اقلیتی امور اور اقلیت کی تعلیمی بہبود کے بجٹ میں تخفیف پر اظہار تشویش

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر فیروزاحمد ایڈوکیٹ نے مرکزی بجٹ کو اقلیتوں کے لیے مایوس کن بتایا نئی دہلی: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے مرکزی بجٹ کو ملک کی اقلیتوں کے لیے مایوس کن اور بی جے پی کے سیاسی مقاصد سے متاثر کہا ہے۔ مشاورت کے قومی صدر فیروزاحمد ایڈوکیٹ نے بجٹ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقلیتوں کی تعلیمی بہبود کے لیے مختص رقوم میں بھاری تخفیف اور اقلیتی امور کے بجٹ میں اعدادو شمار کا کھیل اور ہاتھ کی صفائی سے کام لینا انتہائی مایوس کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کے اس عمل سے سماج میں انتہائی بد بختانہ پیغام جائیگا اور بی جے پی کا مقصد بھی یہی ہے۔واضح رہے کہ مرکزی بجٹ میں وزارت اقلیتی امور کے لیے مالی سال 2025-26 میں 3,350 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جو کہ2024-25 کے بجٹ تخمینہ 3,183.24 کروڑ روپے کے مقابلے میں صرف پانچ فیصد اوپر ہے۔ مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے کہا کہ ریاستوں کو دی جانے والی گرانٹس میں تقریباً 1,000 کروڑ کا بڑا اضافہ کیا گیا ہے لیکن یونین ٹریٹریزحکومتوں کو دی جانے والی گرانٹس کو30.06 کروڑ سے کم کر کے10.06 کروڑ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح قبائل، خواتین اور سماجی بہبود کے بجٹ میں 35 فیصد تک کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ اقلیت کی تعلیمی بہبود کے بجٹ میں ایک بار پھر بھاری کٹوتی کی گئی ہے۔ 2024-25میں مائناریٹی ایجوکیشنل ویلفیئر کے بجٹ کو کم کر کے صرف ایک ہزار پانچ سو بہترکروڑ کردیا گیا تھا جو اس بارصرف 678.03 کردیا گیا۔ اسکولی طلبہ و طالبات کے لیے اسکالرشپس، مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ، فری کوچنگ اور تعلیمی قرضوں کے سود پر سبسڈی اقلیتی تعلیمی بہبود کے بجٹ میں شامل ہیں اور حکومت کا یہ رویہ اقلیت کے بچوں کی تعلیمی ترقی کو متاثر کریگا۔ حکومت نے مرکزی سکیموں اور منصوبوں کے لیے فنڈز میں بھی کٹوتی کی ہے جن میں ہنر کی ترویج و ترقی، روزگار، اقلیتوں کے لیے خصوصی پروگرام اور وزیراعظم وراثت وکاس اسکیم شامل ہیں۔2024-25میں ان کے لیے بجٹ 2,120.72 کروڑ تھا، جو کہ 2024-25میں گھٹا کر1,237.32 کروڑ کردیا گیا ہے۔ جبکہ2025-26 میں، پردھان منتری جن وکاس پروگرام کے لیے فنڈز میں ایک بڑا اضافہ کیا گیا ہے۔ 2024 میں اس کا بجٹ 910 کروڑ تھا اور اب یہ بڑھ کر 1,913.97 کروڑ ہو گیا ہے۔ اقلیتوں کی ترقی کینام پر علاقائی ترقی کے پروگراموں کے لیے بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکے۔

سنبھل کی شاہی جامع مسجدپرحملہ اور مسلم نوجوانوں کا قتل فاشزم کا ننگا ناچ، مجرموں کو بخشاگیاتواچھا نہ ہوگا

