پیغمبر اسلام ؐ کی شان میں گستاخی ناقابل برداشت

  نئی دہلی: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے نام نہاد سوامی یتی نرسنگھانند کی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی شان میں گستاخی کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بدزبان شخص نے جو گستاخانہ کلمات کہے ہیں، وہ اس کی بدترین اشتعال انگیزی اور ناقابل برداشت حرکت ہے۔صدر مشاورت فیروز احمد ایڈوکیٹ نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ ایسے بدزبان شخص کو بلاتاخیر گرفتار کرے اور مقدمہ چلاکر سزا دے۔ انہوں نے کہا کہ اس کو آزاد چھوڑنا خطرناک ہے، کسی مہذب معاشرے میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہوسکتی، ایسے بدزبان شخص کی جگہ جیل ہے۔یہ شخص بار بار ملک کے کروڑوں باشندوں کی دل آزاری کر رہا ہے اور اس کی حرکتوں سے ملک کا امن وامان خطرے میں ہے۔ صدر مشاورت نے کہا کہ مسلمان ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور مورتی پوجا اسلام میں بدترین گناہ ہے لیکن یہ اپنے ماننے والوں کو کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں کی بے حرمتی سے روکتا ہے اور کسی کی بھی دل آزاری کی اجازت نہیں دیتا۔یہاں تک کہ قرآن نے ان دیوی دیوتاؤں کو بھی برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے جن کو غیرمسلم پوجتے ہیں، انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ نرسنگھانند کی گستاخی ایک بیہودہ شخص کا فعل بد ہے، ہمیں اس بدزبان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے اورحکومت سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اس شخص کو قرار واقعی سزا دے اور مسلمانوں کو چاہیے وہ جہاں بھی ہوں، اپنے ہم وطنوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی سیرت سے آگاہ کریں اور ان کو بتائیں کہ انسانوں کی آزادی اور برابری کے دشمنوں کو حضور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم سے کیا تکلیف ہے اور وہ ان کے کردار کو اس لئے مسخ کرنا چاہتے ہیں تاکہ مظلوموں کو ایک ہونے اور ان کی تعلیمات انصاف و مساوات کو اپنانے سے روکیں۔

حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ کے قتل کی مذمت

اسرائیل کی اس جارحیت سے خطہ میں خون خرابہ مزید بڑھے گا: مشاورت نئی دہلی: آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت، لبنانی مزاحمتی گروپ حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ کے المناک قتل پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتی ہے اور اس وحشیانہ عمل کی شدید مذمت کرتی ہے۔ مشاورت کے صدر فیروزاحمدایڈوکیٹ نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ ہم اس قسم کے تشدد کی سخت مخالفت کرتے ہیں جو صرف تنازعات کو بڑھاتا ہے، امن کی کوششوں کو تباہ کرتا ہے اور بے گناہ لوگوں کے مصائب میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حسن نصراللہ خطہ کی ایک نمایاں شخصیت تھے، جن کی قیادت اور عزم نے ان کے پیروکاروں اور کمیونٹی پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ ان کی شہادت ان لوگوں کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے جو انہیں اپنے حقوق اور مفادات کا محافظ سمجھتے تھے۔ نظریاتی اختلافات اپنی جگہ لیکن ہم پختہ یقین رکھتے ہیں کہ تنازعات کا حل تشدد کے بجائے مکالمے کے ذریعے ہونا چاہیے۔