان کا بھی مواخذہ اور تفتیش کی جانی چاہئے،کیونکہ چشم دید گواہوں کا بیان ہے کہ وہ جنگل سے چھپ کر اندھا دھند فائرنگ کررہے تھے۔ مشاورت کے صدر نے کہا کہ ہم مذہب کی بنیادپر مجرمانہ عمل کو ملک اور سماج کے امن وامان کے لئے بربادی کاسبب سمجھتے ہیں، میڈیا کو چاہئے کہ وہ اس پر توجہ دے کہ جہاں دہشت گردوں نے بہیمانہ قتل و غارت کی کارروائی انجام دی،وہیں عام کشمیری اس دہشت گردانہ عمل سے نفرت اوربیزاری کا اظہار کررہے ہیں۔مسجدوں سے اس طرح کی کارروائی سے بیزاری کا اعلان کیا جارہا ہے جو یہ بتارہاہے کہ کشمیرکا عام مسلمان کشمیر میں امن وامان کو فروغ دینا چاہتاہے، اور اس کے دل میں انسانی اخوت و ہمدردی کاجذبہ طاقتوراورزندہ ہے۔ مشاورت نے کہا کہ اس سانحے کو مذہبی رنگ دینا غلط اور گمراہ کن ہے۔ مرنے والوں میں نہ صرف مسلمان بھی شامل ہے بلکہ وہاں سے جو خبریں آرہی ہیں ان کے مطابق حملوں کے دوران مقامی لوگوں نے اپنی جان پر کھیل کر بہت سے سیاحوں کو بچایا اور زخمیوں کو اسپتال پہنچایا۔حملے کے بعد دیر تک وہاں کوئی سرکاری امداد نہیں پہنچی، زخمیوں کو اسپتال پہنچانے کے لئے وہاں کوئی گاڑی بھی نہیں تھی۔ ایسے میں مقامی لوگ اپنے گھروں سے باہر نکلے اور متعدد ایسے لوگوں کی جانیں بچائیں جو حملوں کی زد پر تھے اور اپنی جان جوکھم میں ڈال کر زخمیوں کو قریبی اسپتال پہنچایا۔
وقف ایکٹ 2025 مسلمانوں پر حملہ جھارکھنڈ مسلم مجلس مشاورت وقف ایکٹ کی مخالفت کرتی ہے:فیرو ز احمد ایڈو کیٹ

جمہوریت ٹائمز، رانچی بتاریخ: 21 اپریل 2025
مسلم ارکان پارلیمنٹ کے نام مسلم قائدین و دانشوران کا خط

صدرجمہوریہ نے وقف بل کو نظرثانی کے لیے نہ بھیجا تووسیع ترجدوجہدپر غور کرنا ہوگا اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں مسلسل اتحاد سے کام لینے پر اظہار تشکر اور اس کو مزید مستحکم کرنے کی اپیل نئی دہلی: صدرجمہوریہ ہند نے وقف بل کو نظرثانی کے لیے نہ بھیجا تووسیع ترجدوجہدپر غور کرنا ہوگا، یہ بات مسلم ارکان پارلیمنٹ کے نام اپنے مشترکہ خط میں ملک کے مسلم قائدین و دانشوران نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں مسلسل اتحاد سے کام لینے پراظہار تشکرکرتے ہوئے کہاہے اور اس اتحاد کو مزید مستحکم کرنے کی اپیل کی ہے۔موومنٹ فار امپاورمنٹ آف مسلم انڈینس کے جنرل سکریٹری نوید حامد کے دستخط سے جاری کردہ خط میں سابق ممبران پارلیمنٹ عزیز پاشا،شاہد صدیقی،محمد ادیب،احمد حسین عمران، کنور دانش علی،سابق رکن منصوبہ بندی کمیشن و قومی کمیشن برائے خواتین ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید،سابق چیئرمین قومی اقلیتی کمیشن وجاہت حبیب اللہ(سبکدوش آئی اے ایس)، سابق وائس چانسلراے ایم یو لفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ،امیرجماعت اسلامی ہندسید سعادت اللہ حسینی،آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت اور آل انڈیا مومن کانفرنس کے صدرایڈوکیٹ فیروز احمد انصاری،سابق سی ای او مہاراشٹر وقف بورڈعبد الرؤف شیخ (آئی اے ایس ریٹائرڈ)، سابق چیف سکریٹری بہارافضل امان اللہ(آئی اے ایس ریٹائرڈ)،اگنو کے سابق وائس چانسلرپروفیسر محمد اسلم،بہارانٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل کے سابق صدرپروفیسر ابوذر کمال الدین،ہمایوں کبیرانسٹی ٹیوٹ کے صدرایڈوکیٹ خواجہ جاوید یوسف، ایڈوکیٹ فردوس مرزا،آئی او ایس کی وائس چیئر پرسن پروفیسر حسینہ حاشیہ(انچارج خواتین ونگ،آل انڈیا ملی کونسل)،رضا حیدر (ڈیولپمنٹ پروفیشنل)،محمد شفیق الزماں (آئی اے ایس ریٹائرڈ)،سابق ڈی جی پی محمد وزیر انصاری،تمل ناڈومسلم منتراکزگم کے صدر پروفیسر ایم ایچ جواہراللہ، میجر (ر) ایس جے ایم جعفری، مسلم او بی سی آرگنائزیشن کے صدرشبیر احمد انصاری،سلمان انیس سوز(ماہر معاشیات اورمبصرو مصنف)،سینٹرل واٹرکمیشن کے سابق چیئرمین سید مسعود حسین،پروفیسر عصمت مہدی،پرویز حیات،ایڈو کیٹ حافظ رشید احمد چودھری (سینئر ایڈوکیٹ،گوہاٹی ہائی کورٹ)، اردو میڈیا ایسوسی ایشن کے کارگذارصدراحمد جاویداور کوگیٹو میڈیافاؤنڈیشن کے صدر شمس تبریزقاسمی نے مسلم ممبران پارلیمنٹ سے کہا ہے کہ ہم آپ کا صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے وقف اداروں کے تحفظ اور وقف ایکٹ میں مجوزہ ترمیمات کے خلاف پارلیمنٹ میں اپنی جرات مندانہ کوششوں کا مظاہرہ کیا۔ ان اداروں کے تقدس کی حفاظت کے لیے،جو ہماری ثقافتی اور مذہبی اہمیت کے حامل ہیں، آپ کی مسلسل کاوشوں اور عزم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔انہوں اس بات کے لیے بھی دلی مسرت کے ساتھ سیکولر قوتوں کا شکریہ اداکیا ہے کہ انھوں نے وقف ایکٹ میں ترمیمات کے دوران مسلم کمیونٹی کے ساتھ مضبوط انداز میں یکجہتی کا اظہار کیا۔ چونکہ اس غیر دستوری بل کے پاس ہونے کے بعد اب ہمیں مستقبل کے لیے طویل جدوجہد کا آغاز کرنا ہے، ہم مسلمانوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ اور فروغ کے لیے اپنی مشترکہ کوششوں اور تعاون کو مزید مضبوط کرنے کے منتظر ہیں۔موجودہ صورتحال نے واضح طور پر اقلیتوں کی آوازوں خاص طورپر مسلمانوں کی کمزور ہوتی آواز کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، جو کہ وسیع تر سماجی و سیاسی مباحث میں بے اثر ہو رہی ہے۔ یہ حقیقت اس بات کی غماز ہے کہ کمیونٹی اور دیگر پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ کے لیے حکمت عملی میں اہم تبدیلی کی ضرورت ہے۔مسلم قائدین و دانشوران نے اس خط میں لکھا ہے کہ وقف ایکٹ میں ترمیمات کے حالیہ بل کی منظوری نے مسلم کمیونٹی کو تقریباً مایوس اور الگ تھلگ کر دیا ہے، کیونکہ یہ ترمیمات آئین ہند میں دیے گئے ان کے آئینی حقوق کو نظر انداز کر کے کیے گئے ہیں۔ اس عمل نے مسلم نوجوانوں میں بیگانگی کا احساس پیدا کیاہے، جو اب اپنے ملک کے سیاسی منظرنامے میں اپنی جگہ کے بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں۔ اس بل کی منظوری ہندوستان میں مسلمانوں کی باوقار بقا کی جدوجہد میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ یہ دیکھنا دل دہلا دینے والا ہے کہ موجودہ حالات ہمارے آباء و اجداد کے وژن کے بالکل برعکس ہیں، جنہوں نے ایسی جامع مشترکہ قومیت کا تصور کیا تھا جہاں تمام اقوام ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکیں گی۔ ہمارے اجداد نے الگ ریاست کے تصوّر کو مسترد کیا اور اس کے بجائے ایک متحدہ ہندوستان کے مستقبل کی تعمیر میں اپنی صلاحتیں لگائیں، جہاں ہر کوئی مل کر خوشحال زندگی بسرکر سکے۔ اس وژن کا زوال ایک تشویش انگیز رجحان ہے جسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔آپ کی یکجہتی اور عزم ہمارے لیے تحریک اور امید کا ذریعہ ہے۔ ہم یقین کے ساتھ یہ توقع کرتے ہیں کہ یہ یکجہتی پارلیمنٹ کی دیواروں سے باہر بھی پھیلے گی۔ اس سلسلے میں، آپ کی خدمت میں عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ متحد ہوکر معزز صدر جمہوریہ ہند سے وقف ایکٹ میں تجویز کردہ ترمیمات پر نظرثانی کی مشترکہ درخواست کریں۔ اس طرح کا قدم نہ صرف آپ کے عزم کو مزید مضبوط کرے گا بلکہ مسلم کمیونٹی کی اجتماعی آواز کو آگے بڑھائے گا۔ مشترکہ خط میں لکھا گیا ہے کہ اگر صدرجمہوریہ ہندکے دفتر سے مثبت جواب کی راہیں مسدود ہو جائیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں جرات مندانہ اقدامات پر غور کرنا ہوگا۔ اس میں اندرون پارلیمنٹ اور اس کے باہر روزانہ احتجاج شامل ہو سکتا ہے، جن میں آئندہ پارلیمنٹ کی کارروائی کے بائیکاٹ کے ساتھ مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مسلم اراکین پارلیمنٹ کی ایک مشترکہ پریس کانفرنس پر بھی غور کرناشامل ہے۔ اس بل کے پاس ہونے کے بعدایک متحدہ جدو جہدکرنا مسلم حقوق کے تحفظ اور ہماری تشویشات کو اجاگر کرنے کے لیے ضروری معلوم پڑتا ہے، جو یقینی طور پر قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرے گا۔انہوں ہم آپ کی حکمت اور قیادت پر اعتماد کرتے ہیں کہ آپ ایک ایسا راستہ متعین کریں گے جو سب کے لیے شمولیت، مساوات اور انصاف کو یقینی بنائے اور مسلم کمیونٹی کی آواز کو بلند کرے۔ ایک بار پھر، ہم آپ کی کوششوں کے لیے دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہیں اور اس اہم اقدام میں آپ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