دکانوں پرنام لکھنے کا حکم مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی سرکاری کارروائی: مشاورت

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدرفیروزاحمد ایڈوکیٹ نے کانوڑیاتراکے دوران دکانوں پرنام لکھنے کےیوپی پولیس کے حکم کی شدیدمذمت کی  نئی دہلی (پریس ریلیز): آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کےصدر فیروزاحمد ایڈوکیٹ نے یوپی پولیس کے اس حکم کی سخت مذمت کی ہے کہ کانوڑ یاترا کے دوران 240 کلومیٹر طویل راستے میںواقع اپنی دکانوں پر مسلم دکاندار اپنا اور کارکنوں کانام نمایاں طور پرلکھیں۔انہوں نے کہا ہے کہ یہ مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی سرکاری کارروائی ہےجو مودی کے نئے بھارت میں یوپی پولیس انجام دے رہی ہے۔صدرمشاورت نے کہاہے کہ کسی جمہوری معاشرے میں یہ حرکت ہرگزقابل قبول نہیں ہے۔اتر پردیش میں اس قسم کی کارروائیاں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہندومسلم منافرت کو بڑھانے اوراس پر سیاست کی روٹیاںسینکنے کے لیے کی جارہی ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے چھواچھوت کی لعنت کو بڑھاوادیا جارہاہے جوقانوناً ایک قابل مواخذہ جرم ہے۔  واضح رہے کہ ریاست کے مظفر نگرضلع میں واقع ایک نام نہاد آشرم کےسنچالک سوامی یشویر مہاراج کی مانگ پر یوپی پولیس نے 2024 کی کانوڑ یاترا شروع ہوتے ہی دکانداروں کو ہدایت دے دی ہے کہ وہ اپنے ہوٹلوں اور ڈھابوں اپنا اور اپنے کارکنوں کا نام نمایاں طور پر درج کریں حتی کہ مسلمانوں کے پھلوں کے ٹھیلوں پربھی ان کے ناموں کی پرچی لگائی جارہی ہے۔ مظفرنگر کے ایس ایس پی ابھیشیک سنگھ کا کہنا ہے کہ ہمارے ضلع میں اس یاتراکا لگ بھگ 240 کلو میٹر راستہ ہے ، اس راہ میں جتنے بھی ہوٹل ڈھابے وغیرہ واقع ہیں،ان کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہاں کام کرنے والے اور دکانداروں کا نام ضرور درج کریں تاکہ کھانے پینےکی اشیا خریدتے وقت کسی کوبھی کسی قسم کا کوئی کنفیوزن نہ رہ جائے۔ آل انڈیا مسلم مشاورت نےایس سی ایس ٹی کمیشن، قومی اقلیتی کمیشن،قومی انسانی حقوق کمیشن اور مجازحکام اعلیٰ سے فوری مداخلت کی مانگ کی ہےاور کہا ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں سے ملک کے سماجی تانے بانے کو سخت خطرات لاحق ہیں۔

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت پر قبضہ کرنے کی مذموم سازش کے جواب میں مکتوب بنام ارکان و ہمدردان مشاورت