ہمارا ماننا ہے کہ مشرق وسطی میں تشدد کی گرم بازار اور فلسطین کے لوگوں کے انسانی حقوق کی پامالی کے لیے جو طاقتیں سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں ، ان میں ذاتی طور پر اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوگ ،وزیراعظم نتن یاہو، اسرائیلی افواج کے سربراہ اور ان کی پیٹھ پہ کھڑے امریکہ اور برطانیہ کے سربراہان مملکت سر فہرست ہیں ۔ بھارت کی مسلم تنظیموں کا وفاق ان کے خاندان، حامیوں اور لبنان کے عوام کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہے۔ ہم دعا گو ہیں کہ اس خطے میں امن اور انصاف قائم ہو اور مزید خونریزی کا خاتمہ ہو۔ ہم تمام فریقین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ تحمل سے کام لیں اور تنازعات کے پرامن حل کی جانب قدم بڑھائیں کیونکہ تشدد پہلے سے ہی مصیبت زدہ کمیونٹی کے زخموں کو مزید گہرا کرے گا۔ اللہ حسن نصراللہ کی مغفرت فرمائے اور ان کے خاندان اور چاہنے والوں کو اس مشکل وقت میں صبر اور طاقت عطا فرمائے۔

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے اجلاس میں ملک و ملت کو درپیش مسائل پر غوروفکر

مسلم تنظیموں کے نمائندوں،ممتازرہنماؤں اوردانشوروں کاملک کی سیاسی و سماجی صورتحال پر اظہار تشویش، اقلیتوں اور مظلوموں کے اتحاد پر زور، انصاف کے لیے مل کر لڑنے کاعزم ہجومی تشدد، بلڈوزر راج،نفرت و عداوت کی سیاست، اقلیت مخالف معاشی پالیسی ،سی بی ایس ای کی اردودشمنی، انتخابی حلقوں کی حدبندی،دہلی کے متاثرین فسادات کے لیے انصاف، بےگناہ قیدیوں کی رہائی،مظلومین آسام کی دادرسی اوروقف ترمیمی بل سمیت اہم امور پر 20 سے زائد قراردادیں منظور، پڑوسی ممالک اور فلسطین کے حالات و واقعات اورہندوستان پران کےاثرات بھی زیر بحث آئے نئی دہلی: ملک کی مؤقر مسلم تنظیموں اورممتازاشخاص کے وفاق “آل انڈیامسلم مجلس مشاورت” کا سالانہ اجلاس ہفتے کو نئی دہلی میں منعقد ہوا۔ مہاراشٹر، جھارکھنڈ، کرناٹک، مغربی بنگال، تلنگانہ، دہلی، اتر پردیش، ہریانہ اور بہار کے نمائندوں کی ایک اچھی تعداد نے اس میٹنگ میں شرکت کی اور ملک وملت کو درپیش مسائل پرغوروفکرمیں حصہ لیا۔مسلم تنظیموں کے نمائندوں، ممتاز قائدین ، ارکان پارلیمنٹ ، دانشوران،علمائے دین اور اصحاب رائے نے اس موقع پر ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ، اقلیتوں اور دیگرکمزور طبقات کے اتحاد پر زور دیا اور انصاف کے لیے مل کر جدوجہد کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ہجومی تشدد، نفرت کی سیاست، حکومت کی اقلیت مخالف اقتصادی پالیسی ، سی بی ایس ای کے اردو مخالف فیصلے، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی حالت، انتخابی حلقوں کی حد بندی، وقف ترمیمی بل، ذات برادری کی مردم شماری، بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں بلڈوزر راج، آسام اور یوپی کی تشویشناک صورت حال ،شمال مشرقی دہلی( 2020 ) کےمتاثرین فسادات کے لیے انصاف اوربےگناہ قیدیوں کی رہائی جیسے سلگتے مسائل پر تقریباً 20 قراردادیں منظور کی گئیں۔ اجلاس میں پڑوسی ممالک کی صورتحال ، فلسطین کے لوگوںپراسرائیلی مظالم اور دنیا پر اس کے اثرات بھی زیربحث آئے اوران پرقراردادیںمنظور کی گئیں۔شرکائے اجلاس کی پختہ رائے تھی کہ مسلمانوں کے خلاف حکومت کے دشمنانہ رویے، اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف ریاستی ایجنسیوں کے استعمال اور نفرت کی سیاست کا متحد ہوکر مقابلہ کرنا ہے۔ صدرمشاورت فیروز احمد ایڈوکیٹ نے اپنے صدارتی کلمات میںبھی اس عزم کا اعادہ کیا۔انہوں نے کہاکہ ہم مسلمانوں کوبانٹنے کے لیے “پسماندہ غیرپسماندہ کارڈ” کھیلنےکی اجازت ہرگزکسی کونہیں دیںگے۔ انہوں نےکہا کہ مشاورت اپنی صوبائی یونٹوں کو مضبوط کرےگی اور کم ازکم 20 ریاستوں میں مشاورت کواسی سال فعال کیاجائےگا جبکہ مشاورت کے رکن اور سابق رکن پارلیمنٹ شاہد صدیقی نے اس موقع پرمشاورت کے ماضی کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مشاورت ایک بااثر تاریخی تنظیم رہی ہے جس کی ساکھ کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں ارکان مشاورت پرزور دیا کہ آپ اس کی کریڈبلیٹی کو رسٹور کریں ،نہ توافراد کی کمی ہوگی نہ وسائل کی کمی رہےگی ۔انہوں نے کہا کہ مسلم ممبران اسمبلی و پارلیمنٹ کے درمیان آپسی روابط بڑھانےکی ضرورت ہے، مشاورت اس پر کام کرے کہ مسلم ممبران پارلیمنٹ و اسمبلی کم ازکم اسمبلی و پارلیمنٹ کے ہر اجلاس سے پہلے میٹنگ کیاکریں۔مشاورت نےان کی اس تجویزپررکن پارلیمنٹ جناب ای ٹی محمد بشیر ، سابق ممبران پارلیمنٹ جناب شاہد صدیقی، جناب عزیز پاشا، جناب کنور دانش علی ،جناب م افضل اورمشاورت کے سابق صدر جناب نوید حامد پرمشتمل پارلیمانی امورکی ذیلی کمیٹی تشکیل دی۔ اسی طرح مشاورت کے رکن اوراتر پردیش کے معروف سیاسی و سماجی رہنما اخترحسین اختر نے کہا کہ مشاورت کو اوقاف اور دوسرے اہم امور پر مسلمانوں کے لیے گائڈ لائن جاری کرنا چاہیےاور اس کام کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جائےجبکہ مشاورت کے نائب صدر نوید حامد نے کہا کہ ملک بھر سےسیکڑوں میل کا سفر کرکے ارکان و مندوبین کا اس اجلاس میں شریک ہونا ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ ملت کے مسائل میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ انہوںنے کہاکہ مشاورت کواب بھی ملک و بیرون ملک،سیاسی و سماجی حلقوں میں سنجیدگی سے لیاجاتاہے۔اس سے قبل مشاورت کے جنرل سکریٹری (میڈیا) احمدجاویدنے مشاورت کی گذشتہ کارروائیوں کی رپورٹ پیش کی ۔ رپورٹ میں ان صحافیوں کے لیے قانونی امدادکا نظم جو سچائی کو سامنے لانے کے لیے اپنے آپ کواوراپنے مستقبل کو خطرے میں ڈالتے ہیں اوراسی طرح میڈیا مانیٹرنگ سیل اور ڈیٹا سینٹر کے قیام کے منصوبے کی تفصیلات بھی شامل تھیں۔مشاورت نے ملک وقوم کو درپیش مسائل پر قومی کنونشن بلانےاور سید شہاب الدین کی یاد میں سالانہ لیکچر کرانےکا بھی اعلان کیا ۔پہلا سیدشہاب الدین میموریل لکچر اس سال 4 نومبر کو منعقدکیاجائےگا۔ رپورٹ میں مشاورت کی عمارت کی تعمیر نو اور مشاورت ریفرنس لائبریری کے استحکام کی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی گئی اوربتایاگیاکہ دفتر مشاورت میںایک علاحدہ ریڈنگ روم کی سہولت بھی ہے جو مسابقتی امتحانات کی تیاری کرنے والے طلباء کے لیےوقف ہے۔مشاورت کےجنرل سکریٹری (فائنانس)جناب احمدرضا نے سال گذشتہ کی آمدوخرچ کا حساب وکتاب اور سال 2024-25کابجٹ پیش کیا۔بنگلور (کرناٹک) سےآئے رکن مشاورت حیدرولی خاں نے مشاورت کے بجٹ میں انتظامی اموراورمیڈیا کےلیےرقوم میں اضافہ کرنے کی تجویز رکھی جس کی حاضرین نے تائید کی اوربجٹ کواتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔میٹنگ کے دوسرے حصے میں ڈاکٹر قیصر شمیم ،سابق سکریٹری سنٹرل وقف کونسل(حکومت ہند) نے وقف ترمیمی ایکٹ 2024 پر قرارداد پیش کی جس پر بحث میں سابق ایم پی عزیز پاشا اور دیگراراکین نےحصہ لیا۔