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کایوپی کی یوگی سرکار کو برخاست کرنے، مقتولین کو فی کس ایک کڑور روپے معاوضہ دینے اور واردات کی اعلیٰ سطحی عدالتی جانچ کرانے کا مطالبہ    نئی دہلی: سنبھل میں شاہی جامع مسجد کے سروے کی آڑمیں سرکاری دہشت گردی کاجو ننگاناچ کیاگیا،وہ کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ پانچ بے گناہ مسلم نوجوانوں کو یوپی پولیس نے جس طرح گولیوں کا نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتار دیا،وہ انتہائی المناک اورناقابل برداشت ہے۔مجرموں کو کسی بھی قیمت پر بخشانہیں جانا چاہیے۔یہ مطالبہ ملک کی مؤقر مسلم تنظیموں کے وفاق آل انڈیامسلم مجلس مشاورت نے کیاہے۔صدرمشاورت فیروز احمد ایڈو کیٹ نے اپنے شدید ردّعمل میں کہاہے کہ مقتولوں کو فی کس ایک کروڑ روپے معاوضہ ادا کیا جائے اورواردات کی اعلیٰ سطحی عدالتی تحقیقات کراکے ذمہ داروں کو قرارواقعی سزا دی جائے۔مشاورت کے صدرفیروزاحمد ایڈوکیٹ نے صدرجمہوریہ سے اترپردیش کی یوگی سرکار کو فی الفور برخاست کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حکومت کے اقتدار میں رہتے ہوئے مظلوموں کو انصاف نہیں مل سکتاہے۔وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا مجرمانہ کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے،اقتدار ملنے کے بعد اس میں اوربھی اضافہ ہوگیاہے۔مشاورت نے غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوں تو پورے اترپردیش میں مسلمانوں کے خلاف حکومتی عملہ، پولیس اور پی اے سی کا جو طرزِ عمل ہے، وہ نفرت اور تعصب سے عبارت ہے لیکن پہلے بہرائچ اور اب سنبھل میں جو کچھ ہوا، یہ ایک آرگنائزڈ کرائم ہے۔انہوں نے کہاکہ یوپی کے مختلف علاقوں میں مساجد کے حوالے سے ماحول کو بگاڑااور نئے نئے تنازعات پیدا کرکے نفرت و عداوت کی فضا پیدا کی جاتی رہی ہے۔سنبھل کی جامع مسجد کو سرفہرست رکھ کر مسلم کمیونٹی کے خلاف حالات خراب کیے جارہے ہیں اور ناحق ظلم وستم کے خلاف آواز بلند کرنے والے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ اترپردیش کی بی جے پی سرکار مسلمانوں کو ایک فریق کے طور پر نشانہ بناکر ووٹوں کی صف بندی کرنے کی کھلی سازش کرارہی ہے۔ مشاورت صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے کہا ہے کہ مسجد کا ایک بار سروے کرنے کے بعد پھر دوسری بار فوری سروے کرانے اور اسی دن اس کی رپورٹ پیش کرنے کا جو طرزعمل اختیار کیا گیا، وہ یقیناً ایک منظم سازش کا حصہ تھا۔ مسلمانوں کا غم وغصہ اور احتجاج عین فطری تھالیکن پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے یک طرفہ کارروائی اور نوجوانوں کے سینوں کو بندوق کی گولیوں سے سیدھانشانہ بنایا جو انتہائی بے رحمانہ اور بلاجواز کارروائی ہے۔اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے، وہ کم ہوگی۔ صدرمشاورت نے کہا کہ ریاستی حکومت، پولیس کے اعلیٰ اہلکاران اور زیریں عدالتیں بھی قانون کا دوہرا پیمانہ اپنا رہی ہیں جس سے ملک اور ریاست میں قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کو سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔مشاورت نے مطالبہ کیا ہے کہ مقتولین کے ورثاء کوفی الفورمناسب معاوضہ دینے اور سنبھل و اطراف امن وامان وشانتی کا ماحول بنانے کی حتی الوسع کوشش کی جائے۔مظلوموں کے زخموں پر مرہم نہ رکھا گیا تو اس کا انجام ملک و ملت کسی کے لیے بھی اچھا نہ ہوگا۔مشاورت نے اس کے لیے پہلی فرصت میں یوگی سرکار کو برخاست کرکیواردات کی غیرجانب دارانہ تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطحی عدالتی انکوائری کمیٹی تشکیل دینے کی مانگ کی ہے۔

 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر سپریم کورٹ کا فیصلہ انصاف اور آئین کی جیت