آستینوں میں چھپالیتی ہے خنجر دنیا                                                                                                                                                 اورہمیں چہرے کا تاثر نہ چھپانا آیا ملک میں اپنی نوعیت کی واحدتاریخی تنظیم” آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت” کا قیام  1964 میں مسلم جماعتوں کے مشترکہ پلیٹ فارم کے طورپر جن حالات     میں ہوا تھا،آج ہمارے سامنے ان سےکہیں زیادہ مشکل حالات ہیں اورکسی ذی شعورمسلمان کو احساس دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اتحادویکجہتی کی قدروقیمت کیاہے۔پھربھی ہمیں مشاورت کے معزز ارکان کو یہ خط لکھنا پڑرہا ہےجوانتہائی تکلیف دہ ہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے سابق صدر اور سابق رکن ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں صاحب نےارکان مشاورت کوخط لکھ کرایک بار پھر اختلاف و انتشارکوہوادینے اور غلط فہمیاں پیداکرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس سے زیادہ افسوس کی  بات یہ کہ وہ رجسٹرڈ مشاورت کا صدر ہونے کے دعویدارہیں اور لوگوں کو مشاورت کارکن بنانے کے نام پر چندہ کی مہم چلارہے ہیں جوان کا سراسر بےبنیاد دعویٰ اورگمراہ کن فعل ہے۔  اول تو اس گروپ کا جس نےاس وقت کےصدر مشاورت سید شہاب الدین مرحوم کی مخالفت میں مشاورت سےالگ ہوکر 2003میں سوسائٹی رجسٹرڈکرائی تھی، 2013میں اصل مشاورت کے ساتھ باضابطہ انضمام ہوچکا ہے اور رجسٹریشن کے اصل کاغذات ہماری کی تحویل میں ہیں،لہٰذا ایسی کسی سوسائٹی کا کوئی علاحدہ یامتوازی وجود اب کہیں باقی نہیں ہے۔خودراقم السطور شیخ منظوراحمدکوبھی اسی رجسٹرڈمشاورت نے رکنیت دی تھی اوراسی انضمام و اتحادکے نتیجے میں یہ حقیراب آل انڈیامسلم مجلس مشاورت کاحصہ ہے ۔دوم ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں 2022 سے مشاورت کے رکن بھی نہیں ہیں، تادیبی کارروائی کے تحت موصوف کی رکنیت منسوخ ہوگئی تھی کیونکہ انہوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے مشاورت اور اس کی جائیدادوں پر مستقل قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی جس کی تفصیلات ارکان مشاورت کے علم میں ہیں۔ مشاورت کے تنظیمی امور میں مداخلت کا کوئی حق آں موصوف کو نہیں پہنچتا، ان کی یہ سرگرمیاں سراسر ناجائز اور قانوناً قابل مواخذہ ہیں۔وہ اور ان کے پیچھے جولوگ بھی ہیں مشاورت میں رجسٹرڈ سوسائٹی کے انضمام واتحاد کوتباہ کرنے کی مذموم سازش اورذاتی مفادات کےحصول کے لیے مشاورت کوناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں جوان شاء اللہ کامیاب نہیں ہوگی۔ضرورت ہے کہ ان عناصر کی سازشوں کا قلع قمع سختی سے کیا جائے ورنہ اتنا تفصیلی خط لکھنا اور آپ کو زحمت توجہ دینا کوئی خوشگوار عمل نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مکتوب (مرقومہ29اپریل 2024 ) کے ذریعے ارکان مشاورت کی میٹنگ بلائی ہےاورلوگوں کو ورغلانے کے لیےانہوں نے مشاورت پر اپنےبےبنیادسنسنی خیز الزامات کا اعادہ کیا ہے،مثلاً دستور مشاورت میں منمانی ترمیمات کی گئیں،مشاورت سے 70 ارکان کو نکال باہر کیاگیا اور غیرمعیاری لوگوں کو مشاورت کی رکنیت دی گئی جبکہ ان کا ایک بھی دعوی حقیقت سےقریب نہیں ہے۔ڈاکٹر خان کے دعووں کی دستاویزی تردیدمشاورت کے کاغذات میں موجود ہے ۔وہ اپنے زیرنظر مکتوب میں اپنی تحریروں، تقریروں اور مشاورت کی کارروائیوں میں موجود ان مندرجات کے برخلاف دعوے کررہے ہیں جن پر ان کے دستخط موجود ہیں ۔زیرنظرمکتوب میں آپ ان کی نکات وارتفصیلات د یکھ سکتے ہیں۔   جیساکہ آپ جانتے ہیں،مشاورت کے دستور میں کبھی کوئی منمائی ترمیم نہیں کی گئی اور ایسا کرناممکن بھی نہیں ہے۔اگریہ ممکن ہوتاتو ڈاکٹرصاحب موصوف اپنے دور صدارت کے آخری ایام میں ترمیم لانے کی جوکوشش کررہے تھے، ناکام نہ ہوتی ۔دستورمیں جو ترامیم آخری بار لائی گئی ہیں،ان  میں ہرترمیم کو 67 فیصد سے 81 فیصد تک ارکان مشاورت کی تائید حاصل ہے اورترمیم شدہ دستور کے نفاذ کے بعد مشاورت کی مجلس عاملہ کے انتخابات (برائےمیقات 2026-2023 ) میں 85 فیصد سے زیادہ ارکان نے حصہ لیا اور منصب صدارت کے لئے دو امیدواروں کے درمیان دوستانہ مقابلہ میں منتخب امیدوار کو تقریباً 57 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ڈاکٹر صاحب موصوف کااعتراض ان کے آمرانہ مزاج کا اشتہار اورایک انتہائی غیرجمہوری فعل ہے۔ دستور میں ترمیم یا اس کی کسی شق پر اختلاف رائے کو مسئلہ بناکر انتشار کو ہوا دینا ہر گز کوئی دانشمندی نہیں ۔جو لوگ بھی اس طرح کے کام کررہے ہیں،مسلمانوں کے اتحاد اور ملی تنظیموں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ مشاورت ایک جمہوری تنظیم ہے اور دستور مشاورت میں ترمیم و تصحیح کا دروازہ ہر وقت کھلا ہواہے ۔ ارکان مشاورت جب چاہیں دستور میں مذکور ضوابط (Due  process)کے تحت ایسا کر سکتے ہیں ۔ اگر دستور کی کسی شق پر کسی کے پاس کو ئی معقول اعتراض ہے تو وہ اپنی تجاویز مشاورت میں پیش کرے نہ کہ لوگوں کو ورغلاکر جتھے بنائے اوران کے دلوں میں وسوسے ڈالے۔ جن ارکان کی رکنیت دستورمشاورت کی روشنی میں ان کی عدم فعالیت اور ڈفالٹ کی بناپر منسوخ ہوئی تھی، ان کے تعلق سےڈاکٹر ظفرالاسلام خان صاحب نے اپنے خط میں دعوی کیا ہے کہ 70 ارکان کا مشاورت سے اخراج کردیا گیا جبکہ غیرفعال ارکان کی رکنیت منسوخ کرنے کی قرارداد خود ان کی اپنی صدارت میں منعقدہ مشاورت کی جنرل باڈی اور مجلس عاملہ کی 5 ِ دسمبر 2015ء کی مشترکہ میٹنگ میں منظورکی گئی تھی اوربالآخر 12 فروری 2017 کی جنرل باڈی میٹنگ میں جس میں ڈاکٹر ظفرالاسلام خان صاحب بنفس نفیس موجود تھے اور اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ ان ایکٹیو ارکان کا اخراج ہو، یہ طے کیا گیا تھاکہ فی الحال ایسے 14 ان ایکٹو (غیر فعال) ارکان کا اخراج کیا جائے۔ غیر فعال  ارکان کا معاملہ اکتوبر 2018 کی حیدرآباد میں منعقد جنرل باڈی میٹنگ میں بھی زیر بحث آیا اور پھر27ِ فروری 2021 کوبھی اس معاملے پر آسام سے رکن جناب حافظ رشید احمد چودھری صاحب(جن کی حمایت کےڈاکٹرصاحب دعویدارہیں) کی تحریری قرارداد میٹنگ میں پیش ہوئی۔دستور کی متعلقہ شقوں اور قراردادمشترکہ اجلاس (5دسمبر2015) کی روشنی میں اس پرکارروائی کے نتیجے میں جن غیر فعال ارکان کی رکنیت منسوخ کی گئی، ان کی