اسی طرح ہجومی تشدد پرقراردادپر خورشید حسن رومی، منظور احمد اورسپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ اعجاز مقبول نےتجاویزپیش کیں۔ دونوں قراردادیں ان مسائل پر مرکزی حکومت اور ریاستوں کی این ڈی اے حکومتوں کی پالیسیوں اور کام کاج کے طریقے کو مسترد کرتی ہیں۔قرارداد میں نشاندہی کی گئی کہ قانون کے نفاذ کے تقریباً تین دہائیوں کے بعد بھی حکومت وقف ایکٹ 1995 کے تحت اوقاف کا سروے کرانے میں ناکام رہی ہے، نئے قواعد و ضوابط کی توضیع ، بورڈ میں کل وقتی سی ای او کی تقرری اور قانون کے دیگر مینڈیٹ پربھی اس نے عمل درآمد نہیںکیا۔ یہ صرف ریاستیں ہی نہیں جو ایکٹ کو نافذ کرنے میں ناکام رہی ہیں، مرکز بھی نگرانی کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سنٹرل وقف کونسل کی میعاد 3فروری2023 کو ختم ہو گئی تھی اور اس کی تشکیل نو نہیں کی گئی ۔ کونسل کے سیکرٹری کو 11اپریل2023 کو رخصت کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے کونسل

حلقہ بندی کے عمل پر قرارداد

آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت کے قومی اجلاس میں منظور کی گئی تاریخ:21 ستمبر2024 ہندوستان کے آئین کی رو سے ہر دس سال بعد مردم شماری ہونی چاہیے اور شائع شدہ اعداد و شمار کی بنیاد پر لوک سبھا اور ریاستی اسمبلی کے حلقوں کے ساتھ ساتھ میونسپل کارپوریشنوں، میونسپل بورڈوں، میونسپل کونسلوں، ڈسٹرکٹ کونسلوں، پنچایت سمیتیوں اور گرام پنچایتوں کے وارڈز کی سرحدوں کو ازسرنو متعین کیا جانا چاہیے۔ آئین کے نفاذ(1950 ) کے بعد سے یہ عمل وقتاً فوقتاً کیا جاتارہا ہے۔ تاہم، 2002 میں آئین کی 84ویں ترمیم کے تحت لوک سبھا اور اسمبلی کے حلقوں کی حد بندی بالعموم 2031 میںاگلی مردم شماری کے اعداد و شمار کی اشاعت تک روک دی گئی۔ اس کے باوجود، مقامی اداروں (میونسپل کارپوریشنز، میونسپل بورڈز، ڈسٹرکٹ کونسلز، پنچایت سمیتیوں، گرام پنچایتوں وغیرہ) کے وارڈز کی حد بندی ہر دس سال بعد جاری ہے۔ حلقہ بندی کے قوانین اور قواعد ٹھوس ہیں لیکن ان کا نفاذ اکثر ناکافی ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں بعض کمیونٹی کو جمہوری نمائندگی کا مکمل انصاف نہیں ملتا۔ ہندوستان کے ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے، ہمیں چوکس رہنا چاہیے اور نچلی سطح پر منظم طریقے سے کام کرنا چاہیے تاکہ حلقہ بندی کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے اور یہ کسی بھی آبادی یا کمیونٹی کی نمائندگی پر منفی اثر نہ ڈالے۔ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے حلقوں کی حد بندی کا عمل واجب العمل ہے اور اگلی مردم شماری کے بعد مکمل کیاجاسکتا ہے کیونکہ “خواتین ریزرویشن ایکٹ 2023کے تحت پارلیمنٹ میں خواتین کے لیے نشستیں محفوظ کرنے کی دفعات کو نافذ کیا جانا ہے۔ لہٰذا، قومی مردم شماری اور حلقہ بندی کا عمل آپس میں جڑا ہوا ہے اور مسلم کمیونٹی اور دیگر پسماندہ گروہوں کی فوری توجہ کا مستحق ہے۔ ہمیں دونوں کارروائیوںپر نظر رکھنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت (AIMMM) کا پختہ احساس ہے کہ ماضی میں انتخابی حلقوں کی حدبندی کو بار بار مخصوص آبادیوں اور کمیونٹی، خاص طور پر مسلم کمیونٹی کی نمائندگی پر منفی اثر ڈالنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ ماضی کے تجربات سے مشاورت نے یہ پختہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تقریباً 80 لوک سبھا سیٹیں، جہاں مسلم ووٹروں کی بڑی تعداد ہے، جان بوجھ کر درج فہرست ذاتوں (SC) کے لیے مخصوص کر دی گئیں جبکہ ایسی نشستوں کو جن میںدرج فہرست ذات کے لوگوں کی بڑی آبادی موجود ہے، عام زمرے میں رکھا گیا۔ درج فہرست ذاتوں کی آبادی کو لوک سبھا یا ریاستی اسمبلیوں میں عام زمرے کے تحت ڈالنے کا بنیادی مقصد نہ صرف دلتوں کی مضبوط قیادت کے ابھرنے کے مواقع کو بند کرنا ہے بلکہ یہ بھی یقینی بنانا ہے کہ اس کمیونٹی کا بڑا حصہ ہندو رہنماؤں کے زیر اثر رہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مخصوص لوک سبھا حلقوں کے آبادیاتی اعداد و شمار میں درج فہرست ذاتوں کی آبادی مسلم ووٹروں کے مقابلے میں کم پائی گئی ہےاور اس کا مقصد مسلم کمیونٹی کی مساوی اور باعزت نمائندگی کو روکنا ہے۔ لہٰذا، ماضی میں حلقہ بندی کا عمل ایک گھناؤنے ایجنڈے کے تحت عمل میں لایا گیا تاکہ مسلم اور ایس سی کمیونٹیز کی مضبوط سیاسی قیادت کے ابھرنے اور ان کی پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں معتبر نمائندگی کے مواقع کومسدود کیا جا سکے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت حد بندی کے عمل میں اپنائے گئے رائج طریقہ کار اور چالاکیوں کی شدید مذمت کرتی ہے اور اقلیتوں اور دیگر پسماندہ گروہوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ حلقہ بندی کے عمل کے دوران اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے چوکس رہیں اور حلقہ بندی کے مختلف مراحل میں ریاستی چیف الیکٹورل افسران، نیشنل الیکشن کمیشن اور ضلع مجسٹریٹ (جو اپنے متعلقہ اضلاع کے لیے الیکشن آفیسر بھی ہوتے ہیں) کے ذریعے حتمی نوٹیفکیشن سے قبل ضروری اصلاحات کا مطالبہ کریں۔ مسلم مجلسِ مشاورت ماضی میں حلقہ بندی کے قوانین اور قواعد کی خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کرتی ہے جو وقتاً فوقتاً عمل میں آئیں۔مشاورت کا پختہ یقین ہے کہ ہندوستان کے الیکشن کمیشن، ریاستی چیف الیکٹورل افسران، اور ضلع مجسٹریٹس کو ان خلاف ورزیوں سے مہذب اور جرات مندانہ طورپر آگاہ کیا جانا چاہیے اور بروقت سوالات اٹھانے چاہئیں کہ ضروری اصلاحات کا عمل کب شروع کیا جائے گا اور حلقہ بندی کا حتمی نوٹیفکیشن کب جاری کیا جائے گا۔ہماراماننا ہےکہ ان اصلاحات کو سماجی تنظیموں کی طرف سے سروے اور حکومت کے دستیاب اعداد و شمار پر مبنی تحقیق کے ذریعے مسلسل مکالمے کے ذریعے یقینی بنایا جانا چاہیے۔ مشاورت کا یہ اجلاس اس بات کی بھی توثیق کرتا ہے کہ اس مسئلے کو سستی سیاسی تشہیر کے لیے سماجی کام کے نام پر عوامی طور پر اچھالنے کے بجائے، بنیادی مقصد پر سنجیدگی سے توجہ مرکوز کرنا زیادہ فائدہ مند ہوگا جو کہ مسلمانوں اور دیگر پسماندہ گروہوں کے عوام کے انتخابی حقوق کی حفاظت ہے۔ مسلم مجلس مشاورت یہ بھی تجویز کرتی ہے اور اپیل کرتی ہے کہ دونوں کمیونٹیز، یعنی دلت اور مسلمانوں کی معتبر سماجی قیادت سیاسی بصیرت کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کرے تاکہ قومی مردم شماری کے بعد شروع ہونے والے حلقہ بندی کے عمل کے دوران مناسب ہم آہنگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ مجلسِ مشاورت کو امید ہے کہ سمجھداری غالب آئے گی اور مذہبی تنظیمیں اپنے اداروں کو اس عمل میں ملوث کرنے سے گریز کریں گی کیونکہ یہ ممکنہ طور پر ردعمل پیداکر سکتا ہے۔ پیش کنندہ:نوید حامد، ڈاکٹر سید ظفر محمود اور احمد جاوید کی آراء کے ساتھمقام:نئی دہلی