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے کہا کہ اقلیتوں کو ناروا قانونی لڑائی میں گھسیٹ کر ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے نئی دہلی: ملک کی مؤقر مسلم تنظیموں کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے سپریم کورٹ آف انڈیا کے اس تاریخی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھتے ہوئے 1967 کے سید عزیز باشا مقدمہ کے فیصلے کو کالعدم کر دیا گیا۔ مشاورت کے صدر اور معروف قانون دان فیروز احمد ایڈوکیٹ نے کہا ہے کہ یہ آئین و انصاف کی جیت ہے۔انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ اب اقلیتوں کو ناروا قانونی لڑائی میں گھسیٹ کر ملک و قوم کی بہترین صلاحیتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ فرقہ پرست عناصر ابے اپنے گریبانوں میں منھ ڈالیں۔ سپریم کورٹ کی سات رکنی آئینی بینچ نے جس کی سربراہی چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کر رہے تھے، عدالت کی اکثریتی رائے سے فیصلہ دیا کہ پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے قائم اداروں کا اقلیتی کردار ختم نہیں کیا جا سکتا، عدالت نے عزیز باشا کیس میں سپریم کورٹ کے سابقہ موقف اور استدلال دونوں کو غلط قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ اس پر ایک نئی بنچ ہدایات تیار کرے گی۔ اب چونکہ سپریم کے اس فیصلے کی روشنی میں اب سپریم کورٹ کی نئی بنچ مسلم یونیورسٹی کے مقدمے کا فیصلہ کرے گی،مشاورت نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس مسئلہ کو جلد از جلد ہمیشہ کے لیے ختم کرے، قانون کی اس ناروا کشمکش کا سلسلہ کا سلسلہ بند ہونا چاہیے جس میں دہائیوں سے ہماری بیش قیمت توانائیاں ضیا ع ہورہی ہیں۔ صدر مشاورت فیروزاحمد ایڈو کیٹ نے مزید یہ بھی کہا ہے کہ ملک میں صرف مذہبی اقلیتی ادارے ہی نہیں ہیں، لسانی اقلیتی اداروں کی بھی کثیر تعداد ہے اور ہندوؤں کے اقلیتی ادارے بھی ہزاروں کی تعداد میں ہیں لیکن مسلمانوں کی نفرت و عداوت میں گرفتار عناصر کی آنکھوں پر پٹیاں پڑی ہوئی ہیں۔  صدرمشاورت فیروز احمد ایڈوکیٹ نے میڈیا کے لیے جاری کردہ اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ فیصلہ نہ صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بلکہ ملک بھر کے دیگر اقلیتی اداروں کے حقوق کی حفاظت کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے سے اقلیتوں کے تعلیمی ادارے قائم کرنے کے حق اور ان کے اقلیتی کردار کے تحفظ کو مضبوط بنیاد فراہم کی ہے، جو ملک کے آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق میں شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ چونکہ ابھی حتمی فیصلہ آنا باقی ہے اس لئے سپریم کورٹ میں پوری قوت اور حکمت عملی کے ساتھ اس لڑائی کو انجام تک پہونچانے کی ضرورت ہے۔

 مشاورت نے مدرسہ بورڈ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا

بی جے پی کی حکومتیں دینی مدارس کو ہراساں کرنابندکریں: فیروزاحمدایڈوکیٹ نئی دہلی: اترپردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈکوالٰہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعے غیرآئینی قراردئے جانے کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ فرقہ پرست فاشسٹوں کے لیے سبق آموزہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت اس کا خیرمقدم کرتی ہے۔یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب بی جے پی کے زیراقتدار ریاستوں میں مدارس اسلامیہ کوطرح طرح سے ہراساں کیاجارہاہے۔ ان خیالات کا اظہارمنگل کو یہاں ملک کی مسلم تنظیموں اور ممتازشخصیتوں کے وفاق(مشاورت) کے صدر فیروزاحمد ایڈوکیٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے ردعمل میں کیا، انہوں نے کہاکہ بی جے پی کی حکومتیں اورسرکاری ایجنسیاں مدارس کو ہراساں کرتی ہیں اوراس سے حوصلہ پاکر فرقہ پرست عناصربھی دینی مدارس کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، الٰہ آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھاجس میں کہا گیا تھا کہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ غیرآئینی ہے۔واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ بچوں کو دینی تعلیم و تربیت دینا کوئی غیر قانونی عمل نہیں ہے۔عدالت نے بڑی وضاحت کے ساتھ کہا ہے کہ سیکولرزم کا مطلب ہے ”جیو اور جینے دو“۔ اس سے ہندوستان کے تکثیری معاشرے میں متنوع تعلیمی نقطہ نظر کے ساتھ بقائے باہمی کے اصولوں اور ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے۔ اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مدرسہ ایکٹ ریاست کی ذمہ داریوں کا حصہ ہے، لہٰذا اس میں تعلیم کو معیاری بنانا اور طلبا کو اس قابل بنانا کہ ان میں سماجی اور معاشی سطح پر شراکت داری کی اہلیت پیدا ہو، حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ سپریم کوٹ نے آرٹیکل 21 اے اور رائٹ ٹو ایجوکیشن کو مذہبی و لسانی اقلیتوں کے حقوق سے جوڑتے ہوئے کہا ہے کہ مدارس اپنے مذہبی کردار کو برقرار رکھتے ہوئے سیکولر تعلیم دے سکتے ہیں۔    آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈو کیٹ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مدارس میں زیر تعلیم بچوں کی اکثریت خط افلاس کے نیچے جینے والوں کی ہے اور یہ مدارس بلاتفریق سب کوفری تعلیم دیتے ہیں، ملک کی شرح خواندگی میں ان کاگرانقدرتعاون ہے، حکومت اترپردیش غیررسمی جزوقتی دینی درسگاہوں کوبھی مدارس میں شمار کرکے سنسنی پھیلاتی آئی ہے، مدارس کی سرگرمیوں  میں مداخلت آئین و قانون کے منافی ہے،مسلمانوں کے آئینی حقوق، مذہبی آزادی،تعلیمی خودمختاری اوربچوں کی ہمہ گیرنشوونما کوپامال کر نے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جاسکتی۔ مدارس کو انکوائری کے نام پر ہراساں کیا جانا بھی ملک اور سماج کے مفادات کی پامالی ہے۔حق تعلیم ایکٹ مرکز اور ریاستوں کو بچوں کی پسند کے تعلیمی اداروں میں ہی معیاری تعلیم مہیا کرانے کا پابند بناتاہے اوراس قانون میں دینی مدارس کو تحفظ حاصل ہے اور یہ مدارس ملک کے ایک کروڑ سے زائداورریاست اترپردیش کیلاکھوں بچوں کی تعلیم کا بوجھ اٹھاتیاوریہ ملک کی شرح خواندگی میں گرانقدرتعاون کرتے ہیں۔