نفرت انگیز فلم  ’ ہمارے 12‘کی ریلیز پر پابندی لگانے کا مطالبہ

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے سینسر بورڈ کو خط لکھا نئی دہلی 29مئی 2024: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے ’ہم دو ہمارے 12‘ نام کی فلم کے ٹریلر پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک نہایت زہریلی اور شر انگیز فلم ہے جو مسلمانوں کو بد نام کرنے اور نفرت پھیلانے کے ارادے سے بنائی گئی ہے۔ صدر مشاورت نے فلم سینسر بورڈ آف انڈیا کے نام خط لکھ کر اس فلم کی ریلیز پر فی الفور پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ 7جون کو ریلیز کی جانے والی یہ فلم اسلام، مسلمان،مسلم خواتین اور ہندوستانی مسلم سماج کو بد نام کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ جس کے خلاف ایکشن لینا ضروری ہے تاکہ اس فتنے کی بر وقت سرکوبی کی جاسکے۔ صدر مشاورت نے ملک کے انصاف پسند شہریوں سے اپیل کی ہے کہ اس فلم کے پروڈیوسر کو ایک خاص مذہبی طبقے کے خلاف نفرت پھیلانے کی اجازت ہر گز نہ دیں۔ سماج کے امن کو تباہ کرکے پیسہ کمانے کی حوصلہ افزائی کی گئی تو یہ لعنت وبا کی صورت اختیار کرلے گی۔ انھوں نے کہا کہ نفر ت کی تجارت ملک کو تباہ کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔

عدالتی تحویل میں ایک کے بعد ایک اموات جمہوریت اور انصاف کا قتل ہے: مشاورت

نئی دہلی، 29 مارچ 2024: اتر پردیش کے سابق رکن اسمبلی مختار انصاری کی موت جمعرات کوجن حالات میں ہوئی، وہ بادی النظر میں ایک منصوبہ بند سازش اور قانون وانصاف کا کھلاقتل ہے،اس کی اعلیٰ سطحی جانچ کرائی جائے، مرحوم کے جسد خاکی کا پوسٹ مارٹم اترپردیش کے باہر کے معالجوں کی ٹیم سے کرایا جائے اور ان کے قتل کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزادی جائے۔ باندہ ضلع کی جیل میں قیدمؤ کے سابق رکن اسمبلی کی مشتبہ موت پر اظہارتعزیت کرتے ہوئے یہ مطالبہ ملک کی مسلم تنظیموں کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے کیا ہے۔مشاورت کے صدر فیروزاحمد ایڈوکیٹ کی جانب سے جاری کردہ اس بیان میں سپریم کورٹ آف انڈیا سے کہا گیا ہے کہ اس واردات کاازخود نوٹس لینا چاہیے۔مشاورت نے مرحوم لیڈر مختار انصاری کی بیوہ محترمہ آصفہ انصاری، ان کے بیٹے عباس اور عمر، ان کے بھائی افضال انصاری اور جملہ پسماندگان کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوپی میں جس طرح ایک کے بعد ایک مسلم لیڈروں کے قتل کی وارداتیں انجام دی جارہی ہیں،وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔ بیان میں کہاگیاہے کہ مختار انصاری اور ان کے بیٹے عمر نے اس اندیشے کا بار بار اظہار کیا تھا کہ جیل میں ان کو قتل کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔گذشتہ سال عمر انصاری نے کہا تھا کہ ان کے والد کی جان کو خطرہ ہے اورانھوں نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ آف انڈیا سے رابطہ بھی کیا تھا۔عدالت میں دی گئی درخواست میں کہا گیا تھا کہ مختار انصاری کو مصدقہ اطلاع ملی تھی کہ ان کی جان کو شدید خطرہ ہے اور باندہ جیل میں انھیں قتل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔دو روز قبل منگل کو ان کی طبیعت بگڑنے پر انھیں اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا اوروہ انتہائی نگہداشت وارڈ میں رکھے گئے تھے لیکن ان کو جلد ہی واپس جیل بھیج دیا گیا۔ تحقیقات کا موضوع یہ بھی ہے کہ ان کو اس حالت میں اسپتال سے واپس جیل کیوں اور کس کے دباؤ میں بھیجا گیا۔جمعرات کی شب دوبارہ بے ہوشی کی حالت میں ان کو رانی درگاوتی میڈیکل کالج میں داخل کرایا گیاجہاں مڈیکل بلیٹن کے مطابق ڈاکٹروں کی ٹیم ان کو بچا نہیں سکی۔ مشاورت کا ماننا ہے کہ یہ فطری موت ہرگز نہیں ہے، ایک شخص نے کچھ دن پہلے الزام لگایا تھا کہ اسے زہر دیا جا رہا ہے، وہ سنگین حالت میں اسپتال میں بھرتی کرایا گیا لیکن اس کو جلدہی واپس بھیج دیا گیا، اگلے دن بے ہوشی کی حالت میں اسے دوبارہ اسپتال لایا گیا اوراب انتظامیہ کہہ رہی ہے کہ اس کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے۔ اس کی اعلیٰ سطحی تحقیقات ہونی چاہیے اورعدالت کی نگرانی میں تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ جیلوں میں کیا ہو رہا ہے۔

حکومت کے ذریعہ متنازعہ سی اے اے قانون کو نافذ کرنے کے فیصلہ کا مشاورت مذمت کرتی ہے

نئی دہلی: ہندوستانی مسلمانوں کے واحد وفاقی ادارہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت مودی حکومت کے ذریعہ متنازعہ CAA 2019 قانون  کے لیے قواعد کا ملک میں نفاذ  کے نوٹیفکیشن کا عام انتخابات کے اعلان سے عین قبل لئے گئے فیصلے پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتی ہے۔یہ فیصلہ تفرقہ انگیز نوعیت کا ہے جوسیاسی فائدے کے لیے لیا گیا ہے اور اس کا مقصد مختلف محاذوں پر حکومت کی ناکامی سے توجہ ہٹانا بھی ہے۔مودی حکومت نے متنازعہ قانون کے قوانین کو نوٹیفائی کرنے کا متنازعہ فیصلہ اس حقیقت کے باوجود لیا ہے کہ اسے ملک بھر کی سول سوسائٹی کے مختلف گروپوں کی جانب سے ملک کی عدالت عظمی- سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے اور اس کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے۔مشاورت کی پختہ رائے ہے کہ حکومت کے اس فیصلے نے نہ صرف لوگوں کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی فرقہ وارانہ سیاست کو نہ صرف ایک بار پھر بے نقاب کر دیا ہے اور اس خطرناک فیصلہ سے شمال مشرقی ریاستوں میں بنگلہ دیش سے بڑے پیمانے پر غیر قانونی تارکین وطن کا سیلاب امڈ آئیگا اور شمال مشرقی ریاستوں کی مقامی آبادی کے تناسب کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔مزید برآں، پڑوسی ممالک سے مہاجرین کی بڑے پیمانے پر آمد معیشت پر بوجھ ہو گی اور ملک کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع کو مزید کم کر دے گی? جو پہلے ہی پرخطر ملازمتوں کا انتخاب کرنے اور اسرائیل اور روس کے جنگی علاقوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوانوں کو جن پر ریاست کی طرف سے قومی وسائل کا ایک اچھا خاصہ حصہ ان کی تعلیم پر خرچ کیا گیا تھا، اور یہ نوجوان جو ملک میں ملازمتوں کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کر رہے ہیں اور ہندوستانی شہریت تک ترک کر رہے ہیں، ان کو روکنے کے منصوبوں پر کام کرنے کے بجائے  وہ تعصب اور تشدد سے پاک ماحول میں روزگار کے بہتر مواقع کے لیے یورپ، روس، امریکہ اور مشرق بعید کے ممالک کی طرف مستقل ہجرت کر رہے ہیں، ایسے نوجوانوں کو ملک کی تعمیر میں حصہ دار بنانے کے موقع فراہم کرنے کے بجائے حکومت نے ووٹ بینک کی تقسیم کرنے والی سیاست کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔مشاورت کے اس وقت کے صدر جناب نوید حامد صاحب نے سال 2019 میں اس متنازعہ سی اے اے قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا لیکن بدقسمتی سے معزز عدالت میں اب تک اس تعلق صرف دو سماعتیں ہوئیں۔ اب اس نئی پیشرفت کے ساتھ، مشاورت سی اے اے (2019) کے متنازعہ قانون کو لاگو کرنے کے متنازعہ فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے اپنے ماہر قانونی مشیروں سے رابطے میں ہے۔

 مشاورت کا ہلدوانی معاملے پر سخت تشویش کا اظہار، بلاجوازتشدد کی مذمت اور اعلیٰ سطحی جانچ کا مطالبہ

نئی دہلی:بھارتیہ مسلمانوں کے ممتاز وفاقی ادارہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر جناب فیروز احمد ایڈوکیٹ نے ہلدوانی کے بن بھول پورہ میں مدرسہ، مسجد اور درگاہ پر ہوئی انہدامی کارروائی کے بعد پولیس انتظامیہ کے جانب سے فرقہ وارانہ انتقامی کارروائی پر سخت تشویش  کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ریاستی انتظامیہ نے بلا کسی جواز کے اور جان بوجھ کر اقلیتی فرقہ کے لوگوں کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کے تحت ریاست اور ملک کے دوسرے علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ آنے والے لوک سبھا انتخابات میں حکمراں جماعت کو سیاسی فائدہ مل سکے۔ صدر مشاورت جناب فیروز احمد ایڈوکیٹ نے اس پورے معاملے کی اعلیٰ سطحی جانچ کا مطالبہ کیا اور کہا کہ  پولیس کی کارروائی میں ناحق  مارے گئے لوگوں کے اہل خانہ کو  فی کس 50لاکھ روپے معاوضہ دینے کے ساتھ اس گھناؤنے معاملے میں ملوث افراد کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے۔ پولیس کی ظلم اور زیادتی کی وجہ سے اب تک سینکڑوں لوگ فساد زدہ علاقے سے نقل مقانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ یہ ظلم کی انتہا ہے اور کوئی بھی انصاف پسند معاشرہ اس کو قطعی برداشت نہیں کر ے گا۔ بچوں اور خواتین پر پولیس کی پر تشدد کارروائی سخت قابل مذمت اور ناقابل قبول ہے۔  صدر مشاورت نے کہا کہ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ عدالت عالیہ نے اس پورے علاقے میں انہدام پر حکم امتناعی دے رکھی لیکن اس کے باوجود مقامی انتظامیہ نے جان بوجھ کر اقلیتوں کے دینی مقامات کو نشانہ بنایا، ان کے جذبات کو مجروح کیا اور ان کو جانی و مالی نقصان پہنچایا۔  مشاورت نے سپریم کورٹ سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ عدالت عظمیٰ اس پورے معاملے پر ازخود نوٹس لے اور جن اہلکاروں نے عدالت کے فیصلہ کے خلاف ورزی کی ہے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ مشاورت کے صدر نے ملک کے انصاف پسند لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف کھڑے ہوں،ملک کے سماجی تانے بانے کو بکھرنے اور قانون کی حکمرانی کو تباہ ہونے نہ دیں۔ انھوں نے کہا کہ دہلی اور یوپی سمیت ملک کے مختلف مقامات پر اس قسم کی اشتعال انگیز ظالمانہ کارروائیاں اور سرکاری فورسزکا ناروا استعمال غماز ہے کہ یہ واقعات اتفاقی اور الگ تھلگ نہیں ہیں بلکہ  منصوبہ بند سازش کا حصہ ہیں۔

سنہری مسجدمعاملے میں این ڈی ایم سی کے نوٹس پرمسلم مجلس مشاورت کا شدید ردعمل

نئی دہلی: بھارتیہ مسلمانوں کے ممتاز وفاقی ادارہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے نئی دہلی کی تاریخی سنہری مسجدکے تعلق سے این ڈی ایم سی کو خط لکھ کر اس کی کارروائی کی پرزور مذمت کی ہے۔ صدر مشاورت جناب فیروز احمد ایڈوکیٹ کے دستخط سے این ڈی ایم سی کو بھیجے گئے مکتوب میں کہا گیا ہے کہ اس تاریخی مسجداور قومی و ثقافتی ورثہ کے ہٹانے یا منہدم کرنے کی سازش کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے جس کو نئی دہلی کی تعمیر کے وقت اوردارالحکومت کولکاتہ سے نئی دہلی منتقل کرنے کے دوران برٹش نو آبادیاتی نظام نے بھی نہیں چھوا۔این ڈی ایم سی کے چیف آرکیٹکٹ کو لکھے گئے مکتوب میں کہاگیا ہے کہ سنہری مسجد تاریخی ورثہ ہے، وقف بورڈ کے زیر انتظام ہے، اس کو ہیری ٹیج کمیٹی یا کسی اور محکمہ کے مشورے سے منتقل یا منہدم نہیں کیا جاسکتا ہے، گاڑیوں کی آمدورفت منظم کرنے کی آڑ میں اس قومی ورثہ کومنہدم کرنے کی این ڈی ایم سی کی تجویز متعدد وجوہات کی بنا پر نہ صرف مسائل پیدا کرنے والی ہے بلکہ دہلی میں صدیوں سے قائم اسلامی ورثے کو مٹانے کی مذموم سوچ کا نتیجہ اور ملک کے آئین و قانون پر اس کا حملہ ہے۔مشاورت نے اپنے 9 نکاتی مکتوب میں این ڈی ایم سی کے ارادے کی خلاف آئین و قانون بنیادوں کو گنانے اور ان کی توضیح کرنے کے بعد مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے ناقابل قبول نوٹس کو فی الفور واپس لے۔مکتوب کا متن حسب ذیل ہے:یہ ’ٹائمز آف انڈیا‘، نئی دہلی میں مورخہ 24.12.2023 کو شائع ہونے والے آپ کے عوامی نوٹس کا جواب ہے جس میں ادیوگ بھون سے متصل رفیع مارگ نئی دہلی کے چوراہے پر گاڑیوں کی آمدورفت کو منظم کرنے اور وہاں واقع تاریخی سنہری باغ مسجد کو ہٹانے کے بارے میں اعتراضات اور مشورے طلب کیے گئے ہیں اور نوٹس کے جوابات دینے کے لیے صرف 8 دن یعنی یکم جنوری 2024 کی شام تک کا وقت دیا گیا ہے: ملک کی ممتاز مسلم تنظیموں اور افراد کا وفاق”آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت“ جو 1964سے قائم ہے، این ڈی ایم سی اور/ یا دیگر تمام محکموں کے اس اقدام کی پرزورمذمت کرتا ہے جن کی باتوں پر این ڈی ایم سی گاڑیوں کی آمدورفت کو منظم کرنے کے بہانے سنہری باغ مسجد کو منہدم کرنا چاہتی ہے۔مذکورہ سنہری باغ مسجد کو منہدم کرنے کی این ڈی ایم سی کی تجویز نہ صرف کئی وجوہات کی بنامسائل پیدا کرنے والی ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے دہلی میں صدیوں سے قائم اسلامی ورثے کی نشانیوں کو مٹانے کی خودغرضانہ سوچ کانتیجہ ہے۔این ڈی ایم سی کے ذریعے سنہری باغ مسجد کو ہٹانے کے ارادے کا پبلک نوٹس دہلی وقفہ بورڈ کی ہائی کورٹ میں پیش کردہ عرضی کو نمٹانے کے صرف 5 دن بعد مورخہ 18 دسمبر 2023 کو جاری کیا گیا۔ دہلی ہائی کورٹ نے ڈبلیو پی سی سی 8950/2023 اور سی ایم اے پی پی ایل 34086/203 میں مسجد کے انہدام کے تعلق سے این ڈی ایم سی کی طرف سے واضح یقین دہانی کے بعد ہی داخل دفتر کیا ہے کہ کونسل قانونی پوزیشن کی خلاف ورزی نہیں کریگی اور اب جس رفتار سے این ڈی ایم سی نے معزز عدالت کو اپنی یقین دہانی کے ایک ہفتہ کے اندر نوٹس جاری کیا ہے، وہ شرانگیز قدم ہے اور اسے قانونی ابہام کے ساتھ جاری کیا گیا ہے جس کا مقصد سنہری باغ مسجد کے انہدام کو قانونی رنگ دینا ہے۔ سنہری باغ مسجد نہ صرف ایم ڈی سی کے ذریعے کنزرویشن کمیٹی کے مشورے پرنوٹیفائڈ ہیریٹیج سائٹ (تاریخی ورثہ) ہے بلکہ یہ ایک وقف جائیدادبھی ہے جس کا انتظام دہلی وقف بورڈ کے ذریعے کیا جاتا ہے جودہلی کی حکومت(خطہ قومی راجدھانی)کا ایک خودمختارادارہ ہے اور یہ عملی طور پرایک مسجد ہے۔ صدیوں تک اور یہاں تک کہ برٹش حکومت کے نوآبادیاتی دور میں بھی جب لٹین دہلی تعمیر کی گئی اور دارالحکومت کوکلکتہ سے نئی دہلی منتقل کیاگیا، اسے چھوا نہیں گیا۔وقف املاک کے ناطے،مذکورہ سنہری باغ مسجد کو ہیریٹیج کمیٹی کے فیصلے کے ذریعے بھی منتقل یا منہدم نہیں کیا جاسکتا۔پارلیمنٹ کے ذریعے نافذالعمل وقف ایکٹ 1995 کی روسے وقف املاک کو فروخت، لیز یاتبادلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے این ڈی ایم سی ایکٹ 1994 کے تحت جاری کردہ محولہ بالا ن پبلک نوٹس سنہری باغ مسجد کے معاملے میں بلاجوازو غیرمتعلق ہے۔یہ معاندانہ فیصلہ عبادت گاہ (خصوصی انتظامات) ایکٹ 1991 کے التزامات کے منافی بھی ہے اور اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ مذکورہ قابل اعتراض عوامی نوٹس جوتاریخی سنہری باغ مسجد کو ہٹانے/مسمارکرنے کے ارادے کا اعلان کرنے کے لیے جاری کیا گیا ہے،نہ صرف مذہبی آزادی کے بنیادی حقوق پراین ڈی ایم سی کا حملہ ہے بلکہ یہ ملک کے آئین کی دفعہ 29 کی خلاف ورزی بھی ہے جو شہریوں کو اپنے ثقافت کے تحفظ اور اس کی حفاظت کے حقوق دیتا ہے۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ لٹین دہلی میں اور بھی بہت سے چکر(چواراہے) ہیں جو روزانہ کے معمول کے ٹریفک کے بہاؤکے لیے رکاوٹ بنتے ہیں، سب سے اہم کرشی بھون اور جن پتھ-موتی لال نہرو مارگ اور تغلق روڈ-اکبر روڈ کے آس پاس کے گول چکرہیں۔ حیرت انگیز طور پر ٹریفک کو منظم کرنے یا ان چکروں کے دائرے کو مختصر کرنے کے فیصلوں کا فقدان این ڈی ایم سی اور دیگر محکموں کے اصل مقاصد کو واضح طور پر بے نقاب کرتا ہے جن کے مشورے پر تاریخی مسجد کو منہدم کرنے کے ارادہ کی رفتارتیز کی جا رہی ہے۔ این ڈی ایم سی کو یہ یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ تاریخی سنہری باغ مسجد نے تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ یہ آزادی کے رہنماؤں اور سب سے اہم مولانا حسرت موہانی کی میٹنگوں کا مرکز تھا جنھوں نے تحریک آزادی کو تیز کرنے کے لیے ”انقلاب زندہ باد“ کا نعرہ دیا اور 1921 میں پہلی بار کانگریس کے احمد آباد اجلاس میں ”مکمل آزادی“ کی قرارداد پیش کی۔نکات بالا کی روشنی میں،آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت تاریخی مسجد کو منہدم کرنے

 صدرمشاورت نے جموں و کشمیر میں بڑھتے ہوئے تشدد پر تشویش کا اظہار کیا

بتاریخ: 26دسمبر،2023 (پریس ریلیز) نئی دہلی:بھارتیہ مسلمانوں کے ممتاز وفاقی ادارہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر جناب فیروز احمد ایڈوکیٹ صاحب نے جموں و کشمیر میں تشدد کے ان تازہ واقعات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا جن میں دہشت گرد گروپ کے ذریعہ راجوری ضلع میں فوجی گاڑی پر گھات لگا کر حملہ، سیکیورٹی فورسز کی تحویل میں معصوم شہریوں کے قتل اور نامعلوم افراد کے ذریعہ سابق ایس ایس پی محمد شفیع میر کا گولی مار کر قتل کیا گیا۔ مرکزی حکومت کے زیر انتظام علاقے میں ہونے والے ان دہشت گردانہ حملوں نے بلاشبہ یہ ثابت کر دیا ہے کہ مرکزی حکومت کے ذریعہ آرٹیکل 370 کی منسوخی اور سابقہ ریاست کی تقسیم کے بعد بھی شورش زدہ جموں و کشمیر میں امن اور معمولات کو بحال کرنے کا مودی سرکار کا بلند و بالا دعویٰ نہ صرف بے نقاب ہوگیا ہے بلکہ یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں سکیورٹی کی صورتحال خراب ہے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے چار سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی زمینی سطح  پر کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور تشدد کے واقعات یہ بھی اشارہ کرتے ہیں کہ دہشت گرد اور دہشت گردی کے ماڈیول جموں و کشمیر میں آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں اور یہ کہ تیزی سے بڑھتے دہشت گردی کے واقعات نے حقیقی اور تشویشناک صورتحال کے طور پر حکومت کے امن کے بیانیہ سے متصادم ہے۔ صدرآل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے سیکورٹی فورسز کے ذریعہ پوچھ گچھ کے دوران تین شہریوں کی ہلاکت پر بھی اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا اور اسے ایک سنگین تشویش کا معاملہ قرار دیا کیونکہ یہ ہلاکتیں مقامی آبادی کو مزید الگ کر دیتی ہیں۔ اگرچہ ریاستی انتظامیہ اور فوج نے تحقیقات کا اعلان کیا ہے لیکن آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا مطالبہ ہے کہ ہلاکتوں کی تحقیقات نہ صرف فوج بلکہ ایک سینئر سول جج کے ذریعہ بھی ہونی چاہئیں تاکہ اصل سچائی منظر عام پر آسکے۔ صدر مشاورت نے اپنے بیان میں کہا کہ اگرچہ سیکٹر کمانڈر اور سیکورٹی فورسز کے دیگر اعلیٰ افسران کو دوسری جگہوں پر منتقل کر دیا گیا ہے لیکن یہ واقعہ خود ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردانہ حملے کے بعد معصوم مقامی نوجوانوں سے پوچھ گچھ کے دوران سیکورٹی ایجنسیوں کی جانب سے غیر انسانی رویہ اپنایا گیا اور اس واقعے نے حقیقی طور پر لوگوں میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا ہے کیونکہ حراست میں مارے گئے تین شہریوں میں سے دو نے اس اندوہناک واقعے سے قبل طویل عرصے تک سیکیورٹی فورسز کے لیے کام کیا تھا اور یہ کہ اگرچہ پولیس نے اس معاملے میں ایف آئی آر درج کر لی ہے، لیکن مشاورت کو امید ہے کہ جانچ شفاف طریقے سے کی جائے گی تاکہ قصوروار وں کو سزا مل سکے۔