اردو کے تعلق سے سی بی ایس ای کی معاندانہ پالیسی پر مشاورت کا احتجاج

سی بی ایس ای کے چیئرمین کے نام عرضداشت، اردو میں امتحانات لینے سے انکار بچوں کے آئینی حقوق اور قانون کی کھلی خلاف ورزی، مرکزی وزیر تعلیم سے مداخلت کا مطالبہ، مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے کہا کہ سی بی ایس ای کو تجارتی خطوط پر چلانا جمہوریت کی روح اور کثیرلسانیت کی قومی تعلیمی پالیسی پر حملہ ہے نئی دہلی:ملک کی مؤقرمسلم تنظیموں اور ممتاز رہنماؤں کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) کی امتحانات سے متعلق پالیسی میں اردو کے ساتھ بورڈ کے معاندانہ رویے پر بورڈ کے چیئرمین مسٹر راہل سنگھ (آئی اے ایس) کے نام عرضداشت میں کہا ہے کہ اردو میڈیم اسکولوں کے طلبہ و طالبات کے امتحانات اردو میں لینے سے انکار اردو لسانی بچوں کے آئینی حقوق اور قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مشاورت نے گزشتہ دنوں اپنے سالانہ مشترکہ اجلاس میں اس سلسلے میں ایک تفصیلی قرارداد منظور کرکے بھی بورڈ کے فیصلے پر سخت احتجاج کیا تھا۔ پس منظراور خدشات عرضداشت میں کہا گیا ہے کہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (MANUU) نے 2010 میں حیدرآباد، نوح (ہریانہ) اور دربھنگہ (بہار) میں اردولسانی بچوں کے لیے تین ماڈل اسکول قائم کیے تھے۔ ان اسکولوں کوسی بی ایس ای نے اردو بنیادی ذریعہ تعلیم کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے منظوری دی تھی۔ 2020 تک بورڈ ان اداروں کے طلباء کے لیے انگریزی، ہندی اور اردو میں امتحانات کے پرچہ سوالات فراہم کرتا رہا لیکن2021 سیاس نے اردو کو سوالات کے پرچوں کے آپشن کے طور پر بغیر کسی پیشگی مشورے کے ختم کر دیا جس سے مانو کے اسکولوں اوردوسرے اردو میڈیم اسکولوں کے طلبا ء وطالبات متاثر ہوئے۔ اس کے بعد سے ان بچوں کو مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ انہیں صرف ہندی اور انگریزی میں فراہم کردہ سوالات کے جوابات دینے پر مجبور کیا گیاہے۔ مزید برآں، جون 2024 میں، بورڈ (CBSE) نے ایک اضافی پالیسی متعارف کروائی جس کے تحت ہندی یا انگریزی کے علاوہ کسی اور زبان میں لکھے گئے پرچوں کی جانچ کے لیے سوائے قومی دارالحکومت دہلی کے پیشگی اجازت کی شرط رکھی گئی ہے۔ اس سے ملک بھر میں اردو میڈیم طلباء کے لیے مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔ اثرات کی سنگینی مشاورت نے اپنی قرارداد اور اس عرضداشت میں یہ بھی کہا ہے کہ اس پالیسی نے نہ صرف مانو سے ملحقہ اداروں کو متاثر کیا ہے بلکہ ملک گیر سطح پر اردو میڈیم تعلیم کی رسائی اور استحکام کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے، یہاں تک کہ مانو جیسی مرکزی یونیورسٹی بھی اس کی زد میں آگئی ہے۔ طلباء کو ان کی مادری زبان میں امتحانات لکھنے سے روک کرسی بی ایس ای، نئی قومی تعلیمی پالیسی 2024 میں اپنائی گئی کثیر لسانیت و جامعیت کی پالیسی کو نقصان پہنچا رہا ہے جو علاقائی زبانوں میں تعلیم کو فروغ دینے پر زور دیتی ہے۔ یہ عرضداشت زور دے کر باور کراتی ہے کہ اردو ہمیشہ سے ملک کی درج فہرست قومی زبانوں میں سے ایک ہے اور ہندوستان کے چھ کروڑ سے زائد شہریوں کی مادری زبان ہے، نیز یہ کئی ریاستوں کی سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ سوالات کے پرچے اردو میں جاری کرنے پر پابندی اور اردو میں امتحانات لینے سے انکار کرنا آئین اور قانون کے ذریعے دیے گئے حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مطالبات مندرجہ بالا حقائق کے پیش نظر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے مطالبہ کیا ہے کہ سابقہ پالیسی کو فوری طور پر بحال کیا جائے جس کے تحت طلباء کو اردو میں سوالات کے پرچے ملیں اور وہ اردو میں اپنے جوابات لکھ سکیں۔ مشاورت کے صدرفیروز احمد ایڈوکیٹ نے کہا ہے کہ سی بی ایس ای کو تجارتی (کمرشیل) خطوط پر چلانا جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔ مرکزی وزیر تعلیم کو مداخلت کرنی چاہیے۔کثیر لسانیت کو فروغ دینا حکومت کا فرض ہے۔ امتحانات میں اردو کے استعمال کو محدود کرنے کی پالیسی پر فوری نظرثانی کی جائے اور متاثرین کو سڑکوں پر اترنے اور قانون کی لڑائی چھیڑنے کے لیے مجبور نہ کیا جائے۔

بہرائچ کے فسادات اور کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے پر مشاورت کا سخت ردعمل

ملک کے سماجی تانے بانے کو سنگین خطرات لاحق، نفرت اور تشدد کی سیاست ناقابل قبول: فیروز احمد ایڈوکیٹ نئی دہلی: بہرائچ کے مہسی اور دوسرے مقامات پر پولیس کی پشت پناہی میں اتوار سے جاری فسادات پر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد کی سیاست سے ملک کے سماجی تانے بانے کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے اترپردیش کی یوگی حکومت کو اس کے لیے براہ راست ذمہ دار قرار دیتے ہوئے، وزیر اعلی سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ یوپی پولیس بلوائیوں کی پشت پناہی کررہی ہے، تصویروں اور ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اقلیتی آبادی پر حملہ کرنے والی بھیڑ میں کبھی پولیس آگے آگے اور دنگائی پیچھے پیچھے چل رہے ہیں جبکہ کبھی دنگائی پیچھے پیچھے اور پولیس آگے آگے چل رہی ہے۔صدر مشاورت نے کہا کہ بہرائچ میں تشدد کی جو کارروائیاں ہوئیں وہ اتفاقی نہیں، منصوبہ بندکارروائیاں ہیں، پہلے فساد کرایا گیا اور اب بے گناہوں پر ظلم ڈھایا جارہا ہے۔سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ فیروز احمد نے کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو بھی انتہائی افسوسناک بتایا ہے جس میں اشتعال انگیزی کے ان ملزمین پر درج کردہ مقدمہ کو منسوخ کردیا گیا ہے جنھوں نے ایک مسجد میں گھس کر جے شری رام کا نعرہ لگایا اور علاقے کی سماجی ہم آہنگی اور امن و قانون کو تباہ کرنے کی سازش کی تھی۔انہوں نے کہا کہ عدالت کا یہ ریمارکس زیادہ قابل افسوس ہے کہ مسجد کے اندر جے شری رام کا نعرہ لگانے سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح نہیں ہوتے۔انہوں نے کہا کہ پولیس اور ججوں کے اسی رویے سے شرپسندوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ درگا پوجا کے جلوس کے دوران ایک مسلمان کے گھر پر چڑھ کر اس پر موجود سبز مذہبی پرچم کو ہٹانا، بھگوا پرچم لہرانا اور جلوس کے ساتھ ڈی جے پر اشتعال انگیز گانا چلانا علاقہ میں فساد پھوٹ پڑنے کا سبب بنا کیونکہ پولیس نے شر پسندوں کو اس سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کی۔یوپی کی حکومت و انتظامیہ فساد پر قابو پانے میں ہنوزناکام ہے، لگاتار دوسرے تیسرے دن بھی اقلیتی علاقوں پر حملے ہوئے، جمعرات کو ایک فرضی انکاؤنٹر میں پولیس نے مسلم نوجوانوں کو شدید زخمی کردیا اور اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو یک طرفہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بہرائچ کی مہسی تحصیل کے مہراج گنج میں اتوار کی شام پھوٹ پڑنے والے فساد کا دائرہ دیہاتوں تک پھیل گیا اور شرپسندوں نے بے روک ٹوک اقلیتی فرقہ کے مکانوں، دکانوں اور عبادت گاہوں کو دن بھر نشانہ بنایا۔ شرپسندافرادگروپ کی شکل میں آس پاس کے مواضعات میں سرگرم رہے اور جابجا اب بھی حملے کررہے ہیں کیونکہ ان کو پولیس اور حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ صدر مشاورت نے کہا کہ یہ سلسلہ اس وقت تک رک نہیں سکتا جب تک کہ یوگی آدتیہ ناتھ اقتدار میں ہیں۔مقامی باشندے پولیس اور انتظامیہ کی بے حسی کی تنقید کر رہے ہیں لیکن ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے۔ بلوائیوں کا گروپ جب گاؤں میں توڑ پھوڑ، آتشزنی اور لوٹ مار کرکے چلا جاتا ہے تب پولیس آتی ہے اور وہ الٹے مظلوموں کو نشانہ بناتی ہے۔ضلع میں انٹر نیٹ خدمات بند ہیں۔ پولیس نے حالات قابو میں آجانے کا دعویٰ کیاہے لیکن سچائی یہ ہے کہ بلوائیوں کو لوٹ مار کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور پولیس بھی مظلوموں پر ہی ظلم ڈھارہی ہے۔ پورے متاثرہ علاقہ میں پولیس فورس تعینات ہے۔ایس ٹی ایف کے کمانڈو دستے اور سی آر پی ایف کے جوانوں نے مورچہ سنبھال لیا ہے لیکن صورت حال بدستور سخت کشیدہ اور دھماکہ خیز بنی ہوئی ہے۔  اتوار کو درگا پوجا کی مورتی وِسرجن کے جلوس کے دوران مسلم علاقوں سے گزرتے ہوئے ڈی جے پر انتہائی اشتعال انگیز گانے بجائے گئے اور پھر مسلمانوں کے ایک مکان پر چڑھ کر زبردستی سبز پرچم ہٹا کر بھگوا پرچم لہرایاگیا۔اس کے بعد پھوٹ پڑے تشدد کا سلسلہ آئندہ  دو دنوں تک جاری رہا اور تشدد کی وارداتیں اب بھی ہو رہی ہیں۔ضلع کے فخرپور، قیصر گنج، گائے گھاٹ اور شہرکے مختلف علاقوں میں مورتی وِسرجن کے جلوس کے دوران شرپسندوں نے ہتھیاروں کا مظاہرہ کیا، ایک مزار میں آگ لگا دی۔ مدرسوں اور عبادت گاہوں پر پتھراؤ کیا، شہر کے چوک بازار سے متصل گنج تالاب مارکیٹ میں مسلمانوں کی دکانوں کو نشانہ بنایا، گاڑیوں کو آگ کے حوالے کیا اور پولیس یاتو اس میں شریک تھی یا تماشائی بنی رہی۔ مشاورت کا ماننا ہے کہ صدر جمہوریہ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس میں مداخلت کریں اور معاملے کی اعلی سطحی جانچ کرائی جائے تاکہ مظلوموں کو انصاف مل سکے